0
Thursday 11 Mar 2021 11:40

پاکستان اور عبوری افغان امن حکومت

پاکستان اور عبوری افغان امن حکومت
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فساد اور بدامنی کے ذمہ دار عالمی استعمار امریکہ نے کئی دہائیوں سے سعودی عرب جیسے اپنے اتحادیوں کے تعاون سے افغانستان اور عراق پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ ہر آنے والی امریکی انتظامیہ خطے کے لوگوں کو جھانسہ دیکر امن کے نام نہاد منصوبے پیش کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے مقامی آبادی کی قسمت کے فیصلے بھی اپنے ہاتھوں میں رکھے جاتے ہیں۔ اس وقت امریکہ دنیا کی واحد طاقت نہیں، جس کا کا مفاد دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہو، بلکہ چین اور دیگر ممالک بھی اپنے پاوں پھیلا چکے ہیں۔ عراق ہو یا افغانستان ہر زیرتسلط ملک میں یہ کشمکش عروج پر ہے۔ افغانستان میں دیکھیں تو امریکہ افغانستان کے قیمتی ذخائر اکیلے ہی ہڑپ کرنیکی کوشش میں ہے، لیکن چین علاقائی طاقتوں کیساتھ مل کر ایسا نہیں ہونے دیگا۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ اور یورپ تک ٹرین کے ذریعے رسائی اس کی تازہ مثال ہے۔

افغانستان اور عراق میں قبضے سے علاقے کی طاقتوں پر امریکہ نے نظر بھی رکھی ہوئی ہے۔ لیکن امریکہ کے زیرتسلط مناطق میں امن و سلامتی اور تہذیبی گراوٹ بنیادی اور سنگین مسائل ہیں۔ افغانستان بالخصوص پاکستان کے لیے ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے بھارت جیسے دشمن کے ہاتھوں استعمال بھی ہو رہا ہے۔ افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف دہشت گردی کیلیے استعمال ہو رہی ہے، جس سے تجارت، معیشت سمیت ہر شعبے کا مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔ افغانستان میں اپنی پالیسی اور حکمت عملی کو کامیاب بنانے کیلئے امریکہ کی نئی انتظامیہ بھی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف اور بھارت کے ذریعے دباو میں رکھنا چاہتی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات کے دنوں میں پاکستان میں افغانستان کے متعلق امریکی پالیسی میں تبدیلی بھی زیربحث رہی، لیکن ایسی کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

جو بائیڈن انتظامیہ نے اوبامہ کی پالیسی کو ہی جاری رکھا ہوا ہے، جو ایک لحاظ سے پاکستان کے لیے ٹرمپ دور کی پالیسی سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ افغان امن معاہدہ جوں کا توں کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ افغانستان سے فوجی انخلا کو موخر کیا جا رہا ہے، جنگ بندی میں تاخیر ہو رہی ہے، اس کے باوجود یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ تعطل عارضی ہے اور جو بائیڈن انتظامیہ جلد از جلد افغانستان سے واپسی کا ارادہ رکھتی ہے۔ امریکی حکام نے دنیا کو تاثر دے رکھا ہے کہ بین الافغان ڈائیلاگ میں پیش رفت نہ ہونے کے سبب افغان امن عمل رکا ہوا ہے، حالانکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور اپنی ہی کٹھ پتلی حکومت کے صدر اشرف غنی کیساتھ بات چیت کے بعد اس کا کوئی جواز نہیں کہ عالمی سپر پاور افغانستان کے مستقبل کے غیر یقنی ہونے کی ذمہ داری مقامی لوگوں کے سر تھونپ دے۔

کئی بار امریکی حکومتوں نے افغانستان سے انخلا کی بات کی اور اس کا اعادہ کرتے رہے۔ لیکن جلد ہوتا نظر نہیں آتا، کیونکہ خطے میں چین اور ایران کا بڑھتا اثر و رسوخ امریکیوں کے لئے برداشت کرنا مشکل ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے دوران بھی مقامی مزاحمت امریکہ کا اصل ہدف نہیں تھی، لیکن علاقائی طاقتیں مزاحمت کاروں کی درپردہ پشت پناہی کرتی رہی ہیں، کیونکہ امریکہ اب بھی افغانستان میں موجود ہے، اس لیے یہ سلسلہ رک نہیں سکتا، اس لیے جب امریکی کہتے بھی ہیں کہ وہ اپنی فوجیں واپس بلا رہے ہیں تو اپنی ہی دی ہوئی تاریخ پر ایسا نہیں کرتے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ امریکی جیسے ہی افغانستان سے جائیں گے، خطے کی طاقتیں افغانستان کو ایسی مثال بنائیں گی کہ امریکی افواج کا دوسرے ممالک میں ٹھرنا محال ہو جائیگا۔

میڈیا میں جاری شور شرابے میں یہ حقیقت چھپ نہیں سکتی کہ کھربوں ڈالر کے اخراجات اور کئی فوجیوں کی جانوں کے ضائع ہونے کے باوجود امریکی مفادات موجود ہیں۔ حال ہی میں جو امریکہ کی نئی انتظامیہ نے افغانستسان میں عبوری امن حکومت کا مںصوبہ پیش کیا ہے، یہ بھی عبوری اور عارضی چال ہے۔ کیونکہ موجودہ حکومت یا اس سے پہلی افغان حکومتیں کاروبار مملکت چلانے میں ناکام رہی ہین، افغان طالبان بھی 75 فیصد افغانستان پر تسلط کے دعووں کے باوجود دنیا میں اپنی حکومت یا مستقبل کی حکومت بارے جواز حاصل نہیں کرسکے۔ حالات مسلسل بے یقینی کا شکار ہیں۔ امریکہ نے ترکی کو افغان ڈائیلاگ کیلئے میزبانی کے لیے کہا ہے اور مئی میں انخلا کا امکان ظاہر کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ اقوامِ متحدہ روس، چین، پاکستان، ایران، بھارت اور امریکا کے وزرائے خارجہ اور سفراء کا اجلاس طلب کرے۔

جس منصوبے پر عمل درآمد کیلئے امریکہ نے ترکی کو کہا ہے اس کے مطابق ایک قومی حکومت کا قیام، جس کے متوازی کوئی دوسری حکومت نہیں ہوگی، اسلامی اقدار کے تحفظ کا وعدہ، حتمی اختیارات کی حامل آزاد عدلیہ اور اسلامی فقہ کی مشاورتی کونسل بھی شامل ہے۔ مجوزہ منصوبے میں خواتین اور مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کا بھی کہا گیا ہے۔ موجودہ صدر اشرف غنی پہلے ہی اس کی مخالفت کرچکے ہیں۔ امریکی فوج کے مکمل انخلا کی ڈیڈ لائن یکم مئی ہے اور اس تاریخ تک امن منصوبے کا نفاذ بائیڈن انتظامیہ کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ علاقائی امور کے ماہر تجزیہ کاروں کے مطابق مکمل فوجی انخلا کا دار و مدار بین الافغان مذاکرات اور مستقبل کے سیاسی نظام پر ہے۔ اسی طرح افغان حکومت اور طالبان کے درمیان گذشتہ سال ستمبر میں دوحہ میں مذاکرات کا آغاز ہوا تھا لیکن گذشتہ 6 ماہ میں یہ دونوں فریق ان مذاکرات کے فریم ورک پر بھی متفق نہیں ہوسکے ہیں۔

امریکہ، افغان طالبان، بھارت، پاکستان اور اشرف غنی انتظامیہ اپنے اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے معاملات آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ اسی دوران طالبان کی جانب سے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں اضافے کی کوشش بھی کی گئی ہے، جس سے ملک میں جاری کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ملک میں سول سوسائٹی کے افراد، صحافیوں اور دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد کہیں ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار نہ ہو جائے۔ افغانستان میں کشمکش کا سب سے زیادہ نتیجہ خیز ٹکراؤ پاکستان اور بھارت کے مابین ہے اور افغانستان اس کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ یہ تینوں ممالک عدم اعتماد اور مسابقت کی مہلک مثلث میں پھنس گئے ہیں، علاقائی طاقتوں کے مابین ایک ایسا معاہدہ جو افغانستان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی ضمانت دیتا ہو، جنگ زدہ ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 920831
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش