0
Monday 15 Mar 2021 06:45

شام میں دہشتگردی کے 10 سال

شام میں دہشتگردی کے 10 سال
اداریہ
2011ء میں جب عرب ممالک میں عوامی تحریک شروع ہوئی اور حسنی مبارک، بن علی، قذافی اور عبداللہ صالح کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف عوام سڑکوں پر آگئے تو امریکہ اور اس کے علاقائی حواریوں نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا منصوبہ تیار کیا اور غاصب اسرائیل کیخلاف ڈٹے ہوئے شام کو بھی اپنے نشانے پر لے لیا۔ شام میں اگرچہ مثالی جمہوریت نہیں تھی لیکن دیگر عرب ممالک کے مقابلے میں صورت حال بہت بہتر تھی۔ البتہ شام اور اس کے صدر بشارالاسد کا اصل قصور یہ تھا کہ وہ اسرائیل کے مقابلے میں مقاومت اور اسلامی مزاحمت کے ساتھ کھڑا تھا۔

امریکہ اور اس کے حواریوں نے پہلے مرحلے میں رفیق حریری کے قتل کا بہانہ بنا کر لبنان سے شامی فورسز کو باہر نکلنے پر مجبور کیا، تاکہ لبنان غاصب صیہونی حکومت کے لیے ایک ترنوالہ ثابت ہوسکے اور حزب اللہ کی پشت بھی خالی ہو جائے۔ دوسرے مرحلے میں شام کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے اسّی سے زائد ممالک سے دہشت گردوں کو ترکی اور دوسرے راستوں سے شام میں داخل کیا گیا اور بہت کم عرصے میں ان دہشت گردوں نے شام کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کر لیا۔ شام کو اسلامی مقاومت کی مدد حاصل تھی، جس نے آٹھ نو سالوں کی مسلسل قربانیوں کے بعد بالآخر ان دہشت گردوں کو شام سے نکال باہر کیا اور اس وقت شام کا نوے فیصد علاقہ بشارالاسد کی قانونی حکومت کے پاس ہے۔

لیکن گذشتہ ایک عشرے میں تین لاکھ شامی امریکہ کی شروع کی گئی اس جنگ میں مارے گئے۔ ایک کروڑ سے زیادہ بے گھر ہوئے۔ ہر چھ شامی بچوں میں سے ایک کے والدین یا زخمی ہیں یا ہلاک ہوگئے۔ شام کی نصف آبادی میں سے ہر گھر کا ایک فرد اس امریکی سازش کی بھینٹ چڑھ گیا اور دائمی نیند سو گیا۔ بارہ ہزار سے زائد شامی بچے ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں، 26 لاکھ سے زائد مہاجر ہوئے اور بنیادی تعلیم سے محروم ہوگئے۔ 60 فیصد آبادی کو بنیادی اور مناسب غذا میسر نہیں، 90 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس دس سالہ دہشت گردی کے ذمہ دار آج بھی انسانی حقوق کے دعویدار اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں مشغول نظر آتے ہیں۔ شامی عوام ان دس سالوں کا حساب مانگ رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 921559
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش