0
Thursday 11 Mar 2021 20:30

کیا امریکہ کو بھی دہشتگردی کا سامنا ہے؟

کیا امریکہ کو بھی دہشتگردی کا سامنا ہے؟
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
(سابق وفاقی وزیر تعلیم)

قانون قدرت ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی اور برائی کا بدلہ برائی ہی سے ملتا ہے۔ انسان جو اعمال کرتا ہے، اس کا اجر وہ ضرور پاتا ہے۔ جو کسی کیلئے برا سوچتا ہے، اسے بھی برائی کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اور برطانیہ کمزور ہوگئے تو انہوں نے اپنی کالونیوں کے حصے بخرے کرنا شروع کر دیئے۔ اس مقصد کیلئے خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنائی گئیں۔ اپنے من پسند اطاعت گزار عرب خاندانوں کو حکومتیں دیں۔ ان کا مقصد تقسیم تھا کہ مسلمان اگر سلطنت عثمانیہ کی طرح اکٹھے ہوگئے اور ان کی مرکزیت قائم رہی تو مشکلات پیدا کریں گے۔ سلطنت عثمانیہ کو ختم کیا گیا، تاکہ وحدت اُمت کو توڑا جا سکے۔ تفرقہ بازی اتنی پیدا کی جائے کہ ایک مملکت ہونے کے باوجود مسلمان دست و گریبان رہیں، مرکزیت قائم نہ رہ سکے۔

گذشتہ دو تین دہائیوں میں جو کچھ افغانستان میں ہوا، تباہی کا پیغام لایا۔ روس کے افغانستان سے انخلا کیلئے امریکی سرپرستی میں مسلم دنیا میں سے القاعدہ کے نام سے ایک تنظیم سامنے لائی گئی۔ مدارس کے طلباء کو استعمال کیا گیا۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا (سابقہ سرحد) اور افغانستان میں اس نجی جہادی گروہ کو طالبان کا نام دیا گیا۔ جب روس خطے سے نکل گیا تو مستقبل کا ایجنڈا کسی کے پاس نہ تھا۔ طالبان، انہیں مجاہدین کہیں یا دہشتگرد اپنے علاقوں میں آئے تو انہوں نے پاکستان میں کارروائیاں کرنا شروع کر دیں۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد 1979ء میں خطے میں استعماری قوتوں کا ایجنڈا بھی تبدیل ہوگیا۔ عوامی قوت کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ عالم کفر کو ہضم نہ ہوا۔ اسلامی نظام کے اثرات کا دوسرے مسلمان معاشروں میں اثر یقینی تھا۔

دنیا بھر میں ایران کے بعد مکتب اہلبیت کے پیروکاروں کی سب سے زیادہ آبادی پاکستان میں ہے۔ جس نے علماء اسلام کی قیادت و رہبری میں آنیوالے انقلاب کو قبول کیا اور اس کی حمایت بھی کی۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے انقلاب اسلامی سے پہلے ایران میں مظاہرین پر فائرنگ کی مذمت کی اور انقلاب کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔ وہ حج کے موقع پر امام خمینی سے ملاقات بھی کرچکے تھے۔ اسلامی انقلاب کو ایران تک محدود کرنے کیلئے انتہاء پسند فرقہ پرست تنظیم بنائی گئی اور افغانستان میں القاعدہ کو پروموٹ کیا گیا۔ ان انتہاء پسند دہشتگرد تنظیموں کی سرپرستی باہر سے ہو رہی تھی۔ افغانستان میں یورپی اتحاد کیخلاف جنگ لڑی گئی۔ مشرق وسطیٰ میں داعش کو بنایا گیا۔ جس نے اسلام کو بدنام کیا اور امن پسند مذہب کا خونخوار قسم کا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا کہ خود مسلمان بھی داعش برانڈ اسلام سے نفرت کرنے لگے۔

درندگی کی علامت داعش نے اتنے مظالم کئے کہ انسانیت شرما گئی۔ زندہ انسانوں کو جلایا گیا، لائن میں کھڑے کرکے گولیوں کی بوچھاڑ، انسانوں کے گلے کاٹے گئے، بچوں کا قتل اور خواتین کو زبردستی کنیزیں بںا لینا کسی صورت سید المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ تعلیمات نہیں۔ داعش کا سرپرست یورپ اسلام کی بدنامی پر خوش ہوتا رہا۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور وہ ظالموں سے انتقام بھی لیتا ہے۔ حالیہ مثال لے لیں۔ چھوٹا سا وائرس کورونا انسانوں کیلئے کیسے تباہ کن ثابت ہوا کہ اس نے انسان کی بنائی گئی جغرافیائی تقسیم کی پرواہ کئے بغیر امیر و غریب، کالے گورے، سربراہ مملکت اور مزدور کارکن تک کی تفریق کو ختم کر دیا، ہر کسی کو متاثر کیا۔ دنیا کا حلیہ اور کلچر ہی بدل گیا۔ گویا جیسے سسکتی انسانیت پر ظلم و ستم کی سزا دی گئی ہو۔

حیران کن طور پر 6 جنوری 2021ء کو امریکہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ دنیا ورطہ حیرت میں مبتلا ہوئی اور اب تک سکتے میں ہے کہ یہ بھیانک واقعہ کیسے ممکن ہوا۔ وہ یہ کہ ہزاروں لوگ جھنڈے، ڈنڈے اور اسلحہ لے کر کیپیٹل ہل واشنگٹن پر حملہ آور ہوگئے۔ گانگریس کی بلڈنگ پر حملہ کر دیا گیا جبکہ اس وقت وہاں اجلاس ہو رہا تھا۔ بلوائیوں نے عمارتوں کے شیشے توڑ دیئے۔ دیواریں پھلانگی گئیں۔ اراکین پارلیمنٹ کو بیسمنٹ کے محفوظ کمرے میں بند کر دیا گیا۔ باہر لوگ ہٹلر زندہ باد کے نعرے لگاتے جا رہے تھے۔ اس بدامنی کے پیچھے ایک انتہاء پسند تنظیم QAnon بتائی جا رہی ہے۔ جس کا آرگنائزر یا سربراہ ابھی تک تلاش نہیں کیا جا سکا۔ امریکہ میں یہ ایک ایسی تنظیم ہے، جو نائن الیون کو تسلیم نہیں کرتی اور موقف رکھتی ہے کہ دنیا کا نقشہ بدلنے والا واقعہ مسلمان نہیں، یہودیوں کی سازش تھی۔ پینٹاگون کی بلڈنگ پر جو طیارہ گرایا گیا تھا، وہ کہاں ہے؟ قوم کو دکھائیں تو سہی۔ ان کا خیال ہے کہ کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ جو کچھ بھی ہوا ہے، یہودیوں نے کیا ہے۔ یہ تنظیم یہودیوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں ایک واقعہ ہوا تھا کہ یہودیوں کے قبرستان میں قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس افسوسناک واقعہ کا ذمہ دار بھی اسی انتہاء پسند تنظیم کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس تنظیم QAnon کے بارے میں کوئی اخبار، ادارہ، ایجنسی نہیں بتا رہی کہ اس تنظیم کا بانی کون ہے؟ اس کے عہدیدار اور ممبران کون ہیں؟ کچھ پتہ نہیں۔ لیکن امریکہ میں اس کی سرگرمیاں اور مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ یہ مذہب اور رنگ کے حوالے سے بھی تفریق پیدا کر رہی ہے۔ کالے گورے، مسیحی اور یہودی کی تفریق کی بات کرتی ہے۔ یہ سفید چمڑے والے انگریز ہی کو امریکہ کا وارث اور حق دار سمجھتی ہے۔ یہ تنظیم صرف امریکہ ہی میں وجود نہیں رکھتی، عالمی دہشت گرد بھی کہلاتی ہے۔ اسلامی دہشتگرد کی اصطلاح کے بعد اب کہا جا رہا ہے کہ امریکہ میں بھی دہشتگرد پیدا ہو رہے ہیں۔ اور یہ سب QAnon کی وجہ سے ہی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے یورپ میں اس تنظیم نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔

گویا جن امریکیوں نے مشرق وسطیٰ میں انتہا پسند تنظیموں سے مذہب اسلام کو بدنام کیا۔ ان کے اپنے پاس QAnon کے نام سے دہشتگردی پہنچ چکی ہے۔ یعنی جو کل تک مذہب کے نام پر مسلمانوں میں قتل و غارت گری کرواتے تھے۔ ویڈیو بناتے تھے۔ آج وہ اپنے ملک میں بے بس نظر آتے ہیں۔ کچھ ویڈیو کلپس میں QAnon کے اراکین کے لیکچرز نظر آتے ہیں۔ گویا جو کل تک دوسرے ممالک میں دہشت گردی کو فروغ دیتے رہے، ان کے اپنے ممالک میں اسی بلا کا شکار ہوگئے ہیں۔ حکومت ان کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن بار بار دہشت گردی ختم کرکے قوم کو متحد کرنا چاہتے ہیں، جبکہ انتہاء پسند بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ وہ پھر آئیں گے اور کیپیٹل ہل پر قبضہ کریں گے۔ اسی طرح امریکہ میں صدارتی انتخابات میں پیدا ہونے والی نفرت اور کشیدگی موجود ہے۔ ڈیموکریٹس کو ری پبلکن تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں۔ کیپیٹل ہل پر فوج ابھی تک تعینات ہے۔ حکومت کانگریس اجلاس طلبی کو خفیہ رکھ رہی ہے۔

آرنیڈو ریاست میں ری پبلکن نے ٹرمپ کے جلسے کے دوران واضح اعلان کیا کہ صدر صرف ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ڈیموکریٹس کے منتخب صدور کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ کانگریس پر دوبارہ قبضہ اور ٹرمپ کو دوبارہ صدر بنوانے کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں، جبکہ نیویارک میں ایشیائی باشندوں سے نفرت کے واقعات بڑھ رہے ہیں، انہیں گالیاں دی جاتی ہیں اور ان پر حملے کئے جا رہے ہیں اور کورونا کورونا کے نعرے لگوائے جا رہے ہیں۔ اب حالات کس طرف جاتے ہیں، اس کا اختتام نظر نہیں آرہا۔
خبر کا کوڈ : 920949
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش