QR CodeQR Code

جدید اسلامی تہذیب، نظریہ اور خدوخال(3)

4 Mar 2021 20:30

اسلام ٹائمز: رہبر انقلاب اسلامی نے 21 مارچ 2019ء کے ایک خطاب میں کہا کہ مغرب اور امریکہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ایرانی قوم کوئی ارادہ کرتی ہے تو وہ یقیناً اپنے مقصد کو پا لے گی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ ایرانی عوام کے ارادہ سے نہیں لڑ سکتے ہیں۔ اگر ایرانی قوم کوئی ارادہ کرتی ہے تو اسکی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا یا سازشیں کرنا بے فائدہ ہے۔ لہذا سوال یہ ہے کہ انکو کیا کرنا چاہیئے؟ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کچھ ایسا کیا جائے، جس سے ایرانی قوم ارادہ نہ کرے۔ وہ ایرانی قوم کے ارادہ کی طاقت کو کمزور کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ آج ہمارے نوجوانوں کے سیاسی اور مذہبی عقائد میں اختلافات پیدا کرنے کیلئے لاکھوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں، تاکہ ان میں بڑھنے کا عزم معدوم ہو جائے۔ وہ ہماری قوت ارادی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔


تحریر: سید اسد عباس

گذشتہ تحریر میں ہم نے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کی روشنی میں جدید اسلامی تہذیب کے خدوخال کے بارے میں ایک تعارفی خطاب کو ملاحظہ کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے واضح کیا کہ جدید اسلامی تہذیب سے مراد زمینوں کو فتح کرنا نہیں ہے۔ اس سے مراد اقوام کے حقوق غصب کرنا نہیں ہے۔ اس سے مراد کسی پر عقائد اور ثقافت کو مسلط کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد اقوام کو ایک الہیٰ تحفہ پیش کرنا ہے، تاکہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے درست راہ کا انتخاب کریں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے 15 نومبر 2019ء میں اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ ریاست اسلامی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اتحاد امت اپنے حقیقی معنوں میں ایک ضرورت ہے اور اس کی مثالیں بھی موجود ہیں، یہ ہمارے وقت سے مخصوص نہیں ہے۔ ایک عظیم مرجع تقلید جو ہماری جوانی میں پوری شیعہ قوم کے مرجع تقلید تھے، اتحاد اسلامی کے داعی تھے۔ انھوں نے اسلامی مکاتب کے مابین اتحاد کی سنجیدگی سے ترویج کی۔ وہ عالم اسلام میں اہل سنت علماء سے قریبی روابط رکھتے تھے اور ان سے مکالمے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ یہ ایک قلبی اور گہرا عقیدہ ہے۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں یا ایسے ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے (اتحاد امت) ایک سیاسی حربہ ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے، اس کی بنیاد ایمان ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ یقیناً اتحاد اسلامی کے مختلف درجے ہیں۔ سب سے کم ترین درجہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے، اسلامی ممالک، اسلامی حکومتیں، اسلامی اکائیاں اپنی حدود سے تجاوز، ایک دوسرے کے مقابل آنے اور نقصان پہنچانے سے اجتناب کریں۔ یہ پہلا درجہ ہے۔ اس سے اگلا درجہ یہ ہے کہ عالم اسلام اپنے مشترکہ دشمن کے مقابل ایک دوسرے کے تحفظ کے لیے متحد ہو، یہ اعلیٰ درجہ ہے۔ اس سے بھی اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اسلامی ریاستیں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اسلامی ممالک کی سائنس، سرمایہ، امنیت اور سیاسی قوت میں ایک جیسا مقام نہیں ہے۔ یہ ان موارد میں ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں۔ اس سے بھی بلند درجہ یہ ہے کہ عالم اسلام اسلامی تہذیب کے حصول کے لیے متحد ہو جائے۔ ریاست اسلامی نے اسی مقصد کو اپنا اصلی ہدف قرار دیا ہے۔ ایک ایسی تہذیب جو موجودہ دور کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔

رہبر انقلاب اسلامی نے 21 مارچ 2019ء کے ایک خطاب میں کہا کہ مغرب اور امریکہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ایرانی قوم کوئی ارادہ کرتی ہے تو وہ یقیناً اپنے مقصد کو پا لے گی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ ایرانی عوام کے ارادہ سے نہیں لڑ سکتے ہیں۔ اگر ایرانی قوم کوئی ارادہ کرتی ہے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا یا سازشیں کرنا بے فائدہ ہے۔ لہذا سوال یہ ہے کہ ان کو کیا کرنا چاہیئے؟ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کچھ ایسا کیا جائے، جس سے ایرانی قوم ارادہ نہ کرے۔ وہ ایرانی قوم کے ارادہ کی طاقت کو کمزور کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ آج ہمارے نوجوانوں کے سیاسی اور مذہبی عقائد میں اختلافات پیدا کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں، تاکہ ان میں بڑھنے کا عزم معدوم ہو جائے۔ وہ ہماری قوت ارادی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ آپ کو فیصلہ کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ ان کی توجہ اس پر مرکوز ہے کہ آپ کی قوت ارادی کو پیش رفت، مقاومت اور جدید اسلامی تہذیب کی جانب بڑھنے سے روکے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ قوت ارادی پختہ ہوچکی ہے اور یہ یقیناً اپنا ہدف حاصل کرلے گی۔ ایسا وہ پہلے بھی کرچکے ہیں۔

طاغوتی رژیم کی حکومت کے دوران میں انھوں نے نوجوانوں کے مابین اس تصور کو رواج دیا کہ اگر آپ ترقی اور تمدن چاہتے ہیں تو آپ کو مذہب کو ایک جانب رکھنا ہوگا۔ وہ کہتے تھے کہ مذہبی رواداری اور مذہبی عقائد سائنس، ترقی اور ایسی ہی چیزوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ آج بند آنکھوں کو کھولنے کی ضرورت ہے، وہ ہماری بہترین، عظیم ترین اور جدید ترین صنعتوں کو دیکھیں، ہم اس صنعتی پیشرفت میں بہترین ممالک کی فہرست میں ہیں اور دنیا میں پہلے نمبر کے ممالک کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ان جوانوں نے تشکیل دیا ہے، جو دعائے کمیل پڑھتے تھے، جو تہجد ادا کیا کرتے تھے، جو اعتکاف انجام دیتے تھے، جو دعائے ندبہ کا شغف رکھتے تھے اور نیک تھے۔ ہم جدید صنعتوں نینو ٹیکنالوجی، نیوکلیائی ٹیکنالوجی، میزائل ٹیکنالوجی اور دیگر پیشرفتہ ٹیکنالوجی کے میدانوں میں اس وقت دنیا کے ممالک میں سرفہرست ہیں۔ یہ سب کرنے والے ایماندار نوجوان ہیں، جو مجھ سے بہت قریب ہیں۔ نوجوانوں کو سائنس، دانش، سیاست اور محنت کے میدانوں میں اپنی کاوشوں کو بڑھانا ہوگا، ان کو فرعی اور غیر ضروری امور کی جانب توجہ نہیں دینی چاہیئے۔ ان کو ایسے امور میں نہیں پڑنا چاہیئے، جو اختلاف کا باعث بنتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 919674

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/919674/جدید-اسلامی-تہذیب-نظریہ-اور-خدوخال-3

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org