0
Sunday 28 Feb 2021 16:30

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
تحریر: سویرا بتول

شہید پروفیسر علامہ سید تقی ہادی نقوی کی برسی آئی اور خاموشی سے گزر گئی۔ ہم میں سے کتنوں نے اِنہیں یاد رکھا؟ شہید کی برسی کا ذکر کیا تو پوچھا گیا وہ کون تھے۔؟ اِس سے ہمارے شہداء کی مظلومیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے محسنوں کو کتنی جلد فراموش کر دیتے ہیں۔ اساتذہ معاشرے کے محسن ہیں کیونکہ معاشرے کا ہر طبقہ اسی راستے سے گزر کر آگے بڑھتا ہے۔ ہماری بدنصیبی اِس سے زیادہ کیا ہوگی کہ یہاں معاشرے کے محسن اور معمار تک کو معاف نہیں کیا جاتا اور دن دہاڑے گولیوں کی بوچھاڑ میں بھون دیا جاتا ہے، فقط اُس کی شیعہ شناخت کی وجہ سے۔ پروفیسر تقی ہادی آفس سے گھر جانے کے لئے رکشے پر سوار ہوئے ہی تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار تکفیری دہشتگردوں نے اِن پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس سے وہ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ شہید تقی ہادی جعفریہ ڈیزاسٹر سیل (جے ڈی سی) میں شعبہ تعلیم کے سربراہ تھے، اس کے علاوہ تعلیمی بورڈز میں امتحانی امور اور مشاورتی کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ شہید پروفیسر ہادی نقوی عربی زبان کے عالم اور اتحاد بین المسلمين کے داعی تھے۔
موت سے گھبراتے ہیں بشر اکثر لیکن ہمیں
شوقِ دیدارِ علیؑ میں موت بھی اچھی لگی


وہ ماہرِ تعلیم، عالم دین، پروفیسر، میٹرک ایجوکیشن بورڈ کے ڈائریکٹر اور علم دوست شخصیت تھے۔ نحیف و نزار بدن مگر چاق و چوبند مسکراتا جگمگاتا ہوا چہرہ، جسے آج زمین تلے سوئے سات برس بیت گئے، مگر آج بھی اُن کے قاتل کیفرِ کردار تک نہ پہنچ سکے۔ پاکستان بالخصوص کراچی کئی سالوں تک ملتِ تشیع کے افراد کی مقتل گاہ بنا رہا۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ہمارے شہر کراچی کی زمین کس قدر زرخیر اور سُرخ ہے کہ کیسے کیسے چراغ اس زمین پر جلے بجھے اور دفن ہوگئے اور نجانے مزید کتنوں کی گنجائش باقی ہے۔ ہمارے شہداء جنہیں عشقِ آل ِپیغمبرﷺ میں مارا گیا، آج بھی زندہ ہیں کیونکہ یہ وعدہ الہیٰ ہے کہ اور جو لوگ راہِ خدا میں قتل کیے جاتے ہیں، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تمہیں شعور نہیں۔
لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکہ
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور


لاشے اٹھاتے اٹھاتے ہماری کئی نسلیں بیت گئی، مگر آج تک ہمارے شہداء کے قاتل کیفرِ کردار تک پہنچے؟ کتنوں کو عدالتی کارروائی سے گزرنا پڑا؟ آج تک کتنے مجرموں کا سراغ لگا کہ انہیں تختہ دار پہ لٹکایا گیا؟ ہم آج بھی نسلِ یزید سے لڑ رہے ہیں، پھر کہا جاتا ہے کہ آپ اِس غم میں تنہا نہیں۔ کہنے دیجیے کہ ہم اِس غم میں تنہا ہیں۔ ہمارا جرم صرف آلِ رسول سے محبت ہے اور ہمارا خون اِس بستی میں آج بھی سب سے زیادہ سستا ہے۔
اِسی کے ایک اشارے پہ قتل عام ہوا
امیرِ شہر سے میں عرض حال کیا کرتا
میں قاتلوں کی نگاہوں سے بچ کے بھاگ آیا
کہ میرے ساتھ تھے میرے عیال کیا کرتا
دھرم کے نام پر انسانیت کی نسل کُشی
زمانہ ایسی بھی قائم مثال کیا کرتا
خبر کا کوڈ : 918872
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش