0
Wednesday 10 Mar 2021 01:34

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا ویژن(4)

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا ویژن(4)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

شہید ڈاکٹر اپنے آپ کو عالمی حزب اللہ کا فرد سمجھتے تھے اور اپنے اس ویژن اور موقف کو دوستوں تک بھی پہنچاتے رہتے تھے۔ ایک گفتگو میں سعودی عرب میں برات از مشرکین میں اپنی شرکت کے فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: "عزیز دوستو! اگر ہم اس حوصلے کے ساتھ بڑھتے رہیں تو یہ جو چھوٹے موٹے نظام ہیں، ان کے لئے  ہم کام آسکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر محاذ پر ایرانی بچے ذبح ہوں۔ کہیں نہ کہیں ہمیں بھی اپنی عقیدت کا اظہار کرنا چاہیئے۔ یہ سرزمین پاکستان بھی اسی سلسلے میں ہے کہ جہاں پر آپ لوگ بلکہ ہم سب مل کر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں، ہمیں ہرگز اپنے مشن کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔ اس مشن کو جاری و ساری رکھنا چاہیئے۔ اپنی ترجیحات مرتب کرنی چاہئیں لیکن ترجیحات ایران کے انقلاب کے لئے  امام کی ترجیحات کے لئے۔ یہ کام معمولی نہیں ہے، سوچ سمجھ کر اپنی ترجیحات مرتب کیا کریں۔ ایسا نہیں کہ ہماری اپنی ترجیحات مہم ہیں۔ ترجیحات مہم ہیں لیکن انھیں امام کیساتھ مربوط کرنے کی کوشش کیجیے کہ ان شاء اللہ یہ قافلہ جاری و ساری رہے گا۔"

انسان قربانی کے لئے کیسے تیار ہو جاتا ہے اور قربانی کا ہدف و مقصد اور ویژن کیا ہونا چاہیئے، سعودی عقوبت خانے میں اپنی قید کے تناظر میں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ جو زندان ہوتے ہیں، جیل ہوتی ہیں، یہ بہت معمولی چیز ہے، اگر آدمی اپنا ہدف پورا کر رہا ہو، لیکن اگر آدمی بے ہدف ہو تو یہ بہت بری جگہیں ہیں۔ اگر آدمی بغیر کچھ کئے راستے میں ہی پکڑا جائے اور اس کو کئی دن مار بھی پڑتی رہے اور اسے الٹا بھی لٹکا دیں تو اس کو بہت دکھ پہنچتا ہے۔ لیکن وہ آدمی جس نے ان کو بہت تنگ بھی کیا ہو، جو ایک ہدف لے کر گیا ہو، وہ  پورا بھی کرچکا ہو تو اس کے ساتھ جیسا بھی سلوک کریں، اسے ملال نہیں ہوگا۔ ملال ہمیں بھی کہیں نہیں ہوا۔ میرے خیال میں ملال ہمیں ہونا بھی نہیں چاہیئے، کیونکہ ہم ایک کام کو پورا کرچکے تھے۔"

ڈکٹر شہید اپنے نظریات اور اہداف کے حوالے سے بہت واضح تھے، اسی لئے ان کی زندگی خوف و ہراس اور تذبذب سے عاری تھی، آپ اپنے اس شفاف ویژن کو اپنے دوستوں میں بھی دیکھنے کے خواہشمند تھے، اس لئے کہتے تھے: "ضرورت اس امر کی ہے کہ آدمی اپنے ہدف کی خاطر جو کہ واضح ہونا چاہیئے، ضرور قدم اٹھائے۔ کبھی خائف و ہراساں نہ ہو تو کامیابی ضرور قدم چومے گی، لیکن اگر خائف و ہراساں ہوگئے تو آدمی آگے نہیں بڑھ سکتا۔" ایک اور موقع پر کہتے ہیں: "دشمن کا ہدف صرف یہ ہے کہ وہ آپ کو ناامید کر دے۔ کسی طریقے سے ہم اگر نا امید ہوگئے، اگر ہم خوفزدہ ہوگئے تو ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔" ڈاکٹر محمد علی نقوی کا آئمہ طاہرین علیہم السلام کی سیرت اور کربلا جیسے واقعات کے بارے میں ویژن کو سمجھنے کے لئے ان کے یہ جملے خصوصی طور پر قابل غور ہیں۔ آپ آل سعود کے زندانوں میں گزرے ایام اور اس کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"شیعہ ہونے کی حیثیت سے اور خصوصاً ایک عزادار ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس پر یقین کرنا چاہیئے کہ ہمارے آئمہ سخت ترین حالات سے گزرے ہیں۔ یہ واقعات جو آئمہ کے ساتھ پیش آئے ہیں، یہ داستانیں نہیں ہیں، یہ حقیقت ہے اور اگر ان حقیقتوں کو دیکھا جائے تو ہم تو ان راستوں پر چل بھی نہیں سکے، بہرحال وہاں (آل سعود) کے زندانوں سے یہی پیغام ہے۔ بالخصوص سعودی عرب میں، کویت میں، بحرین میں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں پر، ان جگہوں پر، ان سرزمینوں میں زندانوں کے اندر بہت سارے حزب اللہیٰ نوجوان زندگی اور موت کی کشمکش میں تڑپ رہے ہیں، جن کی اپنی کوئی ذاتی غرض نہیں ہے۔ وہاں پر ان کو پریشانی یہ ہوتی ہے کہ باہر کیا ہو رہا ہوگا۔ اس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ اپنی تحریک مضبوط کیجئے، قوی کیجئے۔ خدا کرے کہ ہم اتنے مضبوط ہوسکیں کہ ہم ان نوجوانوں کو بھی آزاد کرا سکیں اور یہ پیغام واقعی و حقیقی فضاؤں میں، ایک عالم میں، پوری دنیا میں ایک پیغام بن کر آگے بڑھ سکے۔"

زندگی کے بارے اپنے ویژن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں: "دیکھنے والا کیا نظر رکھتا ہے کہ وہ کس نیت سے آیا ہے۔ جو انسان جس چیز کی تلاش میں ہوتا ہے، وہ چیز پا لیتا ہے اور جو انسان کسی چیز کی تلاش و جستجو میں نہ ہو تو وہ چیز سامنے ہونے کے باوجود نہیں پا سکتا۔ پس یہ ثابت ہوا کہ اس انسان کے اندر ایک خواہش ہے، اس انسان کے اندر ایک demand ہے، ضرورت ہے۔ ضرورت جب تک پیدا نہ ہو، چیز جتنی بھی واضح موجود ہو، وہ اتنا اثر نہیں کرسکتی۔ اس چیز کا موجود ہونا شرط ہے۔ یعنی ایک خواہش کے لئے چیز کو موجود ہونا چاہیئے لیکن اس کو دیکھنا، اس کو شناخت کرنا، اس کو پہچاننا، اس چیز کا فائدہ اٹھانا اس انسان پر منحصر ہے۔ اس سے زیادہ کوئی چیز خارج میں اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ جیسے یہ ٹیپ ریکارڈر ہے، موجود ہے، یہ موجودگی سے زیادہ اور کچھ نہیں کرسکتا، باقی اس انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کتنا فائدہ اٹھاتا ہے۔"

اسلامی انقلاب کا ہم سے کیا تقاضا ہے، اس پر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے شہید کا کہنا تھا "بہرحال انقلاب کے بارے کم از کم دو چیزوں کا دھیان رہے: "سوچ، فکر، خیال یا جو لفظ بھی ہم اس کے لئے استعمال کرنا چاہیں، جب تک وہ کسی شخص کے اندر موجود نہ ہو، وہ چیز عمل میں نہیں آسکتی۔ انقلاب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ صرف سوچنے سے وہ چیزیں معرض وجود میں نہیں آسکتیں، اس کے لئے زحمت کرنا، اس کے لئے خرچ کرنا پڑتا ہے، اس کو آپ کہیں بھی آزما کر دیکھ لیجیے، ان دو چیزوں کے بغیر کوئی بھی چیز معرض وجود میں نہیں آسکتی۔ ثانیاً کیا ہوا اس کے لئے زحمت اور خرچ نہیں کیا گیا، اگر کسی شخص کے پاس اس چیز کے لئے خرچ موجود نہیں ہے تو کوئی امکان نہیں کہ یہ انسان کوئی کام سرانجام دے سکتا ہے۔"

شہید ڈاکٹر نقوی اسلامی انقلاب کو ایک دعوت حق سمجھتے تھے اور اسی تناظر میں کہتے تھے: "میرے عزیز دوستو! ہم سب کو اس انقلاب کی طرف سے مسلسل محنت، جدوجہد اور کوشش کی دعوت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ جاننا چاہے کہ اس نے کوئی کام انجام دیا ہے یا اس کے علاقے میں کوئی کام ہوا ہے یا نہیں ہوا تو دیکھنا پڑے گا کہ محنت کتنی کی، اس کے بارے میں عملاً کتنا کام کیا ہے۔؟ بدقسمتی سے میں یہ سمجھتا ہوں، جو چیز ہمارے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ ہے اور جس کے لئے خدانخواستہ سب کو کفارہ دینا پڑے گا، وہ یہ ہے کہ ہم نے فکر کا اجراء نہیں کیا ہے۔" آئی ایس او سے ڈاکٹر شہید کی توقعات کسی سے پوشیدہ نہیں، آپ اس الہیٰ تنظیم کے بارے اپنے ویژن کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: "میرے عزیز دوستو! آئی ایس او کے حوالے سے ایک شیعہ ہونے کے ناطے سے، ایک مسلمان ہونے کے ناطے سے عملی طور پر آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ یہ ایک بڑا مشن ہے، جو ہمارے سپرد کر دیا گیا ہے۔"

ڈاکٹر صاحب گفتار نہیں کردار کے غازی تھے۔ آپ کا ویژن اور طرز عمل ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر صرف پلاننگ کرنا اور خیالی پلاؤ پکانا نہیں تھا، آپ کا اس حوالے سے بڑا واضح اور شفاف موقف تھا، لیکن آپ قوت ادراک اور نظریات کی پختگی پر تاکید کرتے تھے: "جس چیز کے بارے میں انسان سوچ نہیں سکتا، اس کو کبھی حاصل نہیں کرسکتا خدانخواستہ ایک انسان بینائی سے محروم ہو جاتا ہے، یقین کیجیے جب تک اس کو ہاتھ کی پہچان سے، لمس سے یہ تجربہ نہ ہو کہ اس کو ٹیپ ریکارڈر یا ریڈیو کہتے ہیں، آپ اس کو لاکھ کوئی چیز پکڑا دیں، جب تک اس کی شناخت نہ رکھتا ہو، وہ اس کو شناخت نہیں کرسکے گا۔ بس یہی سمجھیں کہ ہم ظاہری لوگوں کو جن کے پاس دیکھنے کی آنکھیں موجود ہیں، لیکن اگر حقیقی اسلام کی فکر نہیں ہے، لاکھ اسلام نظر آئے، لاکھ شہداء کی قبروں کو چھوئے، وہ درک نہیں کرسکتا کہ اسے اسلام کہتے ہیں۔"

ایران کے اسلامی انقلاب اور امام خمینی کے ویژن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دورہ ایران پر آئے امامیہ نوجوانوں سے ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا: "میرے عزیز دوستو، برادران محترم، یاد رکھیں آپ امام کی امید ہیں، امام کی ایک امید وہ تھے، جنہوں نے انقلاب برپا کیا تھا، ایک امام کی وہ امید ہے، جس نے انقلاب کو حفظ کرنا ہے، بچانا ہے۔ شاید پاکستان میں بھی یہ جملہ ادا کیا تھا اور پھر بڑی ذمہ داری سے اس جملے کو ادا کر رہا ہوں، یاد رکھئیے گا، شخصیت جتنی دور اندیش ہوگی، اتنا ہی وہ اپنے کام کو پختگی سے انجام دیتی ہے۔ اس کی نگاہ جتنی دوررس ہوگی، اتنا ہی وہ کام پختہ کرے گی، ایک شخص ہے، اس کی عام سی فکر ہے، ایک عام سا انداز ہے، مثال کے طور پر عمارتوں کے بارے میں، ایک گھر بنانے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ پانچ سال گزار دے۔ پانچ سال کی تو بات نہیں ہوتی عمارت کے بارے میں، کوئی عمارت ایسی بناؤ جو سو سال حتی ہزار سال گزارے۔

یقین کیجیے اسلام کے جتنے رہبران و راہنماء گزرے ہیں، انھوں نے نہ فقط تبلیغ کی ہے بلکہ ایسے ذرائع بھی مہیا کیے ہیں کہ تبلیغ کی مخالفت نہ ہوسکے اور اس کے آگے چلنے کے لئے کام بھی ہوسکے۔ آپ کی خدمت میں یہ بات کرتا ہوں کہ کربلا کے واقعہ میں خود امام حسینؑ، میں یقین سے کہتا ہوں، اتنی عظیم قربانی ہرگز نہ دیتے، جب تک انھیں یقین نہ ہوتا کہ اس واقعہ کی کسی نہ کسی طریقے سے آئندہ نسلوں تک خبر پہنچ جائے گی۔ یاد رکھیں، اس ایک واقعے میں جس میں انسان ایک کام کو انجام دینا چاہتا ہو اور اسے خدشہ ہو کہ اس کی جان چلی جائے گی، مگر اس پیغام کی تشہیر نہیں ہوگی، وہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے۔ یعنی ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان انتظام کرے کہ اس کی پیغام رسانی بھی ہو۔"

اجتماعی امور میں للہیت، خوشنودی خدا کا حصول اور لقاء اللہ تک رسائی ڈاکٹر صاحب کا جانا پہچانا ویژن تھا، اسی لئے آپ کہتے تھے: "میرے عزیز دوست کوشش کیجیے کہ کسی مجبوری سے ہٹ کر صرف ایک احساس کیساتھ، فقط خلوص دل کیساتھ اسلام کے لئے کام کیجئے۔ میں کیوں اس بات پر اصرار کر رہا ہوں کہ ہم نے دیکھا کہ ماضی کے اندر جہاں اس تنظیم (آئی ایس او) میں سے سینکڑوں نہیں ہزاروں نوجوان گزرے ہیں۔ ان میں سے وہ افراد جنہوں نے واقعاً ایک ٹھہراؤ کے ساتھ ایک ذمہ داری کے ساتھ اپنے آپ کو معاشرے میں اسلامی کاموں سے مربوط کیا، ان کی تعداد کم ہے، یہ نہیں کہتا کہ نہیں ہے، تعداد بہت کم ہے۔ کیا وجہ ہے اسکی؟ خلوص اور للہیت کا فقدان جو عملی زندگی میں کم ہو جاتا ہے۔"

آپ مزید کہتے ہیں: "خدارا، خدارا اگر آپ کو اسلام کے سلسلے میں، معاشرے کی تبدیلی کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تاہم فقط خدا کے لئے، رسول خدا کے واسطے، خود اپنی حفاظت کے لئے، اپنی بقاء کے لئے، اپنی اصلاح کے لئے الہیٰ اور دینی کاموں نیز اداروں سے وابستہ رہیں، ورنہ بدبختی ہی بدبختی ہے۔ ایسا گندہ ماحول معاشرے میں موجود ہے کہ آپ کو تباہ کر دے گا اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ معاشرہ انسان کو تباہ کر رہا ہے۔" ایک بار کسی علاقے میں کارکنان نے آپ کا عوامی انداز میں استقبال کیا تو آپ نے اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: "میں ایک مرتبہ پھر شکرگزار ہوں، جس جذبہ کا، جس لگن کا آپ نے اظہار کیا، لیکن میں ایک بار پھر استقبال کرنے والے کارکنان سے کہوں گا کہ آپ کی نیک نیتی، نیک جذبہ اپنی جگہ خراج تحسین کے قابل ہے، لیکن یہ چیزیں ہمارے شایان شان نہیں۔"

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی میسر تقاریر میں سے منتخب چند اقتباسات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملت مظلوم پاکستان کے لئے کس طرح کے ویژن کے قائل تھے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی پاکستان کے محروم طبقے بالخصوص مظلوم ملت تشیع کے لئے روشن افق اور ایک ترقی پسند ویژن کے قائل تھے۔ وہ مظلوموں کو ترقی و پیشرفت کی بلندیوں پر دیکھنے کے قائل تھے۔ آپ ملت مظلوم کے لئے ایک عظیم سیاسی، ثقافتی، تعلیمی، سماجی اور اقتصادی ویژن کے حصول پر یقین رکھتے تھے۔ آپ ملت تشیع کو پاکستان کے سیاسی، ثقافتی، تعلیمی، سماجی اور اقتصادی آفاق پر بلندی کی انتہاؤں پر دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ آپ کو اس بات پر پختہ یقین تھا کہ محروم طبقات میں باصلاحیت افراد کی پوشیدہ صلاحیتوں کو دریافت اور انھیں نکھار کر ملکی ترقی اور محروم طبقے کی پیشرفت کے ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 920033
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش