0
Thursday 4 Mar 2021 09:39

عالمی جوہری معاہدہ اور ایران کا موقف

عالمی جوہری معاہدہ اور ایران کا موقف
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ ایٹمی معاہدے پر اب کسی بھی قسم کے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور اس بات کو جان لینا چاہیئے کہ صرف نعروں سے ایٹمی معاہدے کا تحفظ نہیں ہوسکتا، اس لئے اس کے تحفظ اور اسے بحال رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے پابندیاں ختم کر دی جائیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے بدھ کے روز کابینہ کے اجلاس میں کہا ہے کہ ایران کے لئے اصولی و اہم بات یہ ہے کہ پابندیاں ختم اور ایرانی قوم کے حقوق بحال کئے جائیں جبکہ امریکہ کی جانب سے اب تک اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کی موجودہ برسر اقتدار حکومت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سابق ٹرمپ حکومت کا طریقہ غلط رہا ہے، اب اگر موجودہ حکومت ایران کے خلاف ساری پابندیاں ختم کرتی ہے تو ایران بھی فوری طور پر اپنے تمام وعدوں پر عمل کرنا شروع کر دے گا۔ صدر مملکت نے کہا کہ یورپ و امریکہ صرف نعرے لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایٹمی معاہدے میں واپسی ہوگی، مگر صرف نعرے کافی نہیں اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر حسن روحانی نے اسی طرح امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کے فیصلوں میں صیہونیوں کے اثرانداز ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بظاہر نعرے لگاتے اور کہتے تھے کہ امریکہ فرسٹ، مگر عمل کے میدان میں صیہونیزم فرسٹ، انتہاء پسندی سیکنڈ، نسل پرستی تھرڈ اور امریکہ فورتھ تھا۔ انھوں نے کہا کہ صیہونیوں نے ٹرمپ کو غافل کیا اور انھیں ایک غلط راستے پر لا کھڑا کر دیا۔ صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی نے اسی طرح زور دے کر کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے پر ہرگز دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے اور اسے محفوظ رکھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ امریکہ پابندیاں ختم کرے۔ صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے منگل کے روز فرانس کے صدر امانوئل میکران سے ٹیلی فونی گفتگو میں ایٹمی معاہدے کو ایک کثیر فریقی عالمی معاہدہ بتایا اور کہا کہ اس معاہدے پر پھر سے مذاکرات نہیں ہوسکتے اور اسے محفوظ رکھنے اور بحال کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ امریکہ اپنی تمام پابندیوں کو ختم کرے۔

صدر مملکت نے تاکید کی کہ ایٹمی معاہدے کے تحفظ و بحالی کے مواقع اگر ہاتھ سے نکل گئے تو حالات خراب ہو جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایران نے اس معاہدے سے امریکہ کے نکلنے اور تین یورپی ملکوں کی جانب سے اپنے وعدوں کو پورا نہ کرنے کے سبب ہی بتدریج اپنی ذمہ داریوں پر عمل کم کر دیا ہے اور جیسے ہی مقابل فریق اپنے وعدوں پر عمل کریں گے، ایران بھی فوراً اپنی ذمہ داریوں پر عمل کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ صدر ایران نے این پی ٹی کے اضافی پروٹوکول پر رضاکارانہ عمل کے خاتمے کو پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کے تناظر میں بتایا اور کہا کہ آئی اے ای اے کے ساتھ ہمارا تعاون بدستور جاری ہے اور ہم کبھی بھی ایٹمی معاہدے سے نہیں نکلے ہیں جبکہ ایران کی جوابی توقع یہ ہے کہ پرامن جوہری توانائی کے شعبے میں اس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے اور آئی اے ای اے کے ایک رکن ملک کی حیثیت سے ایران اپنے قانونی حق سے ہرگز چشم پوشی نہیں کرے گا۔

قابل ذکر ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں ایک بار تاکید فرمائی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران جوہری اور کیمیائی جیسے مہلک ہتھیاروں کو ممنوع سمجھتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ جوہری توانائی کے حصول سے متعلق کوشش کا ہمارا مقصد ملک کی ضروریات کے مطابق ہے اور اسی ضرورت کے مطابق یورینینم کی افزودگی بیس فیصد تک محدود نہیں رہے گی اور جہاں تک بھی ہمارے ملک کو ضرورت ہوگی، ہم یورینینم کو افزودہ کریں گے اور اپنے ملک کی ضرورت کے مطابق ممکن ہے کہ ہم ساٹھ فیصد تک یورینینم کو افرزودہ کریں۔ ایران نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے ایک سال بعد تک معاہدوں کی تمام شقوں پر عمل کیا اور یورپی ممالک کو بھی اس بات کا مکمل موقع دیا کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل کریں۔ یہاں تک کہ ایک سال بعد جب یورپی ٹرائیکا نے بھی کچھ نہ کیا تو ایران نے عالمی جوہری معاہدے کی شق نمبر 26 اور 36 کے تحت بعض اقدامات انجام دیئے۔

امریکہ نہ صرف ایٹمی معاہدے میں واپس نہ آیا بلکہ اس نے ایران پر پابندیوں میں اضافہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دبائو کی پالیسی اختیار کر لی۔ آج بھی نئے امریکی صدر جوبائیدن سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی شکست خوردہ پالیسیوں پر گامزن ہیں۔ امریکہ اب ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے ذریعے ایران کے خلاف نئی قرارداد لانے کی تیاری کر رہا ہے، تاکہ اس دبائو سے ایران کو مذاکرات میں دوبارہ واپس لا کر اپنی مرضی مسلط کرسکے۔ ایران کے خلاف اس طرح کے اقدامات نئے نہیں ہیں، اس سے پہلے بھی اس طرح کے اقدامات کو ایران کے خلاف دبائو کے لیے استعمال کیا گیا، تاہم اس کا نتیجہ مسئلہ کو مزید پیچیدہ کرنے کے علاوہ کچھ برآمد نہیں ہوا۔ بہرحال یہ بات طے شدہ ہے کہ ایران ماضی کی وعدہ خلافیوں کی روشنی میں صرف اس صورت میں ایٹمی معاہدے کی شقوں پر عمل کرے گا، اگر امریکہ زبانی وعدوں کی بجائے عملی اقدام کرے گا، کیونکہ امریکہ ماضی میں اس معاہدے کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوچکا ہے۔

مشرق وسطیٰ بالخصوص ایران کے حوالے سے نئی امریکی انتظامیہ نے دو رخی پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ وہ ایک طرف ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو مسترد کرنا چاہتی ہے تو دوسری طرف ایسا کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں، جس سے ایران اور مقاومت کے بلاک کو کسی طرح کا فائدہ پہنچے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے ساتھ یمن کے موضوع پر بھی دوغلی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ ایک طرف یمن پر سعودی حملوں کے تناظر میں بن سلمان اور اس کی ٹیم پر دبائو بڑھا رہی ہے اور سعودی اتحاد کو مزید اسلحے دینے سے انکار کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف انصاراللہ کے کمانڈروں پر پابندی عائد کرکے سعودی عرب کو شکست سے بچانے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ امریکہ نے ایسی حالت میں انصاراللہ کی بحریہ کے کمانڈر منصور المسیدی اور ڈرون یونٹ کے کمانڈر علی احسن پر پابندی عائد کی ہے کہ یمن کی فوج اور مزاحمتی رضاکار فورسز نے مآرب کے ستر فیصد حصے پر کنٹرول واپس لے لیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلیکن نے یمن کے امور میں امریکی نمائندے سے ملاقات کے بعد یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے سعودی اور امریکی حکام کے اشتیاق کی بات کی اور کہا کہ ہم حوثیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ سرحد پر حملے بند کرکے امن مذاکرات کی میز پر آئیں۔ امریکی ایسی حالت میں انصار اللہ سے مذاکرات کی درخواست کر رہے ہیں کہ مآرب میں منصور ہادی کے فوجی، داعش اور القاعدہ کے دہشت گرد یمنی مجاہدین کے ہاتھوں سخت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ بہرحال امریکہ کے صدارتی انتخابات سے قبل کے جوبائیڈن کے نعروں اور انتخابات کے بعد کے نعروں میں واضح فرق نظر آرہا ہے۔ جوبائیڈن کے نعرے صرف دکھاوے کے ہیں جبکہ عملی میدان میں وہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے پیروکار نظر آرہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 919585
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش