0
Monday 8 Mar 2021 09:57

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا ویژن(3)

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا ویژن(3)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

شہید ڈاکٹر کا سیاسی ویژن کسی ایک فرقے یا مسلک کی بالا دستی پر استوار نہیں تھا، آپ محروم اور مستضعف طبقے کی بات کرتے تھے۔ آپ اپنے دوستوں کو بار بار تاکید کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اے عزیز دوستو! ہم اپنی اس ذمہ داری کا احساس کریں۔ اس دوست نے اپنے طور پر بالکل بجا کہا کہ جب تک پاکستان کے شیعہ حضرات اپنی اس ذمہ داری کو قبول نہیں کریں گے کہ وہ محروم و مظلوم طبقے کی قیادت نہ کریں، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی بقا ممکن نہیں۔" شہید ڈاکٹر کی پاکستان کے بدلتے حالات پر گہری نظر تھی، وہ حکومتوں میں آنے والی تبدیلیوں کی محرکات سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے۔ اس تناظر میں اپنے دوستوں کا ویژن واضح کرنے کے لئے ایک گفتگو میں کہتے ہیں: "میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ آئندہ کے لئے ہم اس ڈر سے بچنے کے لئے کہ کبھی فوجی اور کبھی افسر شاہی کی حکومت آجاتی ہے ہم کیا کریں، اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل یہ ہے کہ ابھی تک پاکستان کے معاملات میں اعداد و شمار کے مطابق اگر عوام کی دلچسپی ہے تو فقط 5 سے 10 فیصد تک ہے۔ یہ ماہرین کے اعداد و شمار ہیں کہ 5 سے دس فیصد افراد ایسے ہیں، جن کو پاکستان کے ساتھ دلچسپی ہے، اس کے معاملات کے ساتھ دلچسپی ہے۔ باقی افراد کو اس پاکستان سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے۔"

"عزیز دوستو! یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ عوام میں، مظلوم لوگوں میں، محروم لوگوں میں اور عام و خاص پاکستانی حضرات میں اس احساس اور شعور کو بیدار کریں کہ پاکستان کی ذمہ داریوں کو نبھانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس شعور کو بیدار کریں۔ اگر اس مسئلہ کی قیادت ہم نے نہ کی، خود بھی نقصان اٹھائیں گے اور ملک کو بھی نقصان ہوگا۔ یاد رکھیے: "اس ملک کے اندر جو سب سے بڑا فرقہ ہے، وہ نہ بریلوی ہے نہ شیعہ ہے اور نہ اہل حدیث ہے بلکہ اکثریتی طبقہ محروم و مظلوم لوگوں کا ہے۔" محروم طبقے کی حمایت آپ کی اولین ترجیح رہی ہے۔ آپ نے ایک موقع پر بڑے گہرے دکھ کے ساتھ تاکید کی تھی اور اسے زندہ رہنے کا بنیادی ہدف تک قرار دیا تھا۔ آپ نے کہا تھا: "اگر واقعی آپ کام آنا چاہتے ہیں، میں یہ جملہ دہراتا ہوں کہ اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ حقیقی معنوں میں زندہ رہیں، اگر خود میں یہ آرزو ہے کہ زندگی میں کامیاب و کامران ہوں تو پہلے مرحلے میں یہ خواہش رہے گی کہ میں زندہ رہوں۔ عزیز دوستو! اس خواہش کی بجائے یہ خواہش ہونی چاہیئے کہ ملک کی بقا ہو، چاہے ہم مر مٹ جائیں۔ میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ مظلوم و محروم لوگوں کے لئے کام کیجئے، ان میں شعور کو بیدار کیجئے اور ان کو اٹھایئے کہ ملک کی بقاء آپ لوگوں کی وجہ سے ہے۔"

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھتے تھے، وہ اسلام کو صرف انفرادی مشکلات کا حل نہیں کہتے تھے، ان کا یہ ویژن تھا کہ اسلام زندگی کے ہر شعبہ حیات میں رہنماء ہو، اسی لئے ان کا کہنا تھا: "بس عزیز دوستو! آخر میں یہ عرض کروں گا کہ اگر ہم نے یہ نظریہ اپنایا کہ جناب والا! یہ ہمارے عالم دین ہیں، یہ ہمارے رہبر ہیں، ہمارے یہ احباب ہیں، ہم ان کے پاس حاضر ہوئے ہیں کہ قبلہ! ہم تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، آپ ہماری راہنمائی کریں۔ اگر جواب یہ ملے کہ عزیزم تعلیم کے سلسلہ میں فلاں فلاں قوم بہتر ہے۔ آپ ان کی طرف رجوع کریں۔ آپ اسماعیلیوں کی طرف رجوع کریں، اچھا قبلہ ہم اقتصادی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں، آپ کی رائے کیا ہے، اس مسئلہ میں کن اداروں کی طرف رجوع کریں۔ آپ فلاں انڈسٹری کی طرف رجوع کریں، اچھا قبلہ! ہم چاہتے ہیں کہ  کچھ نہ کچھ سیاست سیکھ لیں، سیاسی تربیت کے لئے کہاں جائیں؟ آپ فلاں پارٹی میں جائیں، آپ فلاں سے سیکھیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر مذہب شیعہ کس مرض کی دوا ہے؟ اقتصادیات کے لئے فلاں کے پاس جائیں، تعلیم کے لئے مثلاً اسماعیلیوں کے پاس جائیں، سماجیات کے لئے قادیانیوں کے پاس جائیں، سیاست کے لئے فلاں کے پاس جائیں تو شیعہ مذہب آخر کس مرض کی دوا ہے؟ یہ نکتہ قابل غور ہے، اس کا حل ہماری ذمہ داری ہے۔"

سیاسی اجتماعی مسائل میں شرکت پر تاکید کرتے ہوئے اپنا سیاسی نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "بخدا جو تصور امام خمینی نے دیا ہے کہ عبادت کا ایک جز سیاست ہے، یہ ایک نعمت ہے۔ میں عرض کروں گا کہ آپ حضرات اس ذمہ داری کو سنبھالیں۔ جس حد تک ممکن ہوسکتا ہے، اس شعور کو بیدار کریں۔ تنظیم کے اندر آپ سے التماس کروں گا۔ اس شعور کو پیدا کیجیئے کہ ہماری تنظیم کے اندر کم از کم ایک سیاسی ونگ ہونا چاہیئے، جو حالات کا جائزہ لے اور ان کو کاغذ پر لکھ کر محفوظ رکھے، اگر حالات کے مطابق بیان نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کا تجزبہ کرے اور افراد کی تربیت کرے، جو ضروری ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں ان چیزوں کو فراموش کرچکی ہیں، اس کا انجام برا ہوگا۔"

عالمی کشمیر و فلسطین کانفرنس میں اتحاد بین المسلمین کے ویژن پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے کہا تھا: "اے بزرگواران! اے اسلام کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد آیئے! سلیم قلب و جان کے ساتھ، دل کی گہرائیوں کے ساتھ ایک نکتہ کو تسلیم کریں کہ اسلام کے اندر جتنے وحدت کے مواقع اس وقت ہیں، پہلے نہ تھے۔ اس کے لئے جو پیش قدمی ہماری طرف سے ممکن ہوسکی، ہم نے گذشتہ 20 سالوں میں اس سرزمین پاکستان پر تقریباً پاکستان کے ہر تعلیمی ادارے میں کی اور ہم نے اپنے عمل سے ثابت کیا۔ میں متوجہ کر رہا ہوں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی ایک کارکردگی کی طرف، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے، ہمیں توفیق حاصل ہوئی کہ ہم نے کراچی سے لیکر خیبر تک جو آئی ایس او کے نام پر جس کے نام میں ایک تعصب ضرور محسوس ہوتا ہوگا لیکن ہمارا عمل شاہد ہے کہ ہم نے ہر موقع پر اسلام کے خاطر، اتحاد بین المسلمین کی خاطر آگے قدم بڑھائے ہیں، یہ ہماری ایک خواہش ہے۔"

شہید ڈاکٹر کی عملی جدوجہد اور ان کا مطمع نظر اسلامی تعلیمات تھیں، آپ نے اپنے ویژن کو قرآن و حدیث اور آئمہ اطہار کی سیرت و تعلیمات کے مطابق استوار کیا تھا، آپ اپنی جدوجہد کے ایک رخ کی صرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یاد رکھیے،  خود حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے قرآن و سنت کی روشنی میں تاکید کی تھی کہ صف اول کا جہاد ہر جہاد سے افضل ہے۔ یہ نہ سوچیے کہ ہماری طرف سے یہ کانفرنسیں، یہ مطالبات، یہ اشتہارات مسائل کا حل ہیں، مسائل کی طرف پیش رفت ہوسکتی ہے بلکہ تحسین کے لائق اور مستحق وہ لوگ ہیں، جو صف اول میں جہاد کر رہے ہیں۔" آپ جہاد اصغر اور اکبر کے بارے میں اپنے ویژن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: "عزیز دوستو! جہاد اصغر ایک آزمائش ہے کہ آیا شخص جسمانی زحمتیں برداشت کرسکتا ہے، کیا وہ جہاد اکبر کرسکتا ہے، مشکل ہے ایک آدمی جو فزیکل کام نہیں کرسکتا، ایک جسمانی کام نہیں کرسکتا، وہ اپنی روح کی تربیت کیا کرے گا۔

بہت مشکل مرحلہ ہے، عزیز دوستو! جسمانی طور پر اپنے آپ کو آمادہ کیجیے اس کام کے لئے، کیونکہ ہم اس کام کو اگر انجام نہیں د ے سکتے تو اپنے آپ کو جہاد اکبر کے لئے آمادہ نہیں کرسکتے ہیں۔" شہید ڈاکٹر نقوی کا ویژن راہ خدا میں ہر طرح کے خوف و خطر سے بے نیاز ہو کر آگے بڑھنا ہے۔ آپ اسی اہم موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "جتنی بات سنی ہے تو یہ مظاہرے، یہ لٹریچر کی تقسیم، دیوار نویسی، یہ سب کام الحمدللہ بڑے احسن طریقے سے ہوئے ہیں اور پورے کام کے اندر جو بنیادی بات رہی ہے، وہ صرف یہی ہے کہ اپنے اوپر کبھی بھی دشمن کا خوف طاری نہ کریں بلکہ ہمارا خوف اور ڈر دشمن پر حاوی ہونا چاہیئے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 920032
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش