QR CodeQR Code

یورپ کی ایک اور سازش

2 Mar 2021 13:20

اسلام ٹائمز: آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے گذشتہ دنوں ایران کا دورہ کیا اور اس نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایران کو اضافی پروٹوکول پر عمل درآمد کے حوالے سے کم سے کم تین ماہ کی فرصت دی جائے، لیکن دورہ ایران کے دو دن بعد ایٹمی توانائی کا عالمی ادارہ ایران کیخلاف ایک نئی قرارداد پیش کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کو ایران سے اپنی بات منوانے میں مکمل مایوسی ہوئی ہے اور اب وہ آئی اے ای اے کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے نے ایران کیخلاف کوئی نئی قرارداد پیش کی تو اسکی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور ایران تو اعلان کرچکا ہے کہ وہ اپنے اصولی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

ایران نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزب بورل کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم امریکہ اور تین یورپی ممالک کے حالیہ اقدامات کے پیش نظر ایٹمی معاہدے کے بارے میں غیر سرکاری اجلاس بلانے کے وقت کو مناسب نہیں سمجھتے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا ہے کہ ہمیں عملی طور پر امریکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے اور بائیڈن انتظامیہ بھی سابق صدر ٹرمپ کی شکست خوردہ پالیسیوں پر گامزن ہے۔ انھوں ںے حتی قرارداد 2231 اور جوہری معاہدے پر بھی عمل نہیں کیا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ مشترکہ ایٹمی معاہدے میں کچھ لینے اور دینے کا معاملہ پانچ سال پہلے انجام پا چکا ہے اور اب عمل کا وقت ہے۔ ایران مشترکہ ایٹمی معاہدے پر عمل کرچکا ہے، اب امریکہ اور تین یورپی ممالک کو اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

ایران نے امریکہ اور یورپی ٹرائیکا کی طرف سے جوہری معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے بعض اقدامات انجام دیئے ہیں۔ ایران کی پارلیمنٹ مجلس شوریٰ اسلامی نے ایٹمی معاہدے کی شق 26 اور 36 کی روشنی میں بعض اسٹریٹیجک اقدامات کا فیصلہ کیا، جس کا ایک بڑا ہدف ایران پر عائد عالمی پابندیوں کا خاتمہ ہے۔ امریکہ کی طرف سے جوہری معاہدے پر عدم پاپندی کے باوجود ایران نے اس معاہدے کو ختم نہیں کیا اور صرف ان اقدامات کی انجام دہی سے انکار کیا، جس کی پارلیمنٹ نے منظوری دی ہے۔ اس صورتحال میں ایران اب بھی ایٹمی معاہدے کو برقرار رکھنا چاہتا ہے، لیکن کسی بھی نئی شرط یا معاہدے میں کسی اور رکن کے اضافے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

ایران نے پارلیمنٹ کے فیصلے کی روشنی میں 23 فروری کو اضافی پروٹوکول پر عمل درآمد روک دیا ہے اور اسی اقدام کی بدولت یورپی یونین نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے نئی نئی تجاویز دینا شروع کر دی ہیں۔ ایران کا موقف واضح اور شفاف ہے کہ امریکہ اور ایٹمی معاہدے کے دوسرے رکن ممالک معاہدے کی تمام شقوں پر عمل درآمد کے لیے باقاعدہ اعلان کریں، بالخصوص امریکہ اپنی یکطرفہ پابندیوں کے خاتمے کو یقینی بنائے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے الجزیرہ ٹی وی چینل سے گفتگو میں بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی سے متعلق کیے جانے والے واشنگٹن کی خودسرانہ فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی جو بائیڈن حکومت نے بارہا اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن ایٹمی معاہدے میں واپس آئے گا، مگر اب تک ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں امریکہ کی سابق اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں میں کسی بھی قسم کی تبدیلی و فرق کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے۔

انھوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ مذاکرات کا کوئی ایجنڈا اور اس کے نتیجے کا علم ہونا چاہیئے کہ امریکہ کو سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 اور ایٹمی معاہدے سے متعلق اپنے وعدوں پر عمل کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ امریکہ کی موجودہ حکومت بھی سلامتی کونسل کی اس قرارداد اور ایٹمی معاہدے کی بدستور خلاف ورزی کر رہی ہے۔ مجید تخت روانچی نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا پابندیوں میں کمی یا نرمی ایٹمی معاہدے میں واپسی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، کہا کہ ظاہر ہے کہ پابندیاں اس بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کا حصہ تھیں اور ان کو ختم کیا جانا تھا، تاکہ ایران بھی اپنے وعدوں پر عمل کرے۔ اںھوں نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ایران کی جانب سے عمل میں لائے جانے والے اقدامات کیا کشیدگی میں اضافے کا باعث نہیں بنیں گے، کہا کہ ہم کبھی کشیدگی یا کشیدگی میں اضافے کے خواہاں نہیں رہے ہیں اور ہم نے اس وقت بھی کشیدگی نہیں چاہی، جب ٹرمپ حکومت نے اشتعال انگیز اور کشیدگی پیدا کرنے والے اقدامات شروع کر دیئے تھے۔

یورپی ٹرائیکا اب غیر سرکاری اجلاس کے بہانے ایران کو اپنے دام میں پھنسانا چاہتا ہے، تاکہ اس غیر سرکاری اجلاس میں امریکہ کو دعوت دے کر امریکی مفادات اور امریکی من مانیوں کا تحفظ کیا جائے۔ بہرحال ایران نے کہہ دیا ہے کہ جب تک امریکہ پابندیاں ختم نہیں کرتا، اس کا ایٹمی معاہدے کا حصہ ہونا نہ ہونا ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، اصل مسئلہ پابندیوں کا خاتمہ ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور یورپی ٹرائیکا نے ایک اور سازش کی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں، جس کے تحت ایٹمی توانائی کا عالمی ادارہ ایران کے خلاف ایک نئی قرارداد لانا چاہتا ہے، تاکہ ایران پر دبائو بڑھا سکے۔ آئی اے ای اے کا ادارہ جسے تمام رکن ممالک کے لیے غیر جانبدار ہونا چاہیئے، ایک بار پھر امریکی ڈکٹیشن قبول کرنے پر تیار ہے۔

آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے گذشتہ دنوں ایران کا دورہ کیا اور اس نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایران کو اضافی پروٹوکول پر عمل درآمد کے حوالے سے کم سے کم تین ماہ کی فرصت دی جائے، لیکن دورہ ایران کے دو دن بعد ایٹمی توانائی کا عالمی ادارہ ایران کے خلاف ایک نئی قرارداد پیش کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ کو ایران سے اپنی بات منوانے میں مکمل مایوسی ہوئی ہے اور اب وہ آئی اے ای اے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے نے ایران کے خلاف کوئی نئی قرارداد پیش کی تو اس کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا اور ایران تو اعلان کرچکا ہے کہ وہ اپنے اصولی موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔


خبر کا کوڈ: 919160

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/919160/یورپ-کی-ایک-اور-سازش

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org