0
Sunday 7 Mar 2021 10:12

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا ویژن(2)

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا ویژن(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

آپ کا ملکی ویژن بھی بنیادی طور پر اس عالمی و فلاحی حکومت کے قیام کے دائرے میں تھا۔ آپ نے تنظیمی اور عوامی تقریروں میں کئی بار شہید مظلوم سید عارف حسین الحسینی کے اس ویژن کا حوالہ دیا ہے۔ شہید حسینی فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان میں ہمارے تین کردار اور تین طرح کی زمہ داریاں ہیں۔ ایک مسلمان، ایک پاکستانی اور ایک شیعہ ہونے کے ناتے سے۔ آپ نے آئی ایس او کے ایک اجلاس میں واضح طور پر کہا تھا کہ آئی ایس او جب تک عالم اسلام کے مسائل سے جڑی رہے گی، ترقی و پیشرفت کی منزلیں طے کرتی رہے گی اور جس دن آئی ایس او نے اپنے آپ کو داخلی اور ملکی مسائل تک محدود کر دیا، اس دن سے اس تنظیم پر جمود طاری ہونا شروع ہو جائے گا۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے ویژن سے آشنائی کے لئے ان کی اپنی تقاریر اور گفتگو سے چند اقتباس پیش کرتے ہیں۔ نظریاتی تنظیموں کے بارے آپ کا ویژن کچھ ا س طرح تھا: "عزیز دوستو! ایسے منظم گروہ جو اپنے اہداف پر باقی نہ رہ سکیں۔ جو اپنے مقاصد کو چھوڑ کر دنیاوی غرض و غایت اور عارضی حکومت سنبھالنے کا شوق رکھتے ہیں۔ ایسے منظم اداروں کو کبھی فائدہ نہیں ہوا۔ اس گفتگو میں پاکستان کی معروف مذہبی سیاسی جماعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں" ان شاء اللہ ایسے اداروں کا، جماعت اسلامی جیسے اداروں کا حشر وہی ہوگا، جو اس وقت مصر میں اخوان المسلمین کا ہوا ہے، جس کی کوئی زندگی نہیں ہے۔"

آپ نظریاتی اور روایتی تشیع کے فرق کے بارے میں کھل کر کہتے تھے: "صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ اس قسم کے شیعہ جو کسی اسلام دشمن کو نقصان نہ پہنچائیں، اسرائیل کو کچھ نہ کہیں، یاد رکھیں اسرائیل بھی ان کے خلاف قطعاً کوئی حرکت نہیں کرے گا۔ البتہ اگر آپ کو کبھی موقع ملے تو آپ موساد کی وہ دستاویزات پڑھیں، جو تہران میں امریکہ کی ایمبیسی سے ملی تھیں۔ وہ پاکستان کی اقتصاد، تعلیم اور ثقافت کے اندر گہری دلچسپی رکھتے تھے اور ان سے برآمدہ نقشوں سے یہ ظاہر  بھی ہوتا ہے۔ البتہ جب تک ہم اسی انداز سے اذان دیتے رہے، جس اذان کا کچھ معنی و مفہوم اور اثر نہیں ہے۔ ایسی اذان جو کسی کو متاثر نہ کرسکے۔ ایسی اذان سعودیہ میں، مدینہ میں اور مکہ وغیرہ میں جہاں مرضی دی جاتی رہے، اس سے دشمن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اسرائیل بھی ہمیں کچھ نہیں کہے گا۔"

شہید ڈاکٹر اپنے ویژن پر تاکید کے ضمن میں اپنے قائد کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں: "قائد محترم (علامہ شہید حسینی) یہ فرما چکے ہیں کہ ہماری تین حیثیتیں ہیں، ایک شیعہ ہونے کی حیثیت، ایک مسلمان ہونے کی اور ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت۔ میں سمجھتا ہوں آپ نوجوانوں کی چار ذمہ داریاں ہیں۔
I۔ شیعہ نوجوان کی قیادت و تربیت
II۔ ملت جعفریہ سے ہمدردی اور ان کے لئے کام کرنا
III۔ پاکستان کے نوجوانوں کی قیادت و تربیت
IV۔ ملک اور قوم کے لئے کام کرنا"
شہید ڈاکٹر ایک سماجی انقلاب کا ویژن رکھتے تھے اور صرف تنظیمی دور میں کام کرکے عملی معاشرے سے لاتعلقی کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ آپ کا کہنا تھا: "عزیز دوستو! یہ اپنے آپ کو اس انداز میں دھوکہ نہ دیں۔ کیا ہوگا کہ آپ اس گوشے سے نکل کر ادھر آئیں، آپ کی تو یہاں (آئی ایس او کے تربیتی نظام میں) تربیت ہو رہی ہے، لیکن آپ کے گھر میں باقی عوامل اثر انداز ہو رہے ہیں۔ جب آپ یہاں سے واپس جائیں گے تو آپ ایسا ماحول نہیں پا سکیں گے کہ آپ کام کرسکیں۔ لہذا آپ پر اس کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی درست کرنے کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو کامیابی کبھی نہیں ہوسکتی۔

اس چیز کو کہ آپ برائی کو اپنے سامنے اپنے گھر میں بیٹھے دیکھتے بھی رہیں، مسلسل نفرت کرتے بھی رہیں اور وہ بھی صرف دل ہی دل میں، اس کو جہاد نہیں کہتے۔ نفرت کرنے کا ایک مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اس پروگرام سے نکل کر باہر چلے جائیں۔ دوسرا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ آپ انھیں منع کیجئے، اس ٹی وی کو بند کیجئے، اس فلم کو بند کیجئے۔ اگر ہم نے بھی پاکستان کے معاملات کے اندر صرف نفرت ہی کرنی ہے، عملی طور پر کچھ نہیں کرنا، دشمنان پاکستان کے خلاف کچھ نہیں کرنا، تو ہمارا جو حشر اس وقت ہو رہا ہے، وہ آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔" آپ کے حب الوطنی کے جذبہ کے پیچھے ایک اسلامی معاشرے کی تکمیل کا ویژن تھا۔ آپ اس مسئلے کو ایک مثال سے سمجھایا کرتے تھے:

"عزیز دوستو، بزرگو! میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ ہمارا جو نعرہ ہے کہ "ہم چاہتے ہیں کہ تعلیمات محمد و آل محمد اس ملک میں عام ہو جائے" یہی ہے کہ نہیں ہے۔ عزیز دوستو! ہم چاہتے ہیں کہ ایک میٹھا شربت جس کو ہم واقعی دین محمد و آل محمد کہہ سکتے ہیں، مہیا ہو جائے لیکن کس انداز میں۔ یہ مثال میں کئی مرتبہ دے چکا ہوں لیکن پھر دیتا ہوں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایک شربت بنایا جائے۔ اس فضا کے اندر کیسے بنایا جائے۔ اس دوست سے کہا جائے کہ آپ روح افزا پھینکیں، چینی پھینکیں اور سب دعا کریں کہ یااللہ روح افزا کا شربت بن جائے۔ شربت بن سکتا ہے بغیر ایک برتن کے؟ میٹھا شربت بن سکتا ہے؟ ایک برتن ضروری ہے اور برتن بھی ایسا ہونا چاہیئے کہ جس میں جگہ جگہ سوراخ نہ ہوں، ورنہ کیا ہوگا کہ آپ کو موقع ہی نہیں ملے گا کہ روح افزا، پانی اور چینی ملا کر واقعی اس کو شربت بنا کر دکھا سکیں۔

عزیز دوستو! ہم سب لوگ کہتے ہیں جو ہم دین محمد و آل محمد کی بات کرتے ہیں۔ اسلامی معاشرہ کی تو بات کرتے ہیں لیکن اس برتن کے بارے میں ہمیں کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ معاشرہ ہم نے کہاں قائم کرنا ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمیں پاکستان سے بالکل کوئی دلچسپی نہیں ہے، سچی بات کہہ رہا ہوں کہ اگر پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تو اسلامی معاشرہ سے ہمیں دلچسپی نہیں ہے۔ عزیز دوستو! سوشلزم جہاں حرام ہے، حب الوطنی واجب ہے، میں سمجھتا ہوں۔ اس ملک کے ساتھ اگر ہمیں دلچسپی نہیں ہوگی۔ وہ معاشرہ جو ہم اس وقت پاکستان میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ وہ آدھا رہ گیا ہے (مشرقی پاکستان کی جدائی اور بنگلہ دیش کی طرف اشارہ ہے)۔ آپ کس پاکستان میں اسلامی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں، ذرا سوچ کر بتائیے گا۔ بلوچستان میں کرنا چاہتے ہیں یا پنجاب میں کرنا چاہتے ہیں۔ جو بچا ہوا علاقہ ہے، اس سے محبت کیجئے۔ اس میں جگہ جگہ سوراخ ہیں، ان کو بند کیجئے۔ کہیں ہندوستان اپنی ہندو ثقافت کے اثرات چھوڑ رہا ہے، کہیں روس اپنے نظریات پھیلا رہا ہے۔ کہیں امریکہ اپنے اثرات کی وجہ سے حاوی ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے ان معاملات میں دلچسپی نہ لی۔ یاد رکھیے کہ خیالی طور پر اسلامی معاشرے کے نظریات پختہ ہو بھی چکے ہوں گے، لیکن اگر ملک ہی نہ رہا تو اس وقت آپ کو نہ زمین مہیا ہوگی، نہ کوئی چیز مہیا ہوگی، جہاں اسلامی معاشرے قائم کرسکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 920031
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش