9
Saturday 13 Mar 2021 23:55

امریکا کی ٹائم پاس خارجہ پالیسی برائے افغانستان

امریکا کی ٹائم پاس خارجہ پالیسی برائے افغانستان
تحریر: محمد سلمان مہدی

یوں تو یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی خارجہ پالیسی برائے مسلم و عرب دنیا مجموعی طور پر ٹائم پاس پالیسی قرار دی جاسکتی ہے لیکن اس ضمن میں افغانستان کو ایک زندہ مثال کے طور پر اسی طرح پیش کیا جاسکتا ہے جیسا کہ ایران و پاکستان کو۔ ایک جملے میں سمجھنا چاہیں تو خبر یہ ہے کہ جوزف بائیڈن کی صدارت کے تحت ڈیموکریٹک امریکی حکومت سابق صدر ٹرمپ حکومت کی امریکہ افغانستان ڈیل کے ساتھ وہی معاملہ کرنے جا رہی ہے، جو ٹرمپ نے اپنے پیشرو باراک اوبامہ کی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی ایران نیوکلیئر ڈیل کے ساتھ کیا تھا۔  قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بڑے طمطراق کے ساتھ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے افغانستان ڈیل کو دنیا کے سامنے پیش کرکے بڑی داد وصول کی تھی۔ اس معاہدے میں طے یہ ہوا تھا کہ یکم مئی 2021ء تک امریکی و دیگر غیر ملکی افواج مکمل طور پر انخلاء کرچکی ہوں گی۔ اب واشنگٹن پوسٹ میں افغانستان کے لیے یہ بری خبر شایع ہوچکی ہے کہ امریکا کی تقریباً اڑھائی ہزار افواج فروری 2020ء کی ڈیل کے مطابق انخلاء نہیں کریں گی بلکہ ان کے قیام کی مدت میں توسیع کی جائے گی۔

ویسے بھی امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کی طرف سے افغانستان کے لیے زلمے خلیل زاد ہی کو خاص نمائندہ مقرر کیا گیا تھا۔ افغان نژاد امریکی شہری زلمے بھی امریکی سیاست میں وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ افغانستان اور عراق دونوں ہی میں وہ امریکی سفیر کی حیثیت سے امریکی خارجہ پالیسی کو دونوں ممالک پر مسلط کرنے میں انکا کردار بھی نمایاں رہا ہے۔ بائیڈن صدارت میں تا اطلاع ثانی وہی افغانستان کے لیے امریکی حکومت کے نمائندہ ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے جارج بش جونیئر کی صدارت میں زلمے خلیل زاد نے افغانستان پر مسلط امریکی زایونسٹ بلاک کی جنگ کے بعد سال 2003ء تا 2005ء وہ افغانستان میں امریکی سفیر تعینات رہے۔ یہاں سے انکا تبادلہ عراق میں امریکی سفیر کی حیثیت سے کر دیا گیا۔ سال 2007ء تک وہ عراق میں اور اس کے بعد سال 2009ء تک اقوام متحدہ میں وہ امریکی سفیر رہے۔ لگتا یوں ہے کہ امریکی ڈیپ اسٹیٹ کی زایونسٹ لابی نے انہیں کسی ایک ایسے مشن پر مامور کیا تھا، جس کا ایک سرا افغانستان میں، دوسرا عراق میں اور تیسرا اقوم متحدہ میں تھا۔ یعنی بعض مخصوص معاملات کی فائل ان کے ہاتھ میں تھی۔ خلیل زاد سے متعلق اتنا ہی، کیونکہ اس تحریر کا مقصود بائیڈن ایڈمنسٹریشن کی خارجہ پالیسی کا جائزہ پیش کرنا ہے۔

تازہ ترین ڈیولپمنٹس یہ ہیں کہ 10 مارچ 2021ء کو امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے امریکی مقننہ کے ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سامنے بائیڈن حکومت کی خارجہ پالیسی کے خدوخال بیان کیے ہیں۔ (اینٹنی کو اینتھونی بھی پڑھ سکتے ہیں)۔ انہوں نے امریکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بائیڈن حکومت کی ترجیحات کو بیان کیا ہے۔ اس حوالے سے ریڈیو پاکستان نے جو خبر 11 مارچ کو دی، اس کا عنوان ہی یہی تھا کہ تاحال یکم مئی تک افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ گیارہ مارچ ہی کے روز امریکی محکمہ خارجہ کی ایک خفیہ دستاویز کو امریکی میڈیا نے لیک کر دیا۔ حالانکہ یہ تفصیلات جس اجلاس کی تھیں، وہ 28 فروری 2021ء کو منعقد ہوا تھا۔ امریکی ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹ (یعنی محکمہ خارجہ) نے افغانستان کی حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کو شروع کرنے کے لیے ایک امن معاہدہ کا مسودہ تیار کیا تھا، جس پر بحث و تمحیص کی گئی۔ کچھ سمجھے!؟ یعنی افغانستان کی حکومت اور طالبان کے مابین جو امن معاہدہ ہونا ہے، وہ امریکی حکومت کا تیار کردہ ہے۔ ایک دن یہ خبر آئی اور اگلے دن یعنی 12 مارچ 2021ء کو واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی کہ بظاہر لگتا ہے کہ امریکی حکومت افغانستان سے فوجی انخلاء کو ملتوی کرنے جا رہی ہے۔

یعنی نئی امریکی حکومت کا ہر قیمت پر موڈ یہی ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی برقرار رہے۔ نائن الیون 2001ء کے بعد افغانستان پر مسلط جنگ کے بعد سے امریکا کی افغانستان میں فوجی موجودگی کو 20 بیسواں سال مکمل ہو رہا ہے، لیکن نہ افغانستان میں امن قائم ہوا، نہ ہی تعمیر نو۔ ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ امریکی حکومت نے افغانستان کے لیے کیا پالیسی بنا رکھی ہے، جو عام آدمی سمجھنے سے قاصر ہے!؟ اس وقت جوزف بائیڈن امریکی صدر ہیں، اس لیے ان کی زبانی سمجھ لیں کہ امریکی اہداف کیا ہیں۔ سال 2009ء میں جب باراک اوبامہ امریکی صدر کی حیثیت سے امریکی حکومت کے قائد تھے تو ان کے نائب صدر جوزف بائیڈن تھے۔  جس طرح 28 فروری کو امریکی دفتر خارجہ نے افغانستان امن معاہدے کا ڈرافٹ تیار کر لیا، تب باراک اوبامہ کی امریکی حکومت نے اس دور کے زلمے خلیل زاد کو رچرڈ ہالبروک میں تلاش کر لیا۔ یعنی ہالبروک کو نمائندہ خصوصی مقرر کر دیا اور اس کے لیے ایک نئی اصطلاح بھی گھڑ لی۔  ایفپاک یعنی افغانستان میں شامل پہلے دو انگریزی اے اور ایف جبکہ پاکستان کے پہلے تین انگریزی پی اے کے یعنی ایف پاک۔ ہالبروک کو دو ملکوں کے حوالے سے معاملات کا نگران بنا دیا۔ لیکن یہ تفصیل بھی محض پس منظر واضح کرنے کی نیت سے بیان ہوئی۔ اصل موضوع بائیڈن صاحب ہی ہیں۔

جوزف بائیڈن نے اس وقت نائب صدر کی حیثیت سے افغانستان کے ایشو پر دیگر سے مختلف پالیسی تجویز کی۔ البتہ ان کی تجاویز کو پالیسی کی بجائے انگریزی لفظ اپروچ کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ انہوں نے اوبامہ حکومت کی ٹیم کے سامنے اپنا نکتہ نظر بیان کیا کہ امریکا افغانستان میں القاعدہ سے لڑنے گیا تھا۔ لیکن وہ القاعدہ جس سے امریکا لڑنے گیا تھا، وہ اب افغانستان میں ہے ہی نہیں بلکہ وہ تو پاکستان میں ہے۔ (یہ سال 2009ء کی صورتحال تھی!)۔  سی آئی اے کے اندازے کے مطابق کل ملا کر لگ بھگ القاعدہ کے اس وقت محض ایک سو افراد ہی افغانستان میں رہ گئے تھے۔ اوبامہ کی افغان پالیسی تھی کہ القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کارروائی کرکے انہیں مٹا دو۔ اس ہدف کے لیے انہوں نے کاؤنٹر انسرجنسی یعنی بغاوت کو کچلنے کے لیے کارروائی اور نیشن بلڈنگ کو ذریعہ بتایا اور ہوا یوں کہ القاعدہ کی جگہ امریکا نے کہنے کی حد تک اپنا دشمن طالبان کو بتایا۔

بائیڈن نے ان سب کی امیدوں پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا کہ نہ تو کاؤنٹر انسرجنسی کی ضرورت ہے، نہ ہی ایک فنکشنل افغان مملکت کی ضرورت ہے اور نہ ہی دیہی ترقی اور مقامی سکیورٹی کے لیے اربوں ڈالر خردچ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے انہوں نے زیادہ شدید انسداد دہشت گردی (کاؤنٹر ٹیررازم پلس) کی اصطلاح استعمال کی، جو سی ٹی پلس کے مخفف سے میڈیا میں استعمال ہونے لگی۔ بائیڈن نے افغانستان کا ٹھیکہ پینٹاگون سے لے کر سی آئی کو دے دیا۔ یوں افغانستان اور پاکستان کے مابین سرحدی علاقے کو القاعدہ کی پناہ گاہ کے عنوان سے بدنام کرکے یہاں امریکی افواج نے بمباری اور فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہ سب روداد رچرڈ ہالبروک کے دست راست ولی نصر نے سال 2014ء میں اپنی خود نوشت بعنوان وہ قوم جس کے بغیر گذارا ہوسکے پسپا ہوتی، امریکی خارجہ پالیسی کے پہلے باب ہی میں منکشف کر دی تھی۔

یعنی قصہ مختصر یہ کہ کم خرچ بالا نشین کے مصداق بائیڈن کم ترین امریکی خرچے پر افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے مذکورہ خارجہ پالیسی کے قائل رہے ہیں۔ بائیڈن پالیسی کے تحت ہی پاکستان کے متعدد فوجی بھی امریکی افواج کی بمباری اور فائرنگ میں شہید ہوئے اور سانحہ سلالہ اس بھیانک بائیڈن پالیسی کا محض ایک چھوٹا سا نمونہ تھا۔ پاکستان کا دفاع کرنے والی پاک فوج کے جوانوں کو سانحہ سلالہ میں امریکی افواج نے بے دردی سے شہید کر ڈالا، کیونکہ اس وقت صدر اوبامہ کی امریکی حکومت اپنے نائب صدر جوزف بائیڈن کی تجویز کردہ مختلف اپروچ پر عمل پیرا تھی۔ اب یہی جوزف بائیڈن امریکا کے صدر ہیں۔ چونکہ افغانستان کا ٹھیکہ امریکی سی آئی اے کے پاس ہے تو امریکی سی آئی اے کے اہداف بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ خاص طور پر سی آئی اے کے سابق افسر گیری اسکروئن نے تو خود ہی اپنی کتاب بعنوان واضح کر دیا تھا۔ سی آئی کے سابق سینیئر افسر گیری اسکروئن کی کتاب کا مکمل عنوان ملاحظہ فرمائیے!
ٖFirst In:  An Insider Account of How the CIA Spearheaded the War on Terror.

اس خود نوشت کے حصہ ڈوم بعنوان تاریخ اور کتاب کے باب ششم میں گیری اسکروئن نے سال 1978ء کے موسم گرما کے دوران اسلام آباد میں امریکی سی آئی اے کے ایک خفیہ اجلاس کی روداد میں افغانستان کے لیے امریکی پالیسی کو بہت صراحت سے پیش کر دیا تھا۔ گیری اسکروئن کے الفاظ میں سی آئی اے کے خفیہ اجلاس میں حکم صادر کیا گیا کہ:
"You will recruit assets in every Mujahideen group. I want to know what they need, how we can help them. I want action. I want results!" نائن الیون کے بعد کی روداد امریکی سی آئی کے اس وقت کے چیف آف اسٹیشن (اسلام آباد) نے بیان کی ہے۔ قندھار تک 88 دن، سی آئی اے کی ڈائری کے عنوان سے انہوں نے جو کچھ لکھا، وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ افغانستان کے لیے امریکی خارجہ پالیسی در حقیقت ایک فکسڈ میچ ہے۔ افغانستان کی بساط کے اہم کھلاڑی، بڑی اور نامور شخصیات امریکی اداروں کے اثاثوں کے طور پر کردار ادا کرتے ہیں۔ البتہ جو اثاثہ بوجھ بن جائے، بس اس کی شامت آجاتی ہے۔ شامت کی اقسام ہیں، وقتی بھی ہوسکتی ہے اور مستقل بھی اور حتمی یعنی موت کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے۔

یہ جو ہم نے لکھا ٹائم پاس!، اسکا بھی ایک پس منظر ہے۔ یعنی امریکی حکومت کی اس خطے میں خارجہ پالیسی کے جو اہداف ہیں، وہ واضح ہیں۔ افغانستان تا عراق و شام و لبنان و فلسطین و یمن و لیبیا و دیگر مسلمان ممالک، تکفیری دہشت گردی کا ایک سرا افغانستان سے جڑا ہوا ہے اور 1970ء کے عشرے سے اس میں امریکی کردار کا اعتراف سی آئی اے کے گیری اسکروئن نے خود کیا ہے۔ امریکی زایونسٹ بلاک کا اصل ہدف اسرائیل کا دفاع، اسرائیل کی بقاء ہے، عرب اور خاص طور پر مسلمان ممالک کی غالب اکثریت اسرائیل کو منطقی، قانونی، تاریخی اخلاقی، انسانی، جمہوری، ہر حوالے سے ایک ناجائز اور جعلی ریاست سمجھتی ہے۔ عالم اسلام و عرب کی غالب اکثریت زایونسٹ نسل پرستانہ یہودی تسلط کے خلاف فلسطین و لبنان کے مقبوضہ علاقوں کے عوام کی مسلح مزاحمت اور شام کی حکومت کے اسرائیل مخالف موقف کی حمایت کرتی ہے۔

اسی کی سزا دینے کی نیت سے افغانستان تا عراق تا شمالی افریقہ مسلمان اکثریتی ممالک میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کو امریکی زایونسٹ بلاک نے میدان میں اتارا ہوا ہے۔ ایران کو بھی اسی لیے نت نئی مشکلات میں پھنسایا گیا ہے۔ جس طرح افغانستان کی قسمت کا فیصلہ امریکی حکومت کر رہی ہے اور اس دستاویز کو امریکی میڈیا کے ذریعے دانستہ طور پر لیک کروایا گیا ہے، اسی طرح ایران اور دیگر ممالک کے لیے بھی امریکی حکومت خفیہ دستاویزات لکھ چکی ہے۔ اس کی ایک مثال ایران نیوکلیئر ڈیل ہے، جس امریکی حکومت نے کی اس میں بائیڈن نائب صدر تھا، اس پر ٹرمپ نے آکر عمل نہیں کیا۔ اسی طرح ٹرمپ کی صدارت کے افغان امن معاہدے کے مطابق یکم مئی کو مکمل امریکی فوجی انخلاء پر صدر جو بائیڈن کی حکومت نے عمل نہیں کرنا۔ محض ٹائم پاس کرنا ہے، کیونکہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے!!
خبر کا کوڈ : 921389
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش