0
Sunday 28 Feb 2021 09:13

بن سلمان کیلئے خطرے کی گھنٹی

بن سلمان کیلئے خطرے کی گھنٹی
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

امریکہ کی بعض خفیہ دستاویزات میڈیا کے سامنے آئی ہیں، جس میں بن سلمان کو سعودی صحافی جمال قاشقچی کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس خفیہ رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد بالخصوص ایسی صورتحال میں کہ امریکی حکام نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں سعودی حکام سے کسی قسم کی گفتگو نہیں کریں گے۔ سعودی ولی عہد بن سلمان کی ساکھ دائو پر لگ گئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس امریکی اقدام کے بعد سعودی عرب میں بن سلمان کی سیاسی حیثیت کو سخت دھچکہ پہنچا ہے۔ سعودی ولی عہد گذشتہ کچھ عرصے سے اپنے آپ کو امریکہ کا بہت ہی قریبی اتحادی قرار دیتے رہے ہیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی شکست کے بعد بن سلمان اپنے قریبی دوست سے محروم ہوگیا ہے۔ جمال قاشقچی کے اس قتل نے بن سلمان کی تشدد پسند شخصیت کو مزید نمایاں کر دیا ہے، اس صورتحال کے آل سعود خاندان کے اندر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ بن سلمان کے سعودی فرمانروا بننے کے راستے میں کئی نئی مشکلات جنم لیں گی اور خاندان کے اندر بن سلمان کے خلاف مخالفتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

دوسرا اہم موضوع ایسی دستاویز کی روشنی میں بن سلمان کے خلاف عالمی پابندیوں کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔ اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر کے مطابق اگر بن سلمان پر براہ راست جمال قاشقچی کے قتل کا حکم ثابت ہو جائے تو عالمی سطح پر اس کا سخت ردعمل سامنے آئے گا اور اقوام متحدہ بھی اس حوالے سے اپنا سخت پیغام دے گی۔ اقوام متحدہ کے رپورٹر نے مزید کہا ہے کہ ہم وائٹ ہائوس سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف بن سلمان کی اموال و جائیداد پر پابندیاں عائد کرے بلکہ ان کے بین الاقوامی معاملات کو بھی پابندیوں میں شامل کرے۔ امریکہ کی طرف سے بن سلمان کے خلاف کسی قسم کی پابندیاں عائد کرنا بعید نظر آتا ہے، لیکن بین الاقوامی دبائو اور عالمی رائے عامہ کی نفرتوں میں ضرور اضافہ ہوگا۔ تیسرا اہم موضوع یہ ہے کہ اس مسئلے کی وجہ سے بن سلمان کی سعودی حکمرانی کا خواب چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے اور اس کے رقیب دوسرے شہزادوں کی سیاسی و اخلاقی پوزیشن میں بہتری آجائے گی۔

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق موجودہ امریکی حکومت کی نگاہیں محمد بن نائف پر ہیں، جسے بن سلمان نے سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیا تھا۔ بروکینگز انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ اسکالر برونس ریڈل نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ عالمی براداری کو محمد بن نائف کی آزادی کے لیے آواز اٹھانی چاہیئے۔ بن نائف کا جرم صرف اتنا ہے کہ بن سلمان ان کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھتا ہے۔ محمد بن نائف نے اگر سینکڑوں نیہں تو دسیوں امریکیوں کی زندگی کو نجات دلائی ہے اور القاعدہ کے خلاف موثر اقدامات انجام دیئے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے بن سلمان پر مسلسل دبائو کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر محمد بن نائف کی سیاسی حیثیت کو بحال کریں، کیونکہ بن نائف نے امریکہ کا کئی مواقع پر کھل کر ساتھ دیا ہے۔ بہرحال امریکہ کی طرف سے جاری کردہ اس دستاویز کے بن سلمان کی ذاتی اور سیاسی شخصیت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ بات واضح اور نمایاں ہوگی ہے کہ سعودی ولی عہد بن سلمان ایک غیر پختہ، غیر سنجیدہ اور جذباتی شخصیت ہیں۔

امریکہ بن سلمان سے ناراض ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی ولی عہد کو واشنگٹن کو راضی کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر پٹروڈالر بن سلمان کی نجات کا باعث بنیں گے۔ بات اگر پیٹروڈالر تک محدود ہوتی ہے تو سعودی حکمران یہ عمل پہلے بھی انجام دے چکے ہیں لیکن اس بار جو بائیڈن بن سلمان کو ایک تشدد پسند فرد پیش کرکے بعض داخلی اصلاحات کا عملی مطالبہ کرنا چاہتا ہے۔ امریکی خفیہ ادارے آل سعود خاندان کے نظام کو اس قدر کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ کے کسی بھی حکم کے سامنے سر نہ اٹھا سکے۔ سعودی عرب نے ابھی تک غاصب اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے اور اس کی ایک وجہ آل سعود خاندان میں اس کے بارے میں معمولی نوعیت کا اختلاف ہے۔ امریکہ اس اختلاف کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنی بات کے منوانے کے لیے راستے میں کسی بہانے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آل سعود کے پاس اس وقت ایسا کوئی سیاسی، سماجی، اقتصادی، اخلاقی اور عوامی ہتھیار نہیں ہے، جس کو وہ پیش کرکے اپنی ساکھ کو امریکہ کے سامنے بحال کرسکے اور اپنے اقتدار کو بچا سکے۔

امریکہ نے بن نائف کو نئے ولی عہد کے طور پر لانچ کر دیا ہے۔ اب بن سلمان اور بن نائف کے درمیان امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جنگ تیز ہو جائے گی۔ دونوں کے پیچھے یعنی بن سلمان اور بن نائف کے پیچھے مضبوط لابیاں ہیں۔ بن سلمان نے ڈونالڈ ٹرمپ اور اس کے داماد کوشنر کی چھتری کے نیچے بن نائف کو دیوار سے لگا دیا تھا لیکن بن سلمان کی موجودہ کمزور پوزیشن بن نائف کو ایک بار پھر بھرپور وار کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اگلا قدم کیا اٹھاتا ہے۔ امریکہ کے پاس اس وقت سعودی حکمرانی کے لیے تین آپشن موجود ہیں، ایک آپشن بن سلمان، دوسرا بن نائف اور تیسرا آپشن وہ اصلاح پسند روشن فکر طبقہ ہے، جو عرصے سے امریکہ کی سرپرستی میں امریکہ اور یورپ میں آل سعود کی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہا ہے۔ بظاہر اس لابی کی آواز کمزور ہے، لیکن اگر امریکہ نے اس پر ہاتھ رکھ دیا اور آل سعود خاندان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا تو یہ حلقہ اندروں ملک اور بیرون ملک مضبوط طاقت بن کر ابھر سکتا ہے۔

سعودی عرب کی موجودہ حکومت کے لیے تو صرف وہی بے گناہ قیدی ہی کافی ہیں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، جو بغیر کسی جرم کے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق تیس ہزار سے زائد سعودی شہری بغیر کسی جرم اور عدالتی و قانونی فیصلے کے بغیر سعودی ٹارچر سیلوں میں اپنی زندگی کے سخت ایام گزار رہے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب کے مشرقی علاقے بالخصوص وہ علاقے جو معدنی دولت سے مالا مال ہیں، وہاں کے اصل پاشندے نہ صرف محرومیوں کا شکار ہیں بلکہ ان کے دین و مذہب کو سعودی نظام اپنے نشانے پر لے رہا ہے۔ ایک ایسی ریاست جس کے اندر آل سعود خاندان کے علاوہ کوئی طبقہ آرام و سکون اور اطمینان بخش زندگی کا تجربہ نہیں کر رہا، وہاں کوئی بھی واقعہ پیش آسکتا ہے۔ سعودی عرب کا سماج ایک ایسی راکھ کی مانند ہے، جس کے نیچے کئی چنگاریاں موجود ہیں، جو کسی بھی وقت بھڑک کر آل سعود کے بوسیدہ نظام کو انتقام کی آگ میں بھسم کرسکتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 918816
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش