1
0
Friday 5 Mar 2021 11:40

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی آئیڈیالوجی(3)

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی آئیڈیالوجی(3)
تحریر: ڈاکٹر راشد نقوی

شہید ڈاکٹر کی آئیڈیالوجی کو سمجھنے کے لئے شہید کے اپنے لیکچرز اور دروس سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ "نفس کا ایک اور مرتبہ نفس مطمئنہ ہے، نفس کی یہ حالت اور مرتبہ انبیاء اور آئمہ علیم السلام کے نفوس قدسیہ کو حاصل ہوتا ہے۔ نفس مطمئنہ کا بلند ترین درجہ ان نفوس قدسیہ کے لئے ہے، البتہ کوئی مومن مخلص و موحد اگر زحمت اور کوشش کرے تو نفس مطمئنہ کی حالت اسے بھی حاصل ہوسکتی ہے۔" "عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرض قلبی ہے اور ایک مرض بدنی، مرض قلبی زیادہ خطرناک ہے اور جب انسان اس مرض قلبی میں مبتلا ہو جائے تو پھر اس کا علاج کوئی طبیب یا ڈاکٹر نہیں کرسکتا۔ پھر آپ کو قرآن اور اہل بیت کی احادیث اور دعاؤں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ قلب کے مرض کا علاج قرآن اور آئمہ ہدیٰ علیہم السلام کی احادیث میں ہے۔ اب مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ میں کہاں سے سمجھوں کہ میں مریض ہوں یا نہیں؟ جب انسان کا جسم مریض ہوتا ہے تو انسان کے جسم کے نظم میں خلل پیدا ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب معدہ مریض ہو جاتا ہے تو وہ صحیح طور پر ہضم نہیں کرتا یا گردے کا مرض ہو جائے تو انسان کو درد محسوس ہوتا ہے۔ اب میں کہاں سے سمجھوں کہ میرا دل مریض ہے یا نہیں؟ اس کے لئے بھی علامات ہیں۔

اس کی ایک علامت یہ ہے کہ کوئی بھی اچھا کام آپ اپنے دل کے سامنے پیش کریں، اگر آپ کے دل نے قبول کیا اور اس کا استقبال کیا تو آپ کو سمجھنا چاہیئے کہ آپ کا دل صحیح ہے اور اگر اس سے نفرت کرتا ہے تو آپ کو سمجھنا چاہیئے کہ آپ کا دل مریض ہے۔ مثال کے طور پر روزہ، نماز، خمس، زکواۃ، غریبوں کی مدد کرنا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر اچھے اور نیک کام ہیں۔ آپ مشاہدہ کریں کہ واقعاً آپ کا دل ان کی انجام دہی چاہتا ہے یا نہیں؟ مثلاً آپ ایک دکاندار ہیں، آپ دکانداری بھی کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ آپ آسمان کی طرف بھی نگاہ کرتے ہیں یا گھڑی کی طرف بھی دیکھتے ہیں کہ کہیں مغرب کا وقت نہ ہو جائے یا زوال کا وقت نہ ہو جائے، لہذا جب دیکھتے ہیں کہ ساڑھے 12 بجے ہیں تو فوراً نماز کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہوتے  ہیں۔ یہ آپ کے صحیح و سالم ہونے کی علامت ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ نماز کو اہمیت نہیں دیتے، آپ بیٹھے ہیں اور یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگتا ہے، اس وقت آپ نماز کے لئے اٹھتے ہیں تو آپ کو جان لینا چاہیئے کہ آپ کے دل میں کچھ نہ کچھ مرض ہے۔

اسی طرح روزے اور دوسرے اعمال کے ساتھ آپ کا اس طرح کا سلوک آپ کے مریض ہونے کی علامت ہے، جب آپ سے کوئی کہے کہ بندہ خدا! حج پر جاؤ، حج آپ پر واجب ہے تو آپ کہیں گے بابا جائیں گے، ابھی تو میں جوان ہوں، ابھی کچھ اور گناہ کر لوں، بعد میں ایک ہی مرتبہ زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے کربلا جاؤں گا اور امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے بھی جاؤں گا اور ایک ہی مرتبہ توبہ کر لوں گا۔ اب اس بندہ خدا کو یہ پتہ نہیں ہے کہ اس وقت تک میں زندہ رہوں گا یا نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میں یہاں سے حج کے لئے روانہ ہو جاؤں اور راستے میں ایکسیڈنٹ ہو جائے، کیا پتہ ہے؟ بنابراین اگر کوئی اس قسم کی باتیں کرتا ہے، واجبات کو اہمیت نہیں دیتا اور واجبات سے کتراتا ہے تو اسے سمجھنا چاہیئے کہ اس کا دل مریض ہے۔"

"انسان کی انسانیت معنویات کے ساتھ ہے۔ بعض اوقات انسان ایسا بن جاتا ہے کہ وہ صرف حیوانی صفات کو اپناتا ہے، یعنی حیوان کی طرح صرف کھاتا، پیتا اور شہوت رانی کرتا ہے۔ اب اگر ایک انسان کی فکر اور سوچ اسی حد تک محدود ہو جائے، وہ کسی طریقے سے پیسہ کمائے، خوب تعیش بھری زندگی گزارے اور خوبصورت عورتوں کے ساتھ مثلاً شادیاں کرے اور خوب نائٹ کلبوں اور مختلف جگہوں پر جائے اور شہوت کی آگ بجھاتا پھرے۔ یہ افراد کیا ہیں؟ حقیقت میں یہ وہی حیوان ہیں۔ اگر کسی میں درندگی زیادہ ہوگئی ہے تو وہ قیامت کے دن حیوانی درندے کی شکل میں محشور ہوگا۔ روایات میں آیا ہے کہ قیامت کے دن لوگ اپنی اپنی نیتوں پر محشور ہوں گے۔"

"میں نے عرض کیا کہ اس مریض کا علاج قرآن ہے، ان کا علاج وہ احادیث ہیں جو حضرت محمد مصطفیٰ سے ہم تک پہنچی ہیں، جو اہل بیت علیہم السلام سے ہم تک پہنچی ہیں یا وہ دعائیں ہیں، جو ان سے منقول ہوئی ہیں۔ ان بیماریوں کا علاج کسی اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے۔ یہ مسئلہ آپ کو کسی کتاب میں نہیں ملے گا، بلکہ یہ مسئلہ روحانی علاج سے حل ہوگا۔ معنوی طریقے سے اس کا علاج ہوگا۔ پس ہمیں بھی اس مسئلے کی طرف توجہ کرنی چاہیئے۔ اگر ہمارے دل مریض ہیں تو خداوند متعال ہمیں بھی اور آپ کو بھی ان قلبی اور معنوی امراض سے نجات عطاء فرمائے۔" ایک طریقہ حکماء اور فلاسفہ کا ہے اور ایک طریقہ انبیاء علیہم السلام کا ہے۔ لیکن ہم حکماء اور فلاسفروں کے طریقہ کو اختیار نہیں کرتے بلکہ انبیاء کے طریقے کو اپنائیں گے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جو طریقہ حکماء اور فلاسفروں کا ہے، مثلاً ارسطو، افلاطون، بو علی سینا اور فارابی نے جو طریقہ بتایا ہے، وہ کامل اور اخلاق فاضلہ کا حامل نہیں ہے۔

اولاً یہ کہ خود اخلاق فاضلہ کیا ہیں؟ آیا اخلاق فاضلہ وہی ہیں، جو ان فلاسفروں نے ہمیں بتائے ہیں۔ اسی طرح کیا ان اخلاق فاضلہ تک پہنچنے کا راستہ بھی وہی ہے، جو حکماء اور فلاسفروں نے ہمیں بتایا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً فلاسفر اور حکماء جو کچھ ہمیں بتائیں، ممکن ہے وہ اخلاق فاضلہ ہو اور ممکن ہے وہ اخلاق فاضلہ نہ ہو۔ اسی طرح انسان کے ان اخلاق تک پہنچنے کے لئے جو راستہ وہ بتاتے ہیں، ممکن ہے وہ راستہ درست ہو اور ممکن ہے غلط ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلاسفر اور حکماء جتنے بھی بڑے ہوں، وہ انسان کامل نہیں۔ ہمیں ان کے کہنے پر اعتبار نہیں آتا۔ ہوسکتا ہے وہ اشتباہ کریں۔ بنابراین کیونکہ فلاسفر اور حکماء اشتباہ اور غلطی سے معصوم نہیں ہیں اور ہر طرح کے حالات پر ان کو احاطہ نہیں ہے، اس لئے ہمیں ان کی بات پر پورا اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا۔" ہم نظام عالم پر نظر ڈالتے ہیں اور جن چیزوں کو خدا نے خلق کیا، ان کو دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ خداوند متعال نے ہر چیز کو خلق کیا ہے۔ پھر اس کی استعداد کے مطابق اس کو اس کے مقاصد کے حصول اور کمال تک پہنچانے کے لئے  بھی جو چیزیں اس کے لئے ضروری تھیں، اسے مہیا کی ہیں۔"

حضرت موسیٰ فرعون سے کہتے ہیں: ربنا الذی اعطا کل شیی خلقہ ثمہ ھدی۔ یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے سب چیزوں کو پیدا کیا نہ صرف پیدا کیا بلکہ اس کے بعد جو چیزیں اس کے کمال تک پہنچنے کیلئے درکار تھیں، ان کی طرف صحیح طریقے سے راہنمائی بھی کی۔ اب یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ چھوٹا سا حیوان، یہ مچھر، یہ چیونٹی جو کوئی قیمت نہیں رکھتی، مثلاً جب آپ ان کو پکڑتے ہیں اور انگلیوں سے مسلتے ہیں تو یہ ختم ہو جاتے ہیں، اس چھوٹے سے حیوان کے کمال کے لئے جو چیزیں درکار ہیں، وہ خداوند متعال نے عطا کیں ہیں۔ لیکن یہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے، یہاں تک کہ فسجد الملئکہ کلہم اجمعون مسجود ملائکہ ہے، سب کے سب فرشتے اس کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں اور زمین میں خلیفۃ اللہ کی سند حاصل کرتا ہے۔ کس طرح ممکن ہے یہ عجیب و غریب انسان مثلاً آپ اس انسان کو مادی لحاظ سے دیکھیں کہ اس مادی دنیا میں مادی وسائل کو بروئے کار لا کر اس نے اپنی عقل سے کام لیکر دوسرے سیاروں کی طرف سفر کیا، فضاؤں کو اس سے مسخر کیا اور سمندروں کی تہہ تک پہنچ گیا، یعنی یہ انسان زبردست اور عدیم النظیر استعداد کا مالک ہے۔

اب کیسے ممکن ہے کہ خدا ایسے با استعداد انسان کے لئے اس کے کمال تک پہنچنے کے لئے کوئی انتظام نہ کرے، کیا ایسا ممکن ہے؟ اگر ہم واقعاً خدا کو حکیم سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ حکمت کے بغیر کوئی کام سرانجام نہیں دیتا تو پھر ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس انسان کے کمال تک پہنچنے کے لئے اور لقاء اللہ کے مقام پر فائز ہونے کے لئے خداوند متعال نے ضرور راستہ مہیا کیا ہے اور اس انسان کے سامنے ایک راستہ رکھ دیا ہے، اگر استعداد کا مالک انسان اس راستے پر چلے جو خدا نے اس کے سامنے رکھا ہے تو وہ کہاں سے کہاں تک پہنچ سکتا ہے۔" "اب وہ راستہ جس کی طرف انبیاء نے ہماری رہنمائی کی، اسے صراط مستقیم کہتے ہیں یا سبیل اللہ بھی کہتے ہیں۔ اگر ہم اس راستے پر گامزن ہوگئے تو اس راستے کا انجام کیا ہوگا؟ اللہ ہوگا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون "ہم خدا کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔"

اب اپنے اصلی مسئلے کی طرف آتا ہوں، جیسے عرض کر رہا تھا کہ انبیاء علیہم السلام جو راستے بتاتے ہیں، زیادہ تر ان کا کام ضمیر، وجدان اور فطرت کیساتھ ہے، فطرت کا راستہ ایسا راستہ ہے، جو سب کے لئے قابل قبول ہوتا ہے، مگر جب گرد و غبار انسان کے ضمیر پر پڑ جاتا ہے، پھر انسان کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے، پھر انسان کے ضمیر کے بلب کی روشنی انسان کو صحیح راستہ نہیں بتاتی۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ضمیروں کو بیدار کرنا تھا، کرنا ہے۔ ان ضمیروں کے بلبوں پر پڑے ہوئے گرد و غبار کو ہٹانا ہے۔"

ایک اور موقع پر فرماتے ہیں: عزیز دوستو! دو مختصر باتیں آپ تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ انتہائی خوشی ہے کہ جوانوں کی ایک محفل ہے اور ایک پیغام باہمی طور پر ہم لے بھی سکتے ہیں اور دے بھی سکتے ہیں۔ پہلا عنوان میرا یہ ہے in search of truth حقیقت کی تلاش۔ انسان کب یہ جان سکتا ہے کہ وہ سچائی کو پا چکا ہے۔ انسان کب اپنے سفر کو روک دے، کب اس نتیجہ پر پہنچے کہ میں حقیقت کو پا چکا ہوں۔ کیا وہ لوگ جن لوگوں نے حضرت آدم سے پیغام تو قبول کیا، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ساتھ نہ دے سکے یا وہ لوگ جنہوں نے حضرت ابراہیم کا ساتھ تو دیا  لیکن کہیں اور اس سلسلے کو آگے بڑھا نہ پائے۔ یہ جاننا اور ماننا پڑے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جو کچھ پیغام کو لیتے ہیں، وصول کرتے ہیں، لیکن پیش قدمی کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔ کہیں آکر رک جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید یہی حقیقت ہے، جس کی وہ تلاش میں تھے۔ لیکن ہر زمانے کے وصی و نبی نے واضح طور پر بتایا کہ ہدایت کے آخری ہادی کی ہدایت تک حقیقت کی تلاش کا سلسلہ جاری ہے۔"

"میرے عزیز دوستو آپ جوانوں تک جو پیغام پہنچا ہے اسلام کا، اسلام حقیقی کا، حریت کا، آزادی کا، استقلال کا یہ پیغام آپ تک شہادت کے ذریعے پہنچا ہے نہ کہ گفتگو کے ذریعے سے، بلکہ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ تک یہ پیغام ان لاکھوں نوجوانوں کے خون کے زمین میں جذب ہونے کے بعد، آپ کا اور ہمارا اس فضا میں سانس لینا، اس کی بدولت یہ پیغام ہمارے اندر منتقل ہوا ہے، لہذا میں امید کرتا ہوں  کہ ان شاء اللہ غازی یا شہادت ہماری تقدیر بننی چاہیئے۔ "میرے عزیز دوستو یاد رکھئیے گا، ایک طرف تو قرآن کہتا ہے کہ یہ شہداء زندہ ہیں اور مخاطب ہیں۔ ایک طرف انسان کا یہ دعویٰ ہے کہ میں زندہ ہوں۔ پس اگر شہداء زندہ ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مخاطب بھی ہیں اور اگر کمزور انسان کو ایک ظاہری انسان کی آواز تو پہنچ رہی ہے اور اس شہید کی آواز نہیں پہنچ رہی کہ جس کے بارے میں قرآن دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور مخاطب ہیں تو کمزوری کہاں ہوئی؟ کمزوری انسان میں ہے، جو شور و غلغلے، تہمت، غیبت اور بدکاری کی آواز تو سن رہا ہے، مگر جن کو خدا کہہ رہا ہے کہ یہ زندہ ہیں اور مخاطب ہیں، ان کی آواز کو نہیں سن رہا ہے۔"

"تعجب ہے ان مسلمانوں پر جو دن میں 5 مرتبہ نماز کی نیت سے تکبیرۃ الاحرام کے لئے اللہ اکبر کہتے ہیں اور مستحبات میں تو متعدد بار اس جملے کی تکرار کرتے ہیں۔ زبان سے تو اللہ اکبر کہتے ہیں لیکن عملی طور پر امریکہ یا روس کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ ذرا سی بات پر امریکہ اور روس کے سامنے دست گدائی دراز کرتے ہیں، لیکن وہ جو اللہ کو سب سے بڑا سمجھتے ہیں، وہ خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے اور دوسروں کی چاپلوسی نہیں کرتے۔ جب وہ غیر اللہ کے روبرو ہوتے ہیں تو ان کے سامنے چوزوں کی طرح نہیں بیٹھتے، پھر وہ وائٹ ہاؤس یا کریملن جا کر امداد کے حصول کے لئے  گدائی نہیں کرتے۔"

"لیکن تعجب ہے اللہ اکبر کہنے والوں کی نظر میں امریکہ اکبر ہے۔ روس اکبر ہے یا پیسہ اکبر ہے یا اقتدار و کرسی اکبر ہے۔ یہ جھوٹ کہتے ہیں، آپ ان کو آزمایئے، اگر اللہ اکبر سمجھتے ہیں تو پھر کیوں اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کا سہارا لیتے ہیں۔ جب اللہ اکبر ہے۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ جب وہ بڑا ہے تو جو بھی اس بڑے کے مقابلے میں آئے گا، وہ انسان کو چھوٹا اور حقیر نظر آئے گا۔ پھر ان کی نظروں میں یہ کیوں اتنے بڑے ہیں؟ یہاں تک کہ اگر کوئی بات ہو جائے تو یہ اپنے لحاف کے نیچے بھی امریکہ کو کچھ نہیں کہتے، نہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ اللہ اکبر ہے۔ اگر آپ دل سے اللہ اکبر کہتے ہیں تو پھر جب اللہ آپ کے ساتھ ہے تو کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، آج اس کی بہترین مثال اسلامی جمہوریہ ایران ہے کہ تن تنہا میدان میں کھڑا ہے۔ امریکہ ان کا مخالف ہے، روس بھی اس کا مخالف ہے اور ان کے چمچے بھی ان کے مخالف ہیں، مگر یہ کس شجاعت، جرأت اور سرفرازی کیساتھ انہیں چیلنج دے رہے ہیں اور یہ کسی سے نہیں ڈرتے، یہ اللہ کو اکبر مانتے ہیں۔ یہ اللہ پر توکل کرتے ہیں اور کسی نام نہاد سپر پاور پر اعتبار نہیں کرتے۔ ان کا بھروسہ امریکہ پر ہے نہ روس پر، جیسا کہ انکا نعرہ ہے(لا شرقیه و  لا غربیه)۔
خبر کا کوڈ : 919505
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

فریدہ جعفری
Pakistan
بہت عمدہ اور معلوماتی تحریر ہے اور وقت کی ضرورت ھے کہ ہم اپنی امت کے ان باکمال اور باوقار لوگوں کے بارے میں سب کو آگاہ کریں اور ان کی آئیڈیالوجی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کی تحریک بھی انشاءاللہ زندہ باد رہے گی۔
ہماری پیشکش