0
Saturday 13 Mar 2021 10:31

ترکی سے امداد لینے کا سعودی فیصلہ، شرمندگی بس شرمندگی

ترکی سے امداد لینے کا سعودی فیصلہ، شرمندگی بس شرمندگی
اداریہ
گذشتہ چند عشروں سے بالخصوص آخری عشرے میں ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات میں کئی نشیب و فراز آئے۔ دونوں ممالک امت مسلمہ کی سربراہی اور قیادت کی خواہش کی وجہ سے ایک دوسرے کے رقیب ہیں۔ جب مصر میں اخوان المسلمین نے حسنی مبارک کے خلاف کامیابی حاصل کی تو ترکی نے اخوان کا ساتھ دیا، جبکہ سعودی عرب نے محمد مرسی کیخلاف فوجی بغاوت میں موجودہ فوجی سربراہ جنرل السیسی کا بھرپور ساتھ دیا۔ سعودی عرب نے السیسی حکومت کی مضبوطی کے لیے ایک خطیر رقم بھی مصر کو دی تھی۔ اسی طرح قبرص کے مسئلے میں بھی سعودی عرب کا موقف ترکی کے سراسر خلاف تھا۔

لیبیا میں بھی سعودی عرب اور ترکی ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں، لیکن آج سعودی عرب اتنا مجبور ہوگیا ہے کہ وہ ترکی کو مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ یمن کے مجاہدین نے سعودی عرب کو تھوکا ہوا چاٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سعودی عرب جو خطے کی سیاست میں ترکی کو نیچا دکھانے کے لیے سرگرم عمل تھا، آج یمن میں متوقع شکست کو آنکھوں کے سامنے دیکھ کر رجب طیب اردوغان کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے۔ چند ہفتوں میں یمن پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کرنیوالا سعودی عرب چھ سال مکمل ہونے کے بعد آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ یمنی مجاہدین اسٹریٹیجک علاقے مآرب سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔

سعودی عرب اس جنگ میں اکیلا ہوتا جا رہا ہے، امریکہ بھی آنکھیں دکھا رہا ہے، متحدہ عرب امارات بھی پسپائی اختیار کرچکا ہے۔ دیگر عرب علاقائی دوست بھی میدان خالی کرچکے ہیں، دوسری طرف یمن کی افواج اور ان کے ڈرونز نے سعودی عرب کے ہوائی اڈوں اور اہم تنصیبات کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ سعودی عرب یمن میں موجود ترکی نواز الاصلاح پارٹی کو انصار اللہ کے مقابلے میں لانا چاہتا ہے، لیکن یمن کی صورتحال پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ انصار اللہ اور یمنی فوج جس سرعت سے کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں، الاصلاح سمیت کوئی گروپ اس پیشقدمی کو روک نہیں سکتا۔
خبر کا کوڈ : 921214
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش