0
Thursday 4 Mar 2021 17:39

طَبِیبٌ دَوَّار۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی

طَبِیبٌ دَوَّار۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی
تحریر: محمد بشیر دولتی

میں آج اس عظیم شخصیت کے بارے میں قلم اٹھا رہا ہوں، جسے آنکھ بھر کر دیکھنے کی خواہش کے باوجود کبھی دیکھ نہیں سکا، ہمہ تن گوش ہو کر سننے کی تڑپ رکھنے کے باوجود سن نہیں سکا اور وہ دور ہمیشہ کے لیے بہت دور چلا گیا۔ مگر میری آنکھیں اب بھی انہیں دیکھتی ہیں، میری سماعت اب بھی ان کو سنتی ہے۔ چونکہ میں ان کے بہت ہی قریبی دوستوں اور ساتھیوں کو دیکھ اور سن چکا ہوں اور اب بھی دیکھ اور سن رہا ہوں۔ وہ مجھ جیسے ہزاروں بے سمت لوگوں کو ایک فکری جہت دے کر چلا گیا۔ وہ مختلف تعلیمی اداروں میں بکھرے ہمارے موتیوں کو تسبیح کے دانوں کی مانند ایک مالے میں پرو کر چلا گیا۔ وہ ہزاروں ذات، خاندان اور نوکری کیلئے جینے والوں کو ایک اعلیٰ مقصد دے کر چلا گیا۔ وہ ہزاروں خاموش لبوں کو صدائےحق بلند کرنا سکھا گیا۔ وہ دینی اقدار کا ایسا رکھوالا تھا کہ دلیپ کمار کے ساتھ فوٹو سیشن کیلئے کھڑا ہونے کی بجائے اس نوکری سے نہ فقط استعفیٰ دیدیا بلکہ اسی وقت ساری مراعات بھی واپس کر دیں، یوں چند روپیوں کے عوض اپنی خودی بیچنے والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ نوکری، گاڑی اور مقام کیلئے ہر جائز و ناجائز کام کر گزرنے والوں کو حیرت میں ڈال دیا۔

وہ نہ فقط اپنی ذات میں انجمن تھے بلکہ تنظیم ساز شخصیت بھی تھے، شہید قائد کے دست و بازو ہونے کے ساتھ ساتھ آئی ایس او اور آئی او جیسی تنظیموں کے بانی تھے۔ ہاں وہ تنظیموں اور اداروں کے بانی ضرور تھے مگر تنظیموں اور اداروں میں خود کو کبھی مضبوط نہیں کیا، چونکہ وہ نظام کو مضبوط کرنے والے بےلوث خدمت گزار تھے۔ یہی سبب ہے کہ اپنی زندگی میں تنظیم کے کئی مرکزی پروگراموں میں ایک عام آدمی کی طرح آکر پنڈال میں عوام کے ساتھ کھڑے رہتے اور پروگرام ختم ہونے پر چپکے سے چلے جاتے تھے۔۔۔۔ وہ کسی کلینک میں بیٹھ کر وقت گزارنے والے ڈاکٹر نہیں تھے بلکہ اپنے زمانے کے طبیب دوّار تھے۔ ہاں وہ فقط جسمانی بیماریوں کے ڈاکٹر نہیں تھے بلکہ روحانی اور معاشرتی بیماریوں کے بھی ڈاکٹر تھے۔ وہ ایسے ڈاکٹر تھے، جو مریضوں کو شفا اور ان کی کمزوروں کو آرام پہنچانے خود دربدر پھرتے تھے۔ وہ بیماروں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیلیے خود تھکن سے چور چور ہوتے تھے۔ وہ صرف مومن ہی نہیں مومن ساز بھی تھے۔ وہ فقط مرد صالح نہیں بلکہ مرد مصلح بھی تھے، جو بھی ان سے ایک بار ملا، وہ پھر ان کی ذات سے جڑ گیا اور آج بھی ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر، آفیسر سے پہلے ایک مومن، ایک حسینی و ایک عزادار ہے۔

بالمشافہ کبھی شہید کی زیارت نہیں ہوٸی، مگر جو جو ان کے قریبی ساتھی رہے، انہیں دیکھ کر اور ان کی زبانی سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ ”وہ“ کیسے شاہکار، مدبر، معلم و مبلغ تھے۔ وہ تنظیم سے لیتے کچھ نہی تھے، پر اپنا سب کچھ دے دیتے تھے۔ وہ اپنا جیب خرچ بھی تنظیمی امور پہ خرچ کرتے تھے۔ وہ گھریلو وقت کو بھی ملت کیلئے وقف کیا کرتے تھے، وہ تنظیمی دفتر بند ہوتے وقت سب کے ساتھ نکل جاتے مگر جب سب چلے جاتے تو چپکے سے اکیلے آکر صفائی کیا کرتے تھے۔ وہ گھر میں ہوں تو ہمیشہ میزبان ہوتے تھے، مسافرت میں ہوں تو نہ فقط مونس و مددگار ہوتے بلکہ ایک مؤذن، ایک مربّی اور ایک عالم دین ہوتے تھے۔ وہ نہ صرف عام دنوں کو تنظیم کیلیے وقف کرتے بلکہ اپنی شادی کے دنوں میں بھی تنظیمی امور میں مشغول رہے۔ وہ دن کی روشنی میں نہ فقط میٹنگوں کی صدارت کرتے بلکہ رات کے اندھیرے میں ساتھیوں کے ساتھ وال چاکنگ بھی کیا کرتے تھے۔ وہ جوانوں کو تعلیم کی افادیت کے ساتھ ساتھ تربیت کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔

وہ نہ فقط شیطان بزرگ کی چالوں اور مکاریوں سے آگاہ کرتے بلکہ اس کی آمد پر ہزار رکاوٹوں کو توڑ کر، ہزار سزاؤں و مشکلات سے بے خوف ہو کر اس کے سامنے ہی “ڈون ود یو ایس اے” کی صدا بلند کرتے تھے۔ نہ صرف اندرون ملک اس زمہ داری کو نبھایا کرتے بلکہ بیرون ملک بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ برأت از مشرکین وبرأت از ظالمین کا بھرپور اظھار کرتے تھے۔ وہ جتنے نظریاتی تھے، اس سے زیادہ عملی انسان تھے۔ یہی سبب ہے کہ ایران عراق جنگ میں جب امام خمینی نے جوانوں کو رضاکارانہ اس جنگ میں شرکت کی دعوت دی تو کہتے ہیں کہ اس وقت آپ حالت سفر میں تھے، مگر اعلان سنتے ہی اپنے ساتھی سے پوچھا کہ جیب میں کتنے پیسے ہیں؟ جو بھی ملا اسے لیا اور لاہور کا رخ کیا، وہاں چند دوستوں سے مل کر دوائیوں کا اہتمام کیا اور انھیں لے کر چند دنوں میں اہواز کے گرم ترین محاذ پہ پہنچ گئے۔ گھر والوں کو اس کی اطلاع بھی دوستوں کے ذریعے سے ملی۔ محاذ پر اس طرح زخمیوں کی خدمت کی کہ خود ایرانی ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہم تو ہر روز کچھ دیر آرام بھی کرتے تھے، مگر ڈاکٹر نقوی دو دو دن تک مسلسل کام کرتے تھے۔ اکثر اوقات ہم نیند سے اٹھتے تو انھیں کام میں مشغول پاتے۔

عجب آدمی تھے کہ دوسروں کے سکھ و چین کیلئے خود بےچین رہتے تھے۔ وہ شھادت کے مبلغ بھی تھے اور مشتاق بھی، ایسے متقی، پرہیزگار، بےلوث اور درد مند لوگوں کو یہ دنیا جینے نہیں دیتی، مگر خدا بھی ایسے متحرک و فرض شناس لوگوں کو کبھی مرنے نہیں دیتا۔ وہ شھادت جیسی نعمت کے ذریعے ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہوگئے۔ ایران عراق محاذ پر ساتھ کام کرنے والے ایرانی ڈاکٹروں کے بقول اگر ڈاکٹر محمد علی نقوی شھید نہ ہوتے تو یہ ان کے ساتھ ظلم ہوتا۔ یہ ان ہستیوں میں سے تھے، جن کو خود شھادت نے انتخاب کیا ہے۔ میں آج بھی جب کسی سینیئر دوست کو خلوص میں ڈوب کر عملی میدان میں قوم و ملت اور دین حق کی خدمت کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے شہید ڈاکٹر زندہ ہوں۔ میں آج بے لوث جوانوں کو اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر دین کی خدمت کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو یقین میں اضافہ ہوتا ہے کہ واقعی شہید زندہ ہوتا ہے۔ میں جب بھی کسی عالم دین کو ولایت فقیہ کی بات کرتے سنتا ہوں تو یقین ہوتا ہے کہ شھید آج بھی زندہ ہے، چونکہ پاکستان میں ولایت کے جتنے عظیم خطیب آئے، وہ آپ کی بے لوث جہد مسلسل کا ہی نتیجہ ہے۔ خدا ایسے تمام علماء کرام و خطیب حضرات کو سلامت رکھے۔

میں جب بھی پاکستان میں القدس کی ریلیوں اور ان میں موجود لوگوں کو دیکھتا ہوں، یا مختلف شہروں، گاٶں اور قصبوں کے مرکزی ماتمی جلوسوں میں نماز باجماعت ہوتے دیکھتا ہوں تو یقین ہوتا ہے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی زندہ ہیں۔ اب بھی کسی بچے کے منہ سے سنتا ہوں کہ ”ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے، امریکہ مردہ باد ہے“ یا یہ نعرہ سنتا ہوں کہ ”رہبر کے فرمان پر، جان بھی قربان ہے“ تو یقین کامل ہو جاتا ہے کہ شہید آج بھی زندہ ہیں اور مجھے ہر طرف شھید ڈاکٹر محمد علی نقوی ہی نظر آتا ہے۔ خدا شہید کے خون کے صدقے میں ہم سب کو انکے فکر و عمل کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں دعوت فکر و عمل کیلئے شھید کے ہی ایک نورانی و فکری جملے کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ ”حق کو پہچاننے کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہنا حق کی توہین ہے۔“ خدا ہم سب کو معاشرے کے اندر حق کو پہچاننے، حق کو سننے، حق بولنے، حق پر عمل کرنے، حق پر قاٸم رہنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
خبر کا کوڈ : 919639
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش