QR CodeQR Code

گلستان خمینی کے لالہ و گل

5 Mar 2021 23:30

اسلام ٹائمز: شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی ذات، کردار، انکا بچپن، انکی تعلیم، انکی تہذیب، انکی شائستگی، انکا تحرک، انکی فعالیت، انکا نظم، انکا درد، انکی خدمت خلق، انکی خدمات، انکی مناجات۔ انکا آگاہانہ شوق شہادت و تڑپ، انکی مسلسل متحرک زندگی و کردار، الغرض ہر پہلو ہی نرالا اور اپنی مثال آپ تھا، مگر یہ ساری خصوصیات اور خدمات و کردار گلستان خمینی کے ہر گل سے مماثل دکھائی دیتی ہیں۔ شائد یہی وجہ تھی کہ دوست احباب انہیں چمران پاکستان کہہ کر پکارتے تھے، جن لوگوں نے چمران کو نہیں دیکھا، انہوں نے دور حاضر میں مالک اشتر زمان شہید سلیمانی کو تو دیکھا ہے کہ وہ کس طرح اپنوں پر مہربان اور دشمنوں کیلئے قہرمان تھے۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر

ماہ ِمارچ پاکستان میں بہار کی آمد کی نوید ہے، اس مہینہ میں پھول کھلتے ہیں، زرد پتے سبز پہناوا پہنتے ہیں اور کونپلیں کھلتی ہیں، باغوں اور گلستانوں میں ہوا کے جھونکے چلتے ہیں تو خوشبو سے معطر ماحول دلوں کو لبھاتا ہے، فطرت کا حسن انسانوں پر نہایت ہی اچھے اور صحت مندانہ اثرات مرتب کرتا ہے، خوشی، مسرت، تازگی کا احساس ہر چہرے پہ عیاں ہو جاتا ہے، مگر 26 برس پہلے ہم اس بہار کے جوبن پر اپنے گل لالہ کو سرخ پتیوں میں بکھرتا دیکھ چکے ہیں۔ ہمارے گلِ لالہ کو ساتویں مارچ 1995ء کی دم صبح یتیم خانہ چوک میں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اور اس کی سرخی ہر سو پھیل گئی۔ چھبیس برس ہونے کو آئے ہیں کہ ہم نے اس کے بعد بہار کا وہ منظر نہ دیکھا، جو ان کی موجودگی میں ہم دیکھا کرتے تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمارا گلستان آباد و شاد ہے اور اس میں نئے پھول کھل رہے ہیں، مگر ہمارے گلستان کے گلِ لالہ کے چھلنی ہونے کے بعد یہ احساس وقت گذرنے کیساتھ ساتھ دم توڑتا گیا۔

اس لئے کہ باغ تو آباد رہا، نئے پھول بھی اس میں کھلتے آرہے ہیں، مگر ان کی خوشبو اس گل ِلالہ سی کہاں۔ ہم جو اس خوشبو کے عادی ہوچکے تھے، ہم جو اس خوشبو سے معطر ہوچکے تھے، ہم جو اس خوشبو کا نشہ کرچکے تھے، ہمیں چھبیس برس سے اس کی تلاش رہی۔ نئے کھلنے والے باغیچے کے پھولوں میں اور پرانے ہم جولویوں میں بھی، ہم آج بھی اس خوشبو کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، مگر نہ وہ خوشبو ملتی ہے نہ وہ لہجہ، ہاں ہم نے امید کا دامن نہیں چھوڑا، ہم نے دعا کا راستہ نہیں چھوڑا، ہم نے فرمائش اور چاہت کا اظہار نہیں چھوڑا۔ ہم آج بھی اس گلِ لالہ کی خوشبو چاہتے ہیں، ہم اپنے باغ کو اسی گلِ لالہ سے مہکتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ گل لالہ اگرچہ مولانا سید امیر حسین نقوی کے آنگن میں کھلا، مگر اس کی خوشبو سے سارا جہاں ہی معطر ہوا، خوشبو کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، خوشبو کو مقید نہیں کیا جا سکتا، خوشبو کو محدود یا پابند نہیں کیا جا سکتا۔

اس لئے مولانا سید امیر حسین نقوی کی نجف اشرف میں کی گئی دعائوں اور مناجات کے نتیجے میں سید محمد علی نقوی کے نام سے جو گل لالہ ان کے چمن میں پھلتا پھولتا رہا، اس نے ان دعائوں کا اثر اور ان مناجات کی تاثیر بھی بخوبی دکھائی۔ یہ تاثیر ایسی تھی کہ جو بھی اس کو ایک بار محسوس کرتا، پھر اس کا عاشق ہو جاتا، اس کا سفیر بن جاتا، اس کا مرید ہو جاتا، اس کا ہمنوا ہو جاتا اور یہ بات قابل دقت ہے کہ یہ گل ِلالہ خود ایک مرد قلندر کی خوشبو سے تاثیر لے رہا تھا اور اس کا اظہار بھی کرتا تھا کہ وہ امام خمینی کا ایک ادنیٰ سا عاشق ہے۔ اسے امام خمینی کی ذات اور ان کی خوشبو (نظریہ) سے تاثیر ملتی ہے، وہ خود کچھ نہیں ہے، اسے امام خمینی کی ذات میں فنا ہونا سعادت محسوس ہوتا تھا، وہ اپنی تمام تر محبتوں کا مرکز و محور امام خمینی کو ہی سمجھتے تھے۔

جس جس کو امام خمینی سے عشق یا محبت تھی، وہ اس سے مانوس اور اس کا ہم قدم تھا، پاکستان میں علامہ سید عارف الحسینی کی شکل میں بھی امام خمینی کے گلشن سے معطر ہو کر اپنی خوشبو پھیلانے والی ہستی موجود تھی، جس نے ہمارے گلِ لالہ کو بھی اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔ علامہ عارف حسین الحسینی اس گل لالہ کو خوب پہچانتے تھے، لہذا جب بھی ملنا ہوتا ایک آواز لگاتے، دھیرے سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے تو ہمارا گل ِلالہ اڑ کے ان تک پہنچ جاتا، بالکل ایسے ہی جیسے خوشبو ہوا کے جھونکے سے پورے گلستان کو معطر کر دیتی ہے بلا رکاوٹ، ایسے ہی یہ گلِ لالہ لاہور سے پشاور پہنچ جاتے تھے۔

ایک بار عجیب ہوا کہ امام خمینی کی محفل کے ایک عظیم ستارے علامہ سید عارف حسین الحسینی نے ہمارے گل لالہ کو بلایا اور آہستگی سے کہا کہ اس بار حج پہ اہل ایران اور اہل لبنان پر پابندی ہے اور امام خمینی کی خواہش ہے کہ اس عظیم موقعہ پر برائت از مشرکین کا فریضہ کسی بھی صورت میں ادا کیا جائے تو ہمارے گلِ لالہ نے بلا جھجھک اس کو ادا کرنے کی ذمہ داری اٹھا لی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا، اپنی زندگی کو دائو پر لگا کر یہ کام کیا گیا، اس کام میں پہلے سے یہ یقین تھا کہ اگر گرفتاری ہوگئی تو بچنے کے چانس نہیں ہیں، اس کے باوجود یہ گل لالہ مکہ کی فضائوں میں بکھرنے کو تیار تھا۔ امام خمینی ایک ایسے باغبان تھے، جنہوں نے اپنے گلستان میں ایسے سینکڑوں گل ہائے لالہ اگائے اور ان کی مہک ناصرف ایران تک محدود رہی بلکہ یہ مہک ایران سے نکلتی ہوئی عراق، شام، لبنان، پاکستان، حجاز، بحرین، یمن اور دنیا کے بہت سے ملکوں میں محسوس کی گئی اور اب بھی کی جاتی ہے

اس گلستان اور اس کے باغبان کی خوشبو ایران میں شہید مطہری، رجائی، باہنر، بہشتی، سلیمانی کی صورت میں محسوس کی گئی۔ لبنان مین یہ خوشبو سید موسیٰ صدر، سید عباس موسوی، سید حسن نصر اللہ کے رنگوں میں خوشبو بکھیرتی نظر آئی۔ عراق میں یہ خوشبو سید مہدی الحکیم، سید باقر الصدر اور آمنہ بنت الہدیٰ، باقر الحکیم، ابو مہدی مہندس کی صورت میں سامنے آئی اور اپنی امت کو اس سے معطر کیا۔ شام میں یہی لالہ و گل مدافعان حرم کے عنوان سے سامنے آئے، یمن میں یہ پھول انصار اللہ کے نام سے کھلے اور اپنی مہک سے اہلیان یمن کو اس سے خوب مہکایا۔ حجاز میں یہ مہک باقر النمر کے نام سے مہک بکھیرتا نظر آیا، بحرین میں یہ مہک عیسیٰ قاسم کی صورت میں مہکا اور اپنے ملک کو معطر کر رہا ہے۔ پاکستان میں یہ مہک اور یہ خوشبو ہم نے علامہ عارف الحسینی اور ڈاکٹر محمد علی نقوی کی صورت میں ہم نے محسوس کی اور اس سے مستفید ہوئے۔

اس خوشبو اور اس مہک سے آشنا ہوئے، اس سے لو لگائی، اس کی محبت میں گھائل ہوئے، گلستان امام خمینی کے ہر لالہ و گل کی اپنی منفرد داستان ہے، ان کا اپنی اپنی جگہ پر نرالا کردار ہے، ان کی اپنی اپنی معرفت اور پہچان ہے، اس الگ پہچان اور معرفت کے باوجود ان میں جو مشترکات ہیں، وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ سب کے سب ہی عشق و محبت، ایثار و قربانی، خلوص و تقویٰ، کردار و گفتار، تحرک و حرکت، کشش و جاذبیت، للھیت، عبادت میں ڈوبے ہوئے نظر آتے۔ ان سب کی یہ خوبیاں اور خاصیتیں مشترک نظر آتی ہیں۔ گویا ان کی دوستی اور دشمنی فقط اللہ کیلئے ہوتی تھی، یہ ایسے ہی تھے جیسے کربلا کے میدان میں اترنے والے امام عالی مقام کے سب جانثار اپنی الگ پہچان اور مقام رکھتے تھے،اگر کسی ایک کردار کو نکال دیا جائے تو جیسے یہ کہانی نامکمل سی رہ جائے اور تشنگی محسوس ہو۔ ایسے ہی گلستان خمینی کا ہر پھول اپنی الگ کہانی اور داستان کے باوجود اپنی اصل خوشبو سے معطر کرتا تھا۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی ذات، کردار، ان کے بچپن، ان کی تعلیم، ان کی تہذیب، ان کی شائستگی، ان کا تحرک، ان کی فعالیت، ان کا نظم، ان کا درد، ان کی خدمت خلق، ان کی خدمات، ان کی مناجات۔ ان کا آگاہانہ شوق شہادت و تڑپ، ان کی مسلسل متحرک زندگی و کردار، الغرض ہر پہلو ہی نرالا اور اپنی مثال آپ تھا، مگر یہ ساری خصوصیات اور خدمات و کردار گلستان خمینی کے ہر گل سے مماثل دکھائی دیتی ہیں۔ شائد یہی وجہ تھی کہ دوست احباب انہیں چمران پاکستان کہہ کر پکارتے تھے، جن لوگوں نے چمران کو نہیں دیکھا، انہوں نے دور حاضر میں مالک اشتر زمان شہید سلیمانی کو تو دیکھا ہے کہ وہ کس طرح اپنوں پر مہربان اور دشمنوں کیلئے قہرمان تھے۔

ایسے ہی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو بھی ہم نے پایا، ہم ان کی برسی کے ایام ایسے نہیں اتنی شان و شوکت سے مناتے بلکہ یہ ان کی معرفت و پہچان اور ان کے احسانات کا نتیجہ ہے کہ جوانان انہیں یاد رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی چھبیسویں برسی پر ان کے مزار واقع علی رضا آباد لاہور پر ان کے عشاق اور ان کی مہک کو محسوس کرنے والے جمع ہونگے اور اپنے اپنے انداز میں ان کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ ہم بھی اپنے خلوص بھرا نذرانہ عقیدت پیش کرنے وہاں ہونگے۔ دعا ہے کہ گلستان خمینی کے لالہ و گل امام خامنہ ای کی رہبری میں دشمنان اسلام کو شکست سے دوچار کرنے کیلئے تا ظہور امام العصر آباد و شاد رہیں۔


خبر کا کوڈ: 919885

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/919885/گلستان-خمینی-کے-لالہ-گل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org