QR CodeQR Code

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی آئیڈیالوجی(1)

3 Mar 2021 11:52

اسلام ٹائمز: شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی اپنی زندگی کے انتہائی مشکل و دشوار لمحات میں قربۃ الی اللہ اور انا للہ کے حقیقی فلسفے کو مدنظر رکھتے تھے۔ بے شک انسان کو اسکا نظریہ اور آئیڈیالوجی ہی بزدل، دلیر، غیر جانبدار یا حریت پسند بناتی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی آئیڈیالوجی چونکہ الہیٰ، آسمانی اور قرآنی تعلیمات پر مشتمل تھی، لہذا سعودی عرب میں حج کے موقع پر آل سعود سمیت سعودی عرب کی تمام سکیورٹی ایجنسیاں اور خفیہ ادارے اس عالمگیر اجتماع کے موقع پر برائت از مشرکین یا دوسرے لفظوں میں مردہ باد امریکہ کا نعرہ روکنے کیلئے ہر طرف پھیلے ہوئے تھے، لیکن اسکے باوجود شہید ڈاکٹر محمدعلی نقوی نے اپنے الہیٰ مشن کو انجام دینے کا عزم بالجزم کیا۔


تحریر: ڈاکٹر راشد نقوی

آئیڈیالوجی
کسی بھی شخصیت اور اس کے عمل و کردار نیز اس کی سیاسی، مذہبی، ثقافتی اور دیگر سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لئے اس شخص کی آئیڈیالوجی یا نظریات کا جاننا ضروری ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شخصیت کی صحیح پہچان بھی ان کی آئیڈیالوجی سے آشنائی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہر مسلمان کی بنیادی آئیڈیالوجی توحید پرستی پر استوار ہوتی ہے، لیکن مسئلہ توحید کو سمجھنا، اس کا صحیح ادراک اور اس کو اپنے زندگی کے ہر عمل میں اپنانا ایک آسان کام نہیں۔ ہم سب ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور بہت سے عقائد ہمیں ورثے میں ملے۔ ہم نے کبھی اس کے بارے میں زیادہ غور و فکر کی ضرورت محسوس نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ ہم توحید، نبوت، امامت اور قیامت کے حقیقی فلسفے اور مقصد سے لاعلم ہیں۔ ہم توحید سے مراد صرف یہ لیتے ہیں کہ خدا ایک ہے، لیکن کبھی ہم نے توحید کی گہرائی اور ان مفاہیم کو سمجھنے کی طرف توجہ نہیں دی ہے، جس کی طرف امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں موجود اپنے پہلے خطبے میں بیان فرمایا ہے کہ توحید کی کتنی اقسام ہیں؟ توحید کے اثرات انسانی زندگی کے کن کن پہلوؤں میں نمایاں ہونا چاہیئے۔؟ توحید پرست انسان کا زندگی اور موت کے بارے میں کیا نظریہ ہوتا ہے۔؟ اسی طرح کے لاتعداد سوالات ہیں، جو توحید کے بارے میں ہمار ے ذہنوں میں جنم لیتے ہیں اور ہمیں ان کے جواب کا علم ہونا چاہیئے، لیکن ہم اس طرف توجہ نہیں کرتے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی، وصیت نامہ، طرز شہادت اور ان کی بعض تقاریر میں ان کی آئیڈیالوجی کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ وہ انا للہ و انا الیہ راجعون اور ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون کو اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ گفتگو میں کئی بار یہ بات کہی ہے کہ دوستو! ہمیں اس بات کا شعور ہونا چاہیئے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں۔؟ کس لئے آئے ہیں اور کس کی طرف پلٹنا ہے؟ آپ کہا کرتے تھے کہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم انا للہ و انا الیہ راجعون کو صرف کسی کی موت اور رحلت کی خبر سن کر ہی زبان پر جاری کرتے ہیں، حالانکہ یہ آیت زندہ انسانوں کے لئے ہے، تاکہ وہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ اس دو نکاتی ایجنڈے کی طرف توجہ مبذول رکھیں کہ ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور ہمیں خداوند عالم کی طرف ہی پلٹنا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی چونکہ اس دو نکاتی خدائی ایجنڈ ے پر عمل پیرا رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ انھیں دنیا کی مادی مشکلات، مشکلات دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ وہ ہر مشکل سے مشکل اور دشوار سے دشوار تر ہدف کے حصول کے لئے بلا تردد قدم بڑھاتے تھے اور نہ ان پر خوف طاری ہوتا اور نہ خزن۔

وہ قرانی آیت ولا خوف علیہم ولاھم یخزنون کے عملی مصداق بن جاتے۔ ہم نے انھیں باطل قوتوں سے سینہ تان کر لڑتے دیکھا۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھتے دیکھا۔ آمریت اور تکفیریت کی طرف سے دی جانے والی جان لیوا دھمکیوں کے باوجود میدان عمل میں حاضر دیکھا۔ پاکستان کی پرخطر تنظیمی زندگی ہو یا ایران عراق جنگ کی فرنٹ لائن، دوستوں نے انھیں مجاہدین کے شانہ بشانہ بلا خوف و خطر آگے بڑھتے دیکھا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون کا حقیقی تصور آپ کے قلب و ذہن میں گھر کر گیا تھا، وہ اپنے ہر کام میں اللہ کی رضایت و خوشنودی کی تلاش میں رہتے۔ آپ انسانوں کی خوشی کے حصول کے بجائے خداوند عالم کی خوشنودی و قربت کو حاصل کرنے کے لئے بے تاب رہتے۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ جب انسان کا سب کچھ خدا ہو جائے تو اسے دنیا کے رشتے، وابستگیاں اور تعلق عزیز نہیں رہتے۔ دنیا کے مفادات اس کی آنکھوں میں حقیر ہو جاتے ہیں۔ منصب، عہدے، نمود و نمائش، سرمایہ، شہرت اور پرآسائش زندگی اس کے لئے اپنا مفہوم کھو دیتی ہے۔

وہ اس درجے پر فائز ہو جاتا ہے، جس کی مثال امام خمینی (رہ) کی زندگی کے ایک واقعہ سے دی جا سکتی ہے۔ کہتے ہیں امام خمینی (رہ) جب فرانس سے جلا وطنی کے خاتمے کے بعد فرانس ائیر کے طیارے سے پیرس سے تہران آرہے تھے تو اس وقت طیارے میں کسی صحافی نے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ اس وقت انتہائی خطرے میں تہران جا رہے ہیں۔ حکومت آپ کی مخالف ہے، وہ آپ کے طیارے کو تباہ کرسکتی ہے، آپ کو کسی اور ملک بھیج سکتی ہے، آپ کو گرفتار کرسکتی ہے، آپ کو گرفتار کرکے یا ائیر پورٹ پر اترتے ہی قتل کرسکتی ہے تو اس صورت حال میں آپ اس وقت میرے اس سوال کا کیا جواب دیں گے کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں۔؟ امام خمینی (رہ) نے اس صحافی کے جواب میں نہایت اطمینان سے کہا "کچھ نہیں" صحافی کی حیران و پریشان سوالیہ نگاہوں کو دیکھ کر آپ نے فرمایا "ایک مسلمان کا فریضہ اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوتا ہے، اس کا نتیجہ وہ خدا پر چھوڑتا ہے۔ میں اگر زندہ سلامت ایران پہنچ گیا تو پھر بھی میں نے اپنا فریضہ ادا کیا ہے اور اگر مجھے شہید کر دیا جاتا ہے یا قید کر دیا جاتا ہے تو وہ بھی میری کامیابی ہے، کیونکہ میں قربۃ الی اللہ یہ کام انجام دے رہا ہوں۔"

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی اپنی زندگی کے انتہائی مشکل و دشوار لمحات میں قربۃ الی اللہ اور انا للہ کے حقیقی فلسفے کو مدنظر رکھتے تھے۔ بے شک انسان کو اس کا نظریہ اور آئیڈیالوجی ہی بزدل، دلیر، غیر جانبدار یا حریت پسند بناتی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی آئیڈیالوجی چونکہ الہیٰ، آسمانی اور قرآنی تعلیمات پر مشتمل تھی، لہذا سعودی عرب میں حج کے موقع پر آل سعود سمیت سعودی عرب کی تمام سکیورٹی ایجنسیاں اور خفیہ ادارے اس عالمگیر اجتماع کے موقع پر برائت از مشرکین یا دوسرے لفظوں میں مردہ باد امریکہ کا نعرہ روکنے کے لئے ہر طرف پھیلے ہوئے تھے، لیکن اس کے باوجود شہید ڈاکٹر محمدعلی نقوی نے اپنے الہیٰ مشن کو انجام دینے کا عزم بالجزم کیا۔ کمزور آئیڈیالوجی کا حامل شخص مصلحت، حالات کی عدم سازگاری اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے ماحول کی عدم موجودگی و ناسازگاری وغیرہ کا بہانہ بنا کر بڑی آسانی سے اس مشن کو خیرباد کہہ سکتا تھا، لیکن دنیا کی تمام استعماری سکیورٹی ایجنسیوں کی موجودگی کا یقین ہونے کے باجود شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے برأت از مشرکین کے الہیٰ فریضے کو انجام دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 


خبر کا کوڈ: 919502

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/919502/شہید-ڈاکٹر-محمد-علی-نقوی-کی-آئیڈیالوجی-1

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org