QR CodeQR Code

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی آئیڈیالوجی(2)

4 Mar 2021 23:33

اسلام ٹائمز: ہمیں اور ہماری قوم کو جو سر تا پا اسلام اور قرآن سے وابستہ ہے، فخر ہے کہ وہ ایک ایسے مذہب کی پیرو ہے، جو یہ چاہتا ہے کہ ان حقائق قرآنی کو جو سراسر وحدت مسلمین بلکہ وحدت انسانیت سے معمور ہیں، مقبروں اور قبرستانوں سے نکال کر انسانیت کے عظیم ترین نجات دہندہ کی حیثیت سے عوام میں روشناس کروائے اور ملت اسلامیہ کو ان تمام بندشوں سے جو اس کے ہاتھ پاؤں اور قلب و عقل کو جکڑے ہوئے ہیں اور اسے فنا و نیستی اور سامراج کی غلامی کی طرف کھینچے لیے جا رہی ہیں، رہائی دلائے۔


تحریر: ڈاکٹر راشد نقوی

صحیح آئیڈیالوجی انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیتی، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی جس الہیٰ آئیڈیالوجی کے حامل تھے، اس میں مایوسی، ناامیدی اور بے بسی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ انھوں نے ایک تعلیمی ادارے سے ایک طلباء تنظیم کی تشکیل کا ارادہ کیا۔ اس راستے میں کئی رکاوٹیں آئیں، کتنی مایوسیاں پھیلائی گئیں، کتنے طعنے دیئے گئے، کتنے الزامات عائد کیے گئے، کیسی کیسی تہمتیں لگائی گئیں، کبھی کامریڈ، کبھی سرخے کہا گیا اور کبھی علماء دشمن کہہ کر مایوس کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہ آئی۔ آئی ایس او کے قیام کے بعد بھی آپ کے دینی عقائد کو نشانہ بنایا گیا، لیکن آپ کسی موقع پر مایوس نہ ہوئے بلکہ ہر اعتراض اور تہمت نے آپ کے ارادوں کو مزید مستحکم کر دیا۔

تحریک نفاذ فقہ جعفریہ جو بعد میں تحریک جعفریہ کہلائی، اس کے پلیٹ فارم پر بھی آپ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ زندگی کے آخری ایام میں تو آپ کے لئے تنظیموں   کے اندر ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی کہ کوئی عام انسان ہوتا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تنظیمی راستے کو خیر باد کہہ کر ذاتی اور مادی زندگی کی ڈگر پر چل نکلتا، لیکن چونکہ آپ جس آئیڈیالوجی پر کاربند تھے، اس میں مایوسی، ناامیدی اور انسانوں کے اچھے اور برے رویئے کوئی مفہوم نہیں رکھتے تھے۔ آپ نے الہیٰ آئیڈیالوجی کے بل بوتے پر یہ سب کچھ سہا اور کبھی شکوہ بھی زبان پر نہیں لائے۔
آپ آئیڈیالوجی کے حوالے سے بھی امام خمینی(رہ) کو اپنے لئے رہبر و رہنماء سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ امام خمینی کے نظریات کا خود بھی مطالعہ کرتے اور اپنے دوستوں کو بھی اس بات کی تلقین کرتے تھے اور کہتے تھے امام خمینی کے نظریات ہمارے معصومین علیہم السلام کے نظریات کا پرتو ہیں۔

آپ نے امام خمینی کی سیاسی آئیڈیالوجی کو متعارف کرانے کے لئے آپ کے نجف اشرف کے دروس کا مجموعہ "حکومت اسلامی" کو دوستوں کے لئے ضروری قرار دے رکھا تھا اور جب بھی کہیں اجتماعی محافل میں فرصت ملتی، اس کا ذکر یا اقتباس ضرور حاضرین کے سامنے پیش کرتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امام خمینی(رہ) کی رحلت کے بعد جب آپ کا الہیٰ وصیت نامہ سامنے آیا تو ڈاکٹر صاحب نے اپنے قریبی دوستوں کو اس کے حصول اور اس کے مطالب پڑھنے کی تلقین کی۔ آپ نے کئی تنظیمی پروگراموں میں نہ صرف وصیت نامہ کے اقتباسات کی طرف اشارہ کیا بلکہ اس پر سٹڈی سرکل اور اجتماعی مطالعہ کی بھی تلقین کی۔ آپ اس وصیت نامہ کو آئیڈیالوجی کا منبع اور ایک قیمتی سورس (source) قرار دیتے تھے اور کہتے تھے امام خمینی(رہ) نے اس وصیت نامہ میں اپنی بھرپور الہیٰ اور مکتبی زندگی کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی تقاریر، دوستوں کے درمیان گفتگو، انٹرویوز یا ان کے وصیت نامے کے مطالب کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی آئیڈیالوجی اور نظریات توحید، قرآن، امام زمان (ع)، کربلا،امربالمعروف و نہی عن المنکر، آئمہ اطہار کی محبت و مودت، عدالت علوی، آئمہ معصومین کی سنت و شعائر کی قدردانی اور عملی پیروی جیسے منابع اور مبانی پر استوار تھی۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی امام خمینی (رہ) کی آئیڈیالوجی کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دیتے تھے اور اسُی پر کارمند رہنے کی تاکید فرماتے۔ آپ امام خمینی کی شخصیت سے اتنے متاثر تھے کہ اس حوالے سے آیت اللہ شہید باقر الصدر(رہ) کے معروف قول کو دوستوں کے سامنے بار بار بیان کرتے۔ شہید باقرالصدر نے امام خمینی(رہ) کے بارے میں کہا تھا کہ "امام خمینی کی ذات میں اس طرح ضم ہو جاؤ، جس طرح وہ اسلام میں ضم ہوچکے ہیں اور یہ امام خمینی سے بےپناہ وابستگی ہی تھی کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی نے امام خمینی کی توضیح المسائل سے لے کر آپ کے وصیت نامہ کو عوام الناس میں متعارف کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

امام خمینی کی رحلت کے بعد جب بھی نظریات یا آئیڈیالوجی کی بات ہوتی تو آپ امام خمینی کے وصیت نامے کا حوالہ دیتے۔ آپ یوں تو پورے وصیت نامہ کو عالم اسلام کا روڈمیپ قرار دیتے تھے، لیکن وصیت نامہ کے ابتدائیہ اور مقدمہ کو اپنی آئیڈیالوجی کی بنیاد کہتے تھے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی وصیت نامہ کے اس حصے کو کیوں اتنی اہمیت دیتے تھے، قارئین کے لئے اس کا اقتباس نقل کرتے ہیں، تاکہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی آئیڈیالوجی کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے:
"قالَ رسولُ الله صلی الله علیه و آله و سلّم: إنّی تارکٌ فیکُمُ الثَقلَینِ، کتابَ اللهِ و عترتی اهلَ بیتی فإِنَّهُما لَنْ یفْتَرِقا حَتّی یرِدَا عَلَیّ الْحَوضَ۔" ترجمہ: "میں تمہارے لئے دو گرانقدر چیزیں کتاب اللہ اور اپنے اہل بیت چھوڑے جا رہا ہوں، یہ کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گئے۔"

الحمد لله و سبحانک اللهم صلی علی محمد و اله مظاهر.......... ترجمہ: "تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور تو پاک ہے، اے پروردگار درود بھیج محمد اور ان کی آل ؑ پر جو مظہر ہیں جمال و جلال کے اور خزانے ہیں تیری اس کتاب کے اسرار کے، جس میں احدیت جلوہ گر ہے، تیرے تمام اسماء کے ساتھ حتی کہ اس خاص اسم کے ساتھ بھی جسے تیرے سوا اور کوئی نہیں جانتا اور لعنت ہو، ان ظلم کرنے والوں پر جو شجرہ خبیثہ کی جڑ ہیں۔" و اما بعد: مناسب سمجھتا ہوں کہ ثقلین (قرآن و اہلبیت) کے بارے میں نہایت اختصار کے ساتھ کچھ عرض کروں، لیکن ان کے غیبی، معنوی اور عرفانی پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود نہیں ہے، اس لیے کہ اس رخ سے مجھ جیسے کے لیے قلم اٹھانا دشوار ہے اور ان کی شان میں جسارت بھی ہے، کیونکہ ان کی تجلیاں عالم ملک سے ملکوت اعلیٰ اور وہاں سے بزم لاہوت تک گویا ساری کائنات کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں، جن کا سمجھنا ہم لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر ناممکن نہ سہی تو کم از کم طاقت بشری سے بالاتر ضرور ہے اور نہ ہی ثقل اکبر اور ثقل کبیر سے بچھڑ جانے کے بعد انسانیت پر جو گزری ہے، اس کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں (بلاشبہ) ثقل کبیر ثقل اکبر کے سوا ہر چیز سے عظیم تر ہے، کیونکہ وہ تو اکبر مطلق ہے۔

اس وقت میں ان مصائب کو بھی بیان کرنا چاہتا ہوں، جو (ثقلین) قرآن و عترت پر دشمنان خدا اور مکار و عیار طاغوتیوں کی طرف سے ڈھائے گئے ہیں بلکہ میں اپنی مصروفیت اور معلومات میں کمی کے سبب ان سارے حوادث کو قلمبند بھی نہیں کر سکتا، صرف سرسری طور پر کچھ حوادث کا تذکرہ کر رہا ہوں، شاید کہ یہ جملہ  "لن یفترقاحتی یردا علی الحوض" اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود مقدس کے بعد ان میں سے ایک پر جو گزری ہے، وہی  دوسرے پر گزری ہے اور یہ دونوں کسمپرسی و بیکسی کے عالم میں حوض کوثر پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ جائیں گئے اور کیا یہ حوض وحدت سے کثرت کے جا ملنے اور سمندر میں قطروں کے ضم ہونے کی جگہ ہے یا کوئی اور چیز، جس تک انسانی عقل و عرفان کی رسائی نہیں۔؟ بلاشبہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان دو امانتوں پر ستمگروں نے جو ستم ڈھائے ہیں، وہ صرف انہی دو پر نہیں بلکہ یہ مظالم ملت اسلامیہ پر ہوئے ہیں، کہ جن کے بیان کرنے سے قلم عاجز ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ حدیث ثقلین مسلمانوں میں حدیث متواتر کی حیثیت رکھتی ہے اور اہلسنت کی صحاح ستہ کے علاوہ ان کی دیگر کتابوں میں مختلف مقامات پر الفاظ میں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے اور یہ حدیث شریف تمام انسانوں خصوصاً مسلمانوں کے سارے فرقوں کے لیے حجت قاطعہ ہے۔ لہذا تمام مسلمانوں کو جن پر اس حدیث کے ذریعہ اتمام حجت ہوچکی ہے، جواب دہی کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔ سادہ لوح عوام تو معذور سمجھے بھی جا سکتے ہیں، لیکن ان کے مذاہب کے علماء کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ اب آیئے دیکھیں کہ خدا کی کتاب پر جو الہیٰ امانت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ترکہ تھی، کیا گزری ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد سے ایسے افسوسناک مسائل شروع ہوگئے، جن پر خون کے آنسو بہانا چاہیئں۔

خود خواہوں اور طاغوتیوں نے قرآن کریم کو اپنی قرآن دشمن حکومتوں کے لیے ایک وسیلہ بنا لیا اور قرآن کے حقیقی مفسرین اور اس کے حقائق سے باخبر ہستیوں کو جنہوں نے پورا قرآن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کیا تھا اور جن کے کانوں میں "انی تارک فیکم الثقلین" کی آواز گونج رہی تھی، انہیں اپنے سوچے سمجھے منصوبوں اور مختلف بہانوں سے پس پشت ڈال دیا اور اس طرح انہوں نے اس قرآن کو جو حقیقی معنوں میں انسانیت کے لیے حوض کوثر پر پہنچنے کا ذریعہ اور مادی و روحانی زندگی کے لیے عظیم دستور کی حیثیت رکھتا تھا اور ہے، عملی زندگی سے دور کر دیا اور اس طرح عادل و منصف حکومت کی راہ بند کر دی اور  درحالیکہ قرآن کا مقصد اصلی ہی حکومت الہیہ کا تشکیل دینا تھا۔ ان لوگوں نے دین خدا اور کتاب و سنت الہیٰ سے انحراف کی بنیاد رکھی، پھر بے راہ روی یہاں تک پہنچ گئی کہ قلم اس کے ذکر سے شرم محسوس کرتا ہے اور یہ ٹیڑھی بنیاد جوں جوں  اوپر اٹھتی گئی، گمراہیوں اور انحرافات میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔

یہاں تک کہ وہ قرآن کریم جو دنیا والوں کی رشد و ہدایت اور تمام مسلمانوں بلکہ سارے کنبہ انسانی کو ایک مرکز پر احدیت کے مقام بلند سے کشف تام محمدی پر نازل ہوا تھا، تاکہ انسانوں کو اس مقام تک پہنچائے،جہاں انہیں پہنچنا چاہیئے/ علم الاسماء کے اس مظہر (انسان) کو شیاطین اور طاغوتوں کے شر سے نجات دلائے، کائنات کو عدل و قسط سے معمور کرے اور حکومت کو معصومین اولیاء اللہ علیہم  صلوات الاولین والآخرین کے حوالے کرے، تاکہ وہ اس حکومت کو ایسے شخص کے سپرد کر دیں، جو انسانیت کے لیے مفید ہو۔ لیکن ان خود پرستوں اور طاغوتیوں نے اس قرآن کریم کو میدان سے یوں ہٹا دیا، جیسے ہدایت کے سلسلے میں اس کا کوئی کردار ہی نہ ہو اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ قرآن کریم ظالم حکومتوں اور طاغوتیوں سے بھی بدتر خبیث ملاؤں کے ہاتھوں ظلم و فساد کی برقراری اور دشمنان خدا نیز ظالموں کی "بداعمالیوں" کی توجیہ کا ذریعہ بن گیا۔

مگر ہائے افسوس! کہ سازشی دشمنوں اور جاہل دوستوں کے ہاتھوں یہ تقدیر ساز کتاب صرف قبرستانوں اور مرنے والوں کے ایصال ثواب کی مجالس تک محدود ہو کر رہ گئی اور ابھی تک یہی صوت حال ہے۔ اگرچہ اس قرآن کریم کو تمام مسلمانوں اور سارے انسانوں کی یک جہتی کا ذریعہ اور ان کی زندگی کا لائحہ عمل بننا چاہیئے تھا، لیکن اس کے بجائے وہ تفرقہ اور اختلاف کا باعث بن گیا یا مکمل طور پر عملی  زندگی سے ہٹا دیا گیا۔ لہذا یہی وجہ تھی کہ اگر کسی نے اسلامی حکومت کی بات کی یا سیاست کا نام لیا تو گویا اس سے کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے، جبکہ اسلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن و سنت کے عظیم کردار سے چھلک رہے ہیں۔ حال ہی میں بڑی شیطانی طاقتوں کے آلہ کار اور اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ نام نہاد اسلامی حکومتوں نے مقاصد قرآن کو مٹانے اور بڑی طاقتوں کے شیطانی عزائم کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لیے قرآن کو خوبصورت رسم الخط میں چھاپ کر اطراف و اکناف (عالم) میں روانہ کیا ہے اور اس شیطانی حیلے سے قرآن کریم کو عملی زندگی سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔

آپ کو یاد ہے کہ محمد رضا خان پہلوی نے قرآن شائع کرایا تھا، تاکہ عوام پر اپنی گرفت مضبوط رکھے اور بعض مقاصد اسلامی سے بے خبر ملا قرآن کی اس اشاعت پر اس کے مداح بھی تھے، یہی حال شاہ فہد کا بھی ہے اور وہ بھی ہر سال عوام کی بے پایان دولت کا وافر حصہ قرآن کریم کی طباعت اور قرآن دشمن مذہب کے تبلیغی زر خریدوں کیلئے خرچ کرتا ہے اور سراپا بے بنیاد اور خرافاتی مسلک وہابیت کی ترویج کرکے بھولی بھالی قوم کو بڑی طاقتوں کی گود میں پہنچا رہا ہے۔ اسلام عزیز اور قرآن کریم کو  مٹانے کے لیے خود اسلام اور قرآن کا سہارا لے رہا ہے۔ ہمیں اور ہماری قوم کو جو سر تا پا اسلام اور قرآن سے وابستہ ہے، فخر ہے کہ وہ ایک ایسے مذہب کی پیرو  ہے، جو یہ چاہتا ہے کہ ان حقائق قرآنی کو جو سراسر وحدت مسلمین بلکہ وحدت انسانیت سے معمور ہیں، مقبروں اور قبرستانوں سے نکال کر انسانیت کے عظیم ترین نجات دہندہ کی حیثیت سے عوام میں روشناس کروائے اور ملت اسلامیہ کو ان تمام بندشوں سے جو اس کے ہاتھ پاؤں اور قلب و عقل کو جکڑے ہوئے ہیں اور اسے فنا و نیستی اور سامراج کی غلامی کی طرف کھینچے لیے جا رہی ہیں، رہائی دلائے۔

ہمیں فخر ہے کہ ہم ایسے مذہب کے پیرو ہیں، جس کی بنیاد خدا کے حکم سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی تھی اور امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام جیسے علمبردار حریت نوع بشر کو ہر طرح کی اسارتوں اور غلامیوں سے رہائی دلانے پر مقرر فرمایا۔ ہمیں فخر ہے کہ کتاب نہج البلاغہ قرآن کے بعد مادی و روحانی زندگی کے لیے عظیم دستور، انسانیت کو آزادی عطا کرنے والی بلند ترین کتاب، جس کے روحانی احکام اور حکومتی منشور ہمارے لیے سب سے نمایاں راہ نجات ہیں، ہمارے معصوم امام ؑ کی ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام سے لے کر انسانیت کے نجات دہندہ حضرت مہدی  صاحب الزمان علیہم لسلام تک جو قادر مطلق قدرت سے زندہ اور ہمارے امور کے شاہد و نگراں ہیں، تمام ائمہ معصومین ؑ ہمارے امام ہیں۔

ہمیں فخر ہے کہ معصومین علیہم السلام کی "مناجات شعبانیہ" حضرت حسین ابن علی علیہ السلام کی دعائے "عرفات" زیور آل محمد، صحیفہ سجادیہ اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا پر خدا کی جانب سے الہام شدہ کتاب "صحیفہ فاطمیہ" جیسے حیات بخش دعاؤں کے ذخیرے جسے قرآن صاعد کہتے ہیں، ہمارے ائمہ معصومین ؑ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ تاریخ کی عظیم ترین شخصیت باقرالعلوم علیہ السلام جن کی عظمتوں کو خدا، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین ؑ کے سوا کسی نے نہیں پہچانا اور نہ ہی ان کے سوا کوئی (ان کے مقام کو) سمجھ  سکتا ہے، ہمارے امام ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارا مذہب جعفری ہے اور ہماری بحر بیکراں فقہ ہمارے مذہب کے آثار میں سے ہے۔ ہمیں تمام ائمہ معصومین علیہم صلوات اللہ سے وابستگی پر فخر ہے اور ہم نے ان سب کی پیروی کا عہد کر رکھا ہے۔

ہمیں فخر ہے کہ ہمارے ائمہ معصومین صلوت اللہ و سلامہ علیہم نے دین اسلام کی سربلندی، قرآن کریم کے عملی نفاذ اور حکومت عدل و انصاف کی تشکیل کے لیے قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں جھیلیں اور آخرکار اپنے زمانے کی ظالم اور طاغوتی حکومتوں کے خاتمے کی کوششوں میں شہید ہوگئے۔ آج ہمیں یہ بھی فخر ہے کہ ہم قرآن و سنت کے تقدیر ساز مقاصد و احکام کو نافذ کر رہے ہیں اور اس راہ خدا میں ہماری قوم کے مختلف طبقات کے ہر چھوٹے بڑے بھی جان و مال اور اپنے اعزاء و اقارب کی قربانی پیش کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 919503

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/919503/شہید-ڈاکٹر-محمد-علی-نقوی-کی-آئیڈیالوجی-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org