QR CodeQR Code

مکتب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی

16 Mar 2021 21:30

اسلام ٹائمز: قرآن مجید نے شہید کو زندہ کہا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی زندہ ہیں، وہ پہلے کی طرح آج بھی ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں۔ وہ آج بھی دعوتِ حق دے رہے ہیں۔ کیا ہمیں انکی آواز سنائی دے رہی ہے؟؟ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی مظلوم و محروم ملت کی ترقی و پیشرفت کے ہر شعبے کیلئے ابتدائی کام انجام دے دیئے ہیں۔ اِس عظیم شخصیت نے انتہائی کم وقت میں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ اب آنیوالی نسلوں کی ذمہ داری ہے کہ اِن بنیادی اصولوں کو اپناتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے مطابق اسلامی موومینٹ کو مہدیؑ برحق کی عالمی تحریک سے منسلک کریں۔


تحریر: سویرا بتول

امام خمینی کا فرمان ہے کہ شہداء آسمان پر دمکتے ہوئے ایسے ستارے ہیں، جن کی روشنی میں ہر انسان راستہ پا سکتا ہے۔ شہداء کی مقناطیسی کشش پاکیزہ دلوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ عاشقوں کا جنون کے جسم سے عجیب تعلق ہے. اِن کے لیے سر کٹا لینا عیب نہیں سر کا ہونا عیب ہے۔ دین کا آبِ حیات شہداء کے خون سے متصل ہے۔ جب انسانیت کی بہشت سوکھنے لگتی ہے، ہدایت کا شجر پژمُردہ ہونے لگتا ہے اور دین کی سلسبیل میں ٹھہراؤ آنے لگتا ہے تو شہداء کا گرم خون انسانی اقدار، ہدایت کے شجر اور دین کی جھیل کو منجمد ہونے سے بچاتا ہے۔

آفاقِ عالم میں شہداء کا پاکیزہ لہو دمک رہا ہے۔ یہ لہو قلم کی روشنائی سے ہوتا ہوا نسل در نسل قلب و جگر میں اترتا جاتا ہے۔ یہ خون اقوام کے دل و دماغ کو زندہ رکھتا ہے۔ جب کوئی قوم مردہ ہونے لگتی ہے تو شہداء کا پاکیزہ لہو اُسے حیاتِ نو بخشتا ہے اور یہی کام شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے لہو نے کیا ہے۔
جب سازِ سلاسل بجتے تھے ہم اپنے لہو سے سجتے تھے
وہ رسم ابھی تک باقی ہے یہ رسم ابھی تک جاری ہے
جب پرچم جاں لیکر نکلے ہم خاک نشین مقتل مقتل
اُس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت طاری ہے


شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی حکمتِ عملی کا اگر خلاصہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ آپ کا ہدف ملت کے ہر جوان میں شعور پیدا کرنا اور اسے دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ کرنا تھا۔ آپ اپنی حکمتِ عملی کی بناء پر معاشرے کو اسلامی بنیادوں پہ استوار کرنا چاہتے تھے۔ اِس کے لیے ملکی سطح پر عوام کی شعوری سطح کو بلند کرنا ضروری تھا، تاکہ وہ حقیقی اسلام کے اجتماعی فلسفے سے آشنا ہوسکیں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اس ہدف تک پہنچنے کے لیے کم ترین وقت میں کم ترین وسائل کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کی۔ خوب سے خوبتر کی تلاش اُن کا سلوگن تھا۔ تکامل و پیشرفت کو انہوں نے ہمیشہ اپنا نصب العین قرار دیا۔ ڈاکٹر شہید کی زندگی کو دیکھ کر دل سے احساس ہوتا ہے کہ وہ مولائے کائناتؑ کے اِس جملے کے عملی مصداق تھے کہ جس میں مولا نے فرمایا تھا کہ جس کا آنے والا دن گذشتہ دن کے برابر گزرا ہو، وہ ہلاک ہوگیا۔

ڈاکٹر صاحب اِس ہلاکت سے کوسوں دور تھے۔ آپ کے پاس معاشرے کی اصلاح و شعور کی بالیدگی و بلندی کے لیے نت نئے منصوبے تیار رہتے تھے۔ وہ کسی ایک جگہ ٹھہرتے نہیں تھے۔ جمود و ٹھہراؤ اِن کی ذات سے ہرگز میل نہ کھاتے تھے۔ قرآن مجید نے شہید کو زندہ کہا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی زندہ ہیں، وہ پہلے کی طرح آج بھی ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں۔ وہ آج بھی دعوتِ حق دے رہے ہیں۔ کیا ہمیں اِن کی آواز سنائی دے رہی ہے؟؟ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی مظلوم و محروم ملت کی ترقی و پیشرفت کے ہر شعبے کے لیے ابتدائی کام انجام دے دیئے ہیں۔ اِس عظیم شخصیت نے انتہائی کم وقت میں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ اب آنے والی نسلوں کی ذمہ داری ہے کہ اِن بنیادی اصولوں کو اپناتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے مطابق اسلامی موومینٹ کو مہدیؑ برحق کی عالمی تحریک سے منسلک کریں۔

دشمن سمجھتا تھا کہ اُس نے علی نقوی کو شہید کر دیا، مگر اُسے اندازہ نہ تھا کہ شہید ڈاکٹر کے افکار و نظریات آج ایک مکتب کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے فکری، نظریاتی اور عملی کاموں میں پختگی کے پیش نظر شہید کی شخصیت ایک  "مکتب" میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس مکتب کے بنیادی اصول ہیں، جو ہمارے لئے کسی روشن مینار سے کم نہیں۔
تم نے تو اس صفائی سے پونچھی تھی آستیں
تجھ کو خبر نہ تھی کہ لہو بولتا بھی ہے


خبر کا کوڈ: 921908

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/921908/مکتب-شہید-ڈاکٹر-محمد-علی-نقوی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org