1
Thursday 4 Mar 2021 23:20

عراق کے مسائل کا راہ حل، امریکہ سے چھٹکارا

عراق کے مسائل کا راہ حل، امریکہ سے چھٹکارا
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی
 
امریکہ نے حال ہی میں شام کے علاقے دیرالزور میں فضائی حملہ انجام دیا ہے جس میں عوامی رضاکار فورس "حزب اللہ عراق بریگیڈز" کے چند افراد شہید اور چند دیگر زخمی ہو گئے۔ اس حملے کے بعد عراق اور شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے بارے میں نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ یہ حملہ عراق اور شام کی سرزمین اور فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے انجام پایا ہے جو درحقیقت خطے کے دو عرب ممالک کی رٹ اور خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دی جا رہی ہے۔ اسی طرح اس حملے کا نشانہ ایسے افراد کو بنایا گیا جو شام حکومت کی اجازت سے شام آرمی سے تعاون کرنے میں مصروف تھے۔ اس حملے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں سابق امریکی حکومت کے اقدامات کی یاد تازہ ہو گئی۔ اب یہ سوال پیدا ہو چکا ہے کہ اسلامی مزاحمتی بلاک کس انداز میں اور کن اقدامات کے ذریعے امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام کا جواب دے گا۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ خطے میں امریکہ کی دہشت گرد فوجی مرکزی کمان "سینٹ کام" کا دعوی ہے کہ عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کی چند یونٹس پر یہ فضائی حملہ اس حملے کے جواب میں انجام پایا ہے جو کچھ پہلے اربیل میں امریکی فوجی اڈے پر انجام پایا تھا۔ یہ دعوی ایسے وقت کیا گیا ہے جب حشد الشعبی کی یونٹ 46 (حزب اللہ بریگیڈز) اربیل میں امریکی فوجی اڈے پر حملے کے وقت اور اس کے بعد بھی واضح طور پر اس میں ملوث نہ ہونے کا اعلان کر چکی تھی۔ دوسری طرف امریکہ نے اپنے فوجی اڈے پر حملے میں حزب اللہ بریگیڈز کے ملوث ہونے کے بارے میں کوئی قابل قبول ثبوت بھی پیش نہیں کئے۔
 
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹین نے کہا کہ امریکی فضائیہ نے یہ حملہ ان معلومات کی روشنی میں انجام دیا ہے جو عراقی ذرائع نے اسے فراہم کی تھیں۔ دوسری طرف عراق کی وزارت خارجہ نے اپنے سرکاری بیانیے میں اس حملے میں امریکہ کی مسلح افواج کے ساتھ کسی قسم کے تعاون کی تردید کی ہے۔ لہذا یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ اربیل میں امریکی فوجی اڈے پر حملے کا حشد الشعبی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ لیکن امریکہ کی جانب سے اپنے فوجی اڈے پر حملے سے حشد الشعبی کا تعلق جوڑنے کی کیا وجہ ہے؟
 
2)۔ اربیل میں "الحریر" نامی امریکی فوجی اڈے پر گذشتہ چند ماہ کے دوران دوسرا حملہ، عراق اور خطے میں موجود امریکی فوجیوں کیلئے شدید خطرے کی گھنٹی قرار دی جا رہی ہے۔ الحریر فوجی اڈہ عراق کے کرد نشین علاقے میں واقع ہونے کے ناطے ایک اہم اور خاص فوجی اڈہ سمجھا جاتا ہے جو ترکی کے اینجرلیک فوجی اڈے سے مشابہت رکھتا ہے۔ لہذا امریکی حکام نے اس اڈے پر حملے کا فوری ردعمل ظاہر کیا ہے تاکہ خطے میں اپنے فوجی اڈوں کی پوزیشن متزلزل ہونے سے بچا سکیں۔ لیکن چونکہ امریکی حکام یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ حملہ کن عناصر کی جانب سے اور کس جگہ سے انجام پایا ہے لہذا انہوں نے عراق میں اپنی فوجی موجودگی کے اصلی مخالفین میں سے ایک پر الزام عائد کر کے اس کے ایک ٹھکانے کو نشانہ بنا ڈالا۔
 
حقیقت یہ ہے کہ اس فضائی حملے کے ذریعے حشد الشعبی کو امریکہ مخالف اقدامات انجام دینے کی خاطر نہیں بلکہ امریکہ مخالف موقف رکھنے کی سزا دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے جیسا کہ عراق کی حزب اللہ بریگیڈز کے بیانیے میں بھی زور دیا گیا ہے، وہ مظلوم واقع ہوئے ہیں اور انہیں جوابی کاروائی کا مکمل حق حاصل ہے۔ شاید اسی وجہ سے اور حزب اللہ بریگیڈز کی فوری جوابی کاروائی کے خوف کے باعث امریکہ نے عراق، خاص طور پر البلد فوجی اڈے میں تعینات فورسز کو ہائی الرٹ دے رکھا تھا اور جوابی کاروائی سے پریشان تھا۔
 
3)۔ جو بائیڈن کے دور میں امریکہ کے فوجی اقدامات مکمل طور پر ڈونلڈ ٹرمپ دور کے فوجی اقدامات سے مشابہت رکھتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام اور عراق میں انجام پانے والے امریکی اقدامات محض امریکی صدر کی پالیسی کے مطابق انجام نہیں پا رہے بلکہ امریکی وزارت دفاع پینٹاگون کی پالیسیوں کی روشنی میں ہیں۔ لہذا دو ماہ قبل عراق کے علاقے القائم میں انجام پانے والا امریکی حملہ جس کے نتیجے میں حشد الشعبی کے 27 افراد شہید ہوئے نیز شام کے علاقے دیرالزور میں انجام پانے والا حالیہ امریکی حملہ جس میں حشد الشعبی کے چند افراد شہید اور زخمی ہو گئے ہیں، پینٹاگون کی طے شدہ پالیسی کے نتیجے میں انجام پائے ہیں۔
 
یہ حملے امریکہ کے حکمفرما نظام کے فیصلوں کے نتیجے میں انجام پائے ہیں اور ان کا سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصی ایماء پر انجام پانے والے اقدامات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بغداد ایئرپورٹ کے قریب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصی ایماء پر انجام پائی تھی جس کا اصل مقصد پینٹاگون کے ظالمانہ اور غیر قانونی اقدامات سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانا تھی۔ لہذا عراق میں امریکہ کی فوجی کمان نے خود کو شدید انتقامی کاروائی کا مستحق قرار دے دیا ہے اور اسے اس انتقامی کاروائی کا انتظار کرنا چاہئے۔
 
4)۔ دیرالزور میں امریکہ کا فضائی حملہ ایک طرف عراقی شہریوں کے خلاف مجرمانہ اقدام تھا جبکہ دوسری طرف ہمسایہ ملک پر جارحیت کیلئے عراق کی سرزمین کا غلط استعمال تھا۔ اس بنیاد پر عراقی حکومت اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی ہونے اور اپنے شہریوں کی شہادت واقع ہونے کے سبب شدید اعتراض کرنے اور مرتکبین کو شدید سزا دینے کا مکمل حق رکھتی ہے۔ عراقی حکومت کو چاہئے کہ وہ امریکی فوجیوں کو ملک سے نکال باہر کر کے مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات دہرائے جانے کو روکے۔ لیکن بدقسمتی سے عراقی حکومت نے اب تک بہت کمزور ردعمل ظاہر کیا ہے اور شدید ردعمل ظاہر کرنے کی بجائے صرف امریکی فوجیوں سے ہر قسم کے تعاون کو مسترد کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔
 
دوسری طرف عراق کے وزیر خارجہ فواد حسین، جن کا تعلق کرد نشین علاقوں سے ہے، نے شام نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے امریکہ کے فضائی حملے کا نشانہ بننے والے افراد کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا: "جب ہمارے پاس حکومت ہے تو مزاحمتی گروہ کا کیا مطلب ہے؟" موجودہ عراقی حکومت پر ابتدا سے ہی بعض حلقے یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ امریکی سازش کے نتیجے میں برسراقتدار آئی ہے اور اسے خطے میں امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا مشن سونپا گیا ہے۔ عراقی شہریوں پر امریکہ کے حالیہ فضائی حملے سے متعلق کمزور موقف نے اس الزام کو مزید قوت بخشی ہے۔
 
اس واقعے میں عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ عراق کی حق خود ارادیت کا دفاع کرنے کا عزم نہیں رکھتے اور جارح امریکی فورسز کے خلاف عراقی شہریوں کا دفاع کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ لہذا عراقی عوام کو قومی سلامتی اور ان کی سکیورٹی کا دفاع کرنے میں مصروف فورسز کی حمایت کیلئے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ ابھی انہی عوامی رضاکار فورسز یعنی حشد الشعبی کی جانب سے امریکہ، یورپ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گرد عناصر کے مقابلے میں عوام کا دفاع کرتے ہوئے ان کی سکیورٹی یقینی بنائے جانے کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ اگر حشد الشعبی میدان میں حاضر نہ ہوتی تو عوام کی سکیورٹی اور سلامتی مکمل طور پر ختم ہو جاتی۔
 
اب امریکہ جو عراق کے حکومتی سیٹ اپ کو قبول کرنے کا دعویدار ہے، حشد الشعبی کی ایک یونٹ پر حملہ ور ہوتا ہے جبکہ یہ یونٹ عراق کے حکومتی سیٹ اپ کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف برسرپیکار بھی ہے۔ شام کی سرزمین پر امریکہ کی حالیہ جارحیت اور عراق کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی کے خلاف عراقی حکومت کا کمزور موقف بذات خود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عراق، شام اور دیگر ممالک میں عوامی رضاکار فورسز کی موجودگی بہت ضروری ہے۔ امریکہ ایسا نہیں چاہتا کیونکہ ان عوامی فورسز کو اپنے ناپاک عزائم میں بڑی رکاوٹ تصور کرتا ہے اور جنگ کے بغیر محض سیاسی اور فوجی معاہدوں کے ذریعے عراق پر اپنا ناجائز تسلط اور قبضہ جمانے کے درپے ہے۔
 
5)۔ حشد الشعبی کی ایک شاخ کے چند ٹھکانوں پر امریکہ کے فضائی حملوں کے ساتھ ہی عراق اور شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی سرگرمیوں میں بھی شدت آئی ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں داعش نے شام آرمی کے کم از کم 60 فوجیوں کو شہید کر دیا ہے جبکہ گذشتہ تین ماہ کے دوران عراق کے صوبوں دیالی، کرکوک، نینوا، صلاح الدین، بابل اور الانبار میں دس سے زیادہ دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دی ہیں جن میں دو سو سے زائد عراقی شہری شہید ہوئے ہیں۔ یہاں دو بنیادی نکات پر توجہ ضروری ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے تجربات اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں کہ عراق میں داعش کے خلاف آرمی کے آپریشنز کی کامیابی کی بنیادی شرط حشد الشعبی کے وہ بہادر اور مذہبی جذبے کے حامل جوان ہیں جو ہراول دستے کا کردار ادا کرتے آئے ہیں۔
 
دوسرا نکتہ یہ کہ عراقی حکمرانوں کو ملک میں اپنی فوجی موجودگی قبول کرنے پر مجبور کرنے کیلئے امریکہ کو عدم استحکام اور بدامنی کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہم عراق اور شام دونوں ممالک میں ایک ساتھ تکفیری دہشت گرد عناصر کی بڑھتی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور اسلامی مزاحمتی قوتوں کے خلاف امریکہ کی بڑھتی فوجی کاروائیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس سے داعش اور امریکہ کی ایک حقیقت اور ان کا ایک پیج پر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے عراق اور شام کو ہر اقدام سے پہلے اپنے ملک کو جارح امریکی فورسز اور فوجی اڈوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے اقدامات نتیجہ بخش ثابت ہو سکیں۔
خبر کا کوڈ : 919698
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش