0
Thursday 11 Mar 2021 09:11

ایران کے خلاف دوہرے رویئے

ایران کے خلاف دوہرے رویئے
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اسلامی جمہوریہ ایران نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے حالیہ اعلامیہ کو مسترد کرتے ہوئے اسے غیر منصفانہ، تحریف شدہ اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے اسماعیل بقائی پامانہ نے جنیوا میں منگل کے دن انسانی حقوق کے 46 ویں اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے اس اجلاس میں ایران میں انسانی حقوق کے بارے میں پیش کی جانے والی رپورٹ کو غیر منصفانہ، تعصب پر مبنی اور سیاسی اہداف پر مشتمل رپورٹ قرار دیتے ہوئے اس پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ ایران کے مستقل مندوب اسماعیل بقائی پامانہ نے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر جاوید الرحمن کی رپورٹ کو مغرب کے اشاروں پر تیار کی گئی رپورٹ قرار دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ اس رپورٹ کو سیاسی مقاصد کے تحت مرتب کرکے انسانی حقوق کونسل میں پیش کیا گیا ہے۔

جنیوا میں ایران کے مستقل مندوب نے رپورٹ میں موجود بعض نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اعلامیہ میں ایران میں عورتوں کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایران میں عورتیں دوسرے درجے کی شہری ہیں، حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے اور اس غلط بیانی سے اقوام متحدہ کے رپورٹر نے ایران کی پچاس فیصد سے زائد آبادی کی توہین کا ارتکاب کیا ہے۔ اسماعیل بقائی پامانہ کا مزید کہنا تھا کہ کاش اقوام متحدہ کا رپورٹر جاوید رحمن ایران میں خواتین کی علمی صلاحیتوں نیز مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرتا تو وہ ایرانی خواتین کو ہرگز دوسرے درجے کا شہری قرار نہ دیتا۔ ایران کے اس بیانیہ میں کئی نکات قابل ذکر ہیں، جن سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تیاری میں سیاسی اہداف کو مدنظر رکھا گیا ہے اور ایران کو جان بوجھ کر نشانے پر لیا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں امریکہ اور بعض یورپی شہروں میں عام شہریوں کے خلاف جو اقدامات کیے گئے، سیاہ فاموں اور رنگین فاموں کے خلاف جس طرح کا نسل پرستانہ رویہ رکھا گیا، انہیں سڑکوں اور پبلک مقامات پر جس انداز سے تشدد اور مارپیٹ کا نشانہ بنایا گیا، اگر یہ اقدامات کسی اور ملک میں انجام پاتے تو عالمی میڈیا بالخصوص عالمی ادارے طرح طرح کی قراردادیں اور مذمتی بیانات صادر کرچکے ہوتے۔ مغربی ممالک میں تو انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کا کوئی خصوصی رپورٹر بھی متعین نہیں کیا جاتا۔ امریکہ اور یورپی ممالک ایسے عالم میں دوسرے ممالک کے خلاف اعلامیے اور قراردادیں صادر کرتے ہیں کہ خود ان کے اپنے ممالک میں مخالفین کو سختی سے کچلا جاتا ہے اور ان کے دینی، ثقافتی اور مذہبی اقدار کی کھلے عام توہین کی جاتی ہے۔ مسلمانوں اور تارکین وطن بالخصوص مغربی ممالک کی سرحدوں پر آنے والے مہاجرین کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے، وہ انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثالیں ہیں۔

فرانس میں 2019ء میں گھریلو تشدد سے ہلاک ہونے والے 149 افراد میں سے 121 خواتین تھیں۔ جرمن پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر تین دنوں میں ایک عورت گھریلو تشدد کا شکار ہو کر ہلاک ہوتی ہے۔ امریکہ میں سیاہ فام جارج فلوئیڈ کے بہیمانہ قتل نے تو پوری دنیا میں امریکہ کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک ایسے حالات میں ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا بے بنیاد الزام عائد کر رہے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں نے ایرانی عوام کی معیشت نیز نفسیاتی اور جسمانی سلامتی کو سخت خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ اب جبکہ پوری دنیا میں کویڈ 19 کی ویکسین کی تیاری اور سپلائی کی بات کی جا رہی ہے، ایران پر کافی عرصے سے زندگی بچانے والی میڈیسن کی درآمد پر بھی پابندی عائد ہے۔ بہرحال انسانی حقوق کی پابندی کا مسئلہ ماضِی میں بھی اور اب بھی سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار کی مانند رہا ہے۔

جسے ان ممالک نے ہمیشہ اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا ہے۔ امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اسے ایران کے خلاف ایک دبائو کے طور پر استعمال کر رہا ہے، وگرنہ امریکہ کے قریبی اتحادی سعودی عرب میں جس انداز سے انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے، اس پر امریکہ اور یورپی ممالک کی مکمل خاموشی کسی جرم سے کم نہیں۔ ایران کے خلاف مغرب کی طرف سے انسانی حقوق کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ان کے دہرے اور منافقانہ معیارات کی واضح دلیل یے اور ہر باشعور انسان اس سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے الزامات میں کوئی صداقت نہیں، امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بیانات کو ایران کے خلاف استعمال کرکے اس سے اپنی دشمنی کا انتقام لینا چاہتا ہے۔

دوسری طرف امریکہ کے اندر انسانی حقوق کی پامالی کی یہ صورتحال ہے کہ امریکی ریاست آئیو میں فلسطینی نژاد صحافی آندریا الساحوری کے مقدمہ کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ اس کارروائی کے خلاف پورے امریکہ میں وسیع پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے، لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہے۔ آندریا ان صحافیوں میں شامل ہیں، جنہیں جارج فلوئیڈ کی موت کے بعد ہونے والے مطاہروں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ الساحوری کا کہنا ہے کہ وہ ان مظاہروں کے دوران اپنی ڈیوٹی ادا کر رہی تھی۔ انھوں نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ کیا جائے وقوعہ پر صحافیوں کی موجودگی میں اس واقعہ کی رپورٹنگ جرم ہے؟ آندریا الساحوری کو امریکی پولیس نے انتہائی تشدد آمیز انداز میں گذشتہ سال اکتیس مئی کو گرفتار کیا تھا۔ انسانی حقوق اور آزادی اظہار و بیان کا دعویٰ کرنے والی امریکی حکومت نے جارج فلوئیڈ کے لئے ہونے والے مظاہروں میں ایک سو بیس صحافیوں اور رپورٹوں کو گرفتار کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کونسل ایران میں خواتین کے حقوق پر اعتراض کر رہی ہے، لیکن امریکہ میں ایک خاتون صحافی پر ایسے حالات میں مقدمہ چلا رہی ہے کہ اس کا صرف اتنا قصور ہے کہ اس نے جارج فلوئیڈ کے لیے ہونے والے مظاہروں کی کوریج کی تھی۔ انسانی حقوق کا مسئلہ ہو یا آزادی اظہار، جمہوریت ہو یا حقوق نسواں، اگر امریکہ میں ان کو پامال کیا جائے تو کوئی مسئلہ نہیں اگر ایران میں کوئی متعصب رپورٹر الٹے سیدھے اعداد و شمار یا بے بنیاد خبریں جمع کرکے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پہنچ جائے تو اسے بڑے طمطراق سے پیش کیا جاتا ہے اور اس پر مذمتی قراردادیں بھی منظور کر لی جاتی ہیں۔ امریکہ اور مغرب کا یہ دوہرا معیار ہے، جس نے ان ملکوں کی اخلاقی ساکھ کو تباہ و برباد اور ان کے انسانی حقوق نیز جمہوریت کے تحفظ کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔
خبر کا کوڈ : 920842
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش