QR CodeQR Code

وفاتِ جنابِ زینبؑ اور مدافعان حرم

28 Feb 2021 23:30

اسلام ٹائمز: حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے کربلا، کوفہ و شام اور مدینہ میں جن مصائب کا مکمل ثابت قدمی اور شجاعت سے سامنا کیا، ان مصائب کا سامنا کرنے سے پہاڑ ریزوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور سمندر قطروں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں. لیکن ان تمام مصائب کے باوجود اپنے موقف پہ ایسے ثابت قدم رہیں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہلتے ہیں تو ہل جائیں، لیکن رسول کی نواسی کی ثابت قدمی میں ذرا برابر فرق نہ آیا۔ اپنی گفتار اور سیرت میں ایسی شجاعت اور دلیری سے کام لیا کہ لوگوں کو حضرت علی بن ابی طالب کی شجاعت یاد آگئی۔


تحریر: سویرا بتول

 پندرہ رجب کے دن کا سورج اہل بیت علیھم السلام اور ان کے چاہنے والوں کے لیے غم و حزن اور درد ناک یادوں کے ہمراہ طلوع ہوتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جس میں ثانی زہراء حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہا۔ اس مناسبت کے حوالے سے حضرت زینب (ع) کی زندگی کے چند پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں۔
*شرم و حیاء کا پیکر*
جنابِ زینبؑ شرم و حیاء کا سر چشمہ تھیں اور سختی کے ساتھ پردے کی پابند تھیں۔ مدینہ اور کوفہ میں مولائے کائنات کی ظاہری خلافت کے دوران کسی نامحرم کی نگاہ آپ سلام علیہا پر نہیں پڑی تھی۔ بشیر ابنِ حزیم کہتا ہے، باخدا! میں نے ایسی باعفت اور باحیاء خاتون کو نہیں دیکھا، جو اتنے مستحکم انداز سے عوام سے خطاب کرے۔

*کمالِ عبادت*
ثانی زہراء سلام علیہا راتوں کو عبادت کیا کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں آپ نے کبھی بھی نمازِ شب کو ترک نہ کیا۔ اس قدر عبادتِ پرودگار کا اہتمام کرتیں کہ عابدہ آلِ محمد کہلائیں۔ روزِ عاشور امام عالی مقام ؑ نے آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا: "یا اختی لاتنسینی فی نافلة الیل" میری بہن! نمازِ شب میں مجھے مت بھولنا"
*عالمہ غیر معلمہ*
امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں کہ اے پھوپھی جان! آپ (اللہ کے فضل سے) بغیر کسی تعلیم دینے والے کے عالمہ ہیں اور بغیر کسی سیکھانے والے کے فہمیدہ ہیں۔

*روزِ عاشور جنابِ زینب سلام عیہا کی حسرت*
اگر عورتوں پر جہاد کرنا واجب ہوتا اور جنگ کرنا اُن کے لیے درست ہوتا تو میں ہر لمحہ آپ (امام حسینؑ) پر ہزار جانیں فدا کرتی اور ہزار مرتبہ شہادت کی طالب ہوتی۔ ایسے عظیم گھر میں تربیت و پرورش پانے والی شخصیت کا حق یہی کہ وہ ہر کمال کے اعلیٰ ترین مراتب پر فائز ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا میں وہ تمام اعلیٰ صفاتِ کمال اور فضائل پائے جاتے تھے کہ جن کی نظیر کسی بھی خاتون میں ملنا ناممکن ہے، انہی فضائل و مناقب کی وجہ سے آپ کو صدیقۃ الصغریٰ، عقیلہ بنی ہاشم، موثقہ، عارفہ، کاملہ، عابدہ آل علی اور بہت سے دوسرے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔

حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے کربلا، کوفہ و شام اور مدینہ میں جن مصائب کا مکمل ثابت قدمی اور شجاعت سے سامنا کیا، ان مصائب کا سامنا کرنے سے پہاڑ ریزوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور سمندر قطروں کی شکل اختیار کر جاتے ہیں. لیکن ان تمام مصائب کے باوجود اپنے موقف پہ ایسے ثابت قدم رہیں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہلتے ہیں تو ہل جائیں، لیکن رسول کی نواسی کی ثابت قدمی میں ذرا برابر فرق نہ آیا۔ اپنی گفتار اور سیرت میں ایسی شجاعت اور دلیری سے کام لیا کہ لوگوں کو حضرت علی بن ابی طالب کی شجاعت یاد آگئی۔ صبر، حلم اور دانائی میں اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی شبیہ بن کر تاریخ کے صفحات پر ظاہر ہوئیں۔
وہ جس نے کڑے وقت میں عترت کو سنبھالا
بیواؤں کی گرتی ہوئی ہمت کو سنبھالا
طوفاں کے تھپیڑوں میں قیادت کو سنبھالا
جلتے ہوئے خیمے میں امامت کو سنبھالا
قرآن کی تفسیر خدا ساز تھی زینبؑ
خاموشی شبیرؑ کی آواز تھی زینبؑ
ایمان کی منہ بولتی تصویر تھی زینبؑ
شبیرؑ کا سر کٹتے ہی شبیرؑ تھی زینبؑ 


کیسے ممکن ہے ثانی زہراء سلام علہیا کا ذکر ہو اور مدافعان حرم کا ذکر نہ کیا جائے، جن کی وجہ سے آج حرمِ ام المصائبؑ محفوظ ہے۔ ہم کاش کاش کہتے رہ گئے اور عشاق اپنے وعدے وفا کرگئے۔ ہم ابھی تک کاش کی منزل سے آگے نہیں بڑھے۔ کاش بی بیؑ کربلا میں ہوتے، آپ کے حسینؑ پر جان قربان کرتے۔ آج کی کربلا میں ہم نے کیا کردار ادا کیا۔؟ زینبیون وہ جو مٹھی بھر عشاق تھے، آئے اور اپنے وعدے وفا کر گئے۔ وہ عہد نبھا گئے اور ہم حسرت سے تکتے رہ گئے۔ زینبیون نے بی بی ؑ سے کیے اپنے وعدوں کو وفا کیا۔ اب ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اس راہ میں کارِ زینبی انجام دیں۔ شہدائے مدافعین حرم کی زندگی اور خصوصیات کو اپنے لیے آئیڈیل قرار دیں اور شہداء کے وصیت ناموں میں فکر کریں، اس سے پہلے کہ کربلا بپا ہو جائے۔
عزاء کی خاطر کٹا کے گردن
ہمارے ہاتھوں میں دے کے پرچم
پکڑ کے انگلی چلا رہے ہیں
فرج کا رستہ دکھا رہے ہیں


خبر کا کوڈ: 918919

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/918919/وفات-جناب-زینب-اور-مدافعان-حرم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org