0
Thursday 4 Mar 2021 10:16

یاد شہید و کار شہید ڈاکٹر

یاد شہید و کار شہید ڈاکٹر
تحریر: حیدر علی

قوموں کے سرمایوں میں سے ایک سرمایہ اس کی گذشتہ شخصیات اور دوسرا اس کی گذشتہ تاریخ ہوتی ہے۔ وہ تاریخ اور شخصیات جو پرافتخار، درس دینے والی اور سعادت بخش ہوں، ان سے جڑے واقعات آئندہ نسلوں کے لیے اخلاقی اور تربیتی سند ہونے کے علاوہ ایسے نقش ہوتے ہیں، جس پر چل پر کر قومیں اپنی اجتماعی حرکت کے نتیجہ میں اجتماعی رُشد کی جانب سفر طے کرسکتیں ہیں، ایسا ہی قومی سرمایہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی صورت میں ملت پاکستان کے پاس موجود ہے۔ خدائی شخصیات کو یہ امتیاز حاصل ہوتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد بھی ان کی یاد اور واقعات مردہ دلوں کو زندہ کرتے ہیں، فکروں کو جھنجھوڑتے ہیں اور انسان کو آمادہ کرتے ہیں کہ وہ جمود کو توڑے اور راہ خدا میں آجائے۔ اسی لیے ہم آج اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے ہیں کہ سینکڑوں نوجواں جنہوں نے ڈاکٹر شہید کو کبھی براہ راست نہیں دیکھا یا ان کی شہادت کے بعد معاشرے میں آنکھ کھولی ہے، وہ ڈاکٹر شہید سے ایسے ہی عشق کرتے ہیں، جیسے انہوں نے ڈاکٹر شہید کا زمانہ پایا ہو۔

یہ درحقیقت ڈاکٹر شہید اور ان کی راہ کی حقانیت کی دلیل ہے، جس راہ کے وہ راہی تھے، جو آج بھی جوانوں کو ان کو شہادت کے 26 سال بعد بھی دین سے جوڑے ہوئے ہے۔ بقول ایک مرحوم بزرگوار کے "ڈاکٹر شہید نظر کم آتے تھے مگر محسوس زیادہ کیے جاتے تھے۔" برادران امامیہ اگر کوئی قومی و ملی کام انجام دے رہے ہوتے تو تکمیل سے قبل ایک نظر ڈاکٹر صاحب کے نام کی ڈالتے کہ اگر ادھر شہید ڈاکٹر خود ہوتے تو وہ کیسے یہ کام انجام دیتے۔ ڈاکٹر شہید کو ان کی رفقاء اور دوستان نے ایک مبلغ کے طور پر بھی رقم کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی مختصر مگر مدلل اور جامعہ گفتگو سے بہت جلد بڑی بڑی شخصیات کو قائل کر لیتے تھے۔ اسی طرح اسٹڈی سرکلز میں بھی گفتگو کا انداز ہوتا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب مبلغ تو تھے مگر ایسے مبلغ کہ جس کی تبلیغ ان کے لیکچرز و دروس سے زیادہ ان کے عمل سے پھیلی ہو، گو کہ ایک ایسا مبلغ جس نے اپنے عمل سے تبلیغ کی۔ ان کے کیے ہوئے کاموں کو معیار بنا کر آج بھی نسل نو آگے بڑھ رہی ہے۔

ڈاکٹر شہید کے دوستان میں ایسی مثالیں موجود ہیں، جو خود بتائیں گے کہ انہوں نے شاید ہی کوئی باقاعدہ درس ڈاکٹر شہید سے لیا ہو، مگر کچھ وقت جو ان کے ساتھ گزارا، اسی میں ہی ڈاکٹر صاحب کو معاملات مینیج کرتے اور عبادات کی بجاآوری کرتے دیکھ کر ہی وہ کچھ سیکھا، جو شاید دروس میں ممکن نہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب کی شہادت کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے، ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر شہید نے اپنی مختصر تحریکی زندگی میں کئی بڑے قومی نوعیت کے پراجیکٹس کی بنیاد رکھی تھی اور کئی پراجیکٹس ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی وجہ سے ادھورے رہ گئے تھے، جو پیروان شہید ڈاکٹر نقوی یا جو دعویدار ہیں، خواہ وہ ڈاکٹر شہید کے رفقاء ہوں یا بعد کے ذمہ داران ڈاکٹر شہید کے ویژن کے مطابق ان پراجیکٹس کی تکمیل، پیروان شہید ڈاکٹر نقوی کی گردن پر ایک بھاری قرض ہے، جس کی ادائیگی لازم ہے۔

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید سے نسبت ہونا یا ان کی رکاب میں کام کرنے کی سعادت حاصل کرنا ایک فضیلت ضرور ہے مگر یہ فضیلت جو ڈاکٹر صاحب کی نسبت حاصل ہوئی، ایک بڑی ذمہ داری بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے کہ وہ کام جو شہید ڈاکٹر نقوی کو زندگی نے مہلت نہ دی، وہ بعد والوں کے حصہ کے ہیں۔ سال ہا سال یادِ شہید میں ہونے والے پروگرامات میں جہاں پر ڈاکٹر صاحب کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، اس کا طریقہ کار بھی تھوڑا بدلنا ہوگا کیونکہ ایک غیر روایتی شخصیت کی مناسبت سے ہونے والا برسی کا پروگرام بھی روایتی نہیں ہوسکتا۔ برسی جہاں پر رفقاء شہید ڈاکٹر درخشان ماضی کا ذکر کریں، وہی پر یہ بھی بتائیں کہ ڈاکٹر شہید کے ساتھ ان کی زندگی میں فلاں پراجیکٹ پر آپ ساتھ تھے، ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد اس کا کیا بنا۔؟ وہ پراجیکٹ ڈاکٹر صاحب کے بعد کتنا آگے بڑھا۔؟

مثال کے طور پر آئی ایس او کے اجلاس عاملہ میں شرکت کے موقع پر ڈاکٹر صاحب نے اداروں کے مستقل بنیادوں پر قیام پر بات کی کہ "آئی ایس او کا پلاننگ کمیشن، آئی ایس او کا سیکریڑیٹ اور آئی ایس او کی تبلیغات ان کو مستقل حیثیت اختیار کرنی چاہیئے۔" ہمیں برسی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی پر یہ جائزہ لینا چاہیئے کہ ہم جو وارثان شہید ڈاکٹر نقوی ہونے کے دعویدار ہیں، ڈاکٹر صاحب کے ویژن کے مطابق اسی ادارہ جاتی قیام میں 25 سال کے عرصہ میں کتنا کام کو آگے بڑھا سکے ہیں، کتنی پیش رفت ہوچکی ہے اور کتنا رہ گیا ہے۔؟ ایک ادارہ تربیت المہدی بنایا گیا ہے تو گذشتہ عرصہ میں اس کو گراس روٹ لیول تک کتنی توسیع دے سکیں ہیں۔؟ اسی طرح بزرگان جانتے ہیں کہ ڈاکٹر شہید مرکزی سیکرٹریٹ کے حوالے سے ایک بڑا جامع پلان رکھتے تھے، وارثان شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اس کے بارے میں کیا کچھ کر پائے۔؟ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی جیسی پریکٹیکل اور خدائی شخصیت ہم سے یقیناً اس بارے میں ضرور سوال کرے گی۔

بقول شہید ڈاکٹر نقوی کہ "شخصیت جتنی مرضی بڑی ہو، اس کا ذکر جتنا زیادہ ہو، اگر اس سے عملی طور پر کوئی چیز انسان حاصل نہ کرسکے تو فقط اس کے ذکر سے یا مبالغہ سے یا اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے آدمی کسی طریقہ سے بھی اس کے شریک سفر نہیں ہوسکتا۔" ڈاکٹر صاحب کے مذکورہ جملے جو انہوں نے برادران امامیہ کو ایک نشست میں کہے تھے، آج بھی فکروں کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں کہ یاد شہید ڈاکٹر نقوی سے اگلا سفر ہم سب کا ابھی باقی ہے کہ ہم نے کیسے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شریک سفر ہونا ہے۔ ڈاکٹر شہید کے ساتھ شریک سفر ہونے کے لیے وہ امور اور وہ سبیل جس کی ڈاکٹر شہید نے تاکید کی، اس پر چل کر ہی ہم شہید ڈاکٹر کے شریک سفر ہوسکتے ہیں۔ وہ پراجیکٹس جو شہید کی زندگی میں ادھورے رہ گئے، ان کی تکمیل کی کوشش کرکے ہم شہید ڈاکٹر کے شریک سفر ہوسکتے ہیں۔ رہبریت اور انقلاب سے متمسک رہ کر ہم ڈاکٹر شہید کے شریک سفر ہوسکتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے حاصل آئی ایس او سے تعاون کرکے ہم شہید ڈاکٹر کے شریک سفر ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 919606
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش