0
Wednesday 17 Mar 2021 09:34

ہتھیار خریدنے میں سب سے آگے، جنگ میں سب سے پیچھے

ہتھیار خریدنے میں سب سے آگے، جنگ میں سب سے پیچھے
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اسٹاک ہوم امن انسٹی ٹیوٹ نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب نے 2011ء سے 2015ء کے مقابلے میں 2016ء سے 2020ء تک کے عرصے میں ماضی کی نسبت اکسٹھ فیصد زیادہ بیرونی ہتھیار خریدے ہیں۔ اس عالمی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک حصہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ 2016ء سے 2020ء تک میں سعودی عرب نے ہتھیاروں کی خرید میں نمایاں اضافہ کرتے ہوئے اس میں 61 فیصد اضافہ کیا ہے، جبکہ اس رپورٹ کے دوسرے حصے میں جو نقطہ قابل توجہ ہے کہ کس ملک نے یہ ہتھیار سعودی عرب کو فروخت کیے ہیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق 2016ء سے 2020ء تک امریکہ نے اپنا 47 فیصد اسلحہ مغربی ایشیاء کے ممالک کو فروخت کیا، جس میں 27 فیصد سعودی عرب نے خریدا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب نے اس عرصے میں جتنا اسلحہ خریدا ہے، اس میں 79 فیصد ہتھیار امریکہ سے خریدے گئے ہیں۔

ایک اور قابل نمونہ نکتہ جس کی طرف اسٹاک ہوم انسٹی ٹیوٹ نے اشارہ نہیں کیا ہے، وہ سعودی عرب کا غیر معمولی فوجی بجٹ ہے۔ سعودی عرب نے 2016ء سے 2020ء تک کے عرصے میں 173 ارب ڈالر فوجی اخراجات کے لیے مخصوص کیے ہیں۔ جو کل بجٹ کا 20 فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر یہ سوال اٹھتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنے بجٹ میں فوجی مقاصد کے لیے اتنا بڑا بجٹ کیوں مختص کر رکھا ہے۔ فوجی بجٹ میں اضافے کی ایک دلیل یمن پر جارحیت کا آغاز ہے۔ یمن پر جارحیت کے بعد سعودی عرب کا فوجی بجٹ، تعلیم اور صحت کے شعبے سے کہیں زیادہ ہوچکا ہے۔ گویا یمن پر جارحیت کے نتیجے میں سعودی اخراجات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ آل سعود خاندان یمن اور دوسرے ممالک میں اپنی فوجی مداخلت کے ذریعے علاقے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

سعودی عرب کے فوجی اخراجات مشاہدہ کرکے نیز یمن جنگ کی موجودہ صورتحال دیکھ کر باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کو نہ صرف اقتصادی لحاظ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے بلکہ علاقے میں طاقت کا توازن بھی سعودی عرب کے خلاف نظر آرہا ہے۔ فوجی بجٹ میں اضافے کی دوسری دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سعودی عرب کا آل سعود خاندان اپنی بقاء کے لیے بیرونی طاقتوں کا محتاج ہے۔ بیرونی وابستگی کی صورتحال یہ ہے کہ جمال قاشقچی کے قتل میں بن سلمان کے ملوث ہونے کی وجہ سے بن سلمان کا اقتدار خطے میں نطر آرہا ہے۔ اسلحہ کی خریداری کے حوالے سے بھی سعودی عرب اس بات پر مجبور ہے کہ بیرونی طاقتوں کو اپنا حامی بنانے کے لیے ان سے ہتھیار خریدے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے تو کئی بار توہیں آمیز بیانات سے آل سعود کا مذاق اڑایا تھا اور انہیں دودھ دینے والی گائے سے تشبیہ دی تھی۔

سعودی عرب کی طرف سے خریدے گئے ہتھیاروں میں امریکہ کا 79 فیصد حصہ اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ واشنگٹن آل سعود کے اقتدار میں رہنے کی قیمت وصول کر رہا ہے۔ آل سعود خاندان ایسے عالم میں اتنی بڑی مقدار میں جدید ہتھیار خرید رہا ہے کہ اسے کسی بیرونی حملے کا کوئی خطرہ نہیں، البتہ آل سعود کی غلط پالیسیوں اور جنگ پسند پالیسیوں نے اس کے لیے مختلف مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے ہتھیاروں کی خریداری کا مسئلہ آج کا نہیں ہے، اس ملک نے سامراجی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے کئی بار اس ہتھکنڈے کو استعمال کیا ہے۔ ماضی مین جب ایران اور پانچ جمع ایک ممالک کے درمیان عالمی جوہری معاہدے کا سلسلہ چل رہا تھا تو سعودی عرب نے مذاکرات میں شریک ایک اہم ملک فرانس کو یہ آفر دی کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہو جائیں اور فرانس اس میں اپنا کردار ادا کرے تو سعودی عرب فرانس سے ایک بڑی مقدار میں ہتھیار خریدے گا۔ سعودی عرب اور فرانس کے درمیاں ہتھیاروں کی خریداری کا معاملہ طے ہوا اور فرانس نے مذاکرات میں روڑے اٹکانے شروع کر دیئے۔

امریکہ میں وائٹ ہائوس کی پالسیوں پر اسلحہ بنانے والی صنعت کے مالکان کے اثر و رسوخ کو عالمی میڈیا کئی بار آشکار کرچکا ہے۔ سعودی عرب اسلحہ بنانے والے ممالک کا آسان شکار ہے اور جب بھی ان ممالک کے اسلحہ ساز کارخانے بند ہونے لگتے ہیں تو ان ممالک کے حکمران سعودی عرب اور ان جیسے دیگر ممالک کا دورہ کرکے اور وہان ایرانو فوبیا اور شیعہ کریسنٹ کا غوغا برپا کرکے اپنا الو سیدھے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بہرحال مسلمان اور عرب ممالک کو اتنی خطیر رقم ہتھیاروں کی خریداری پر صرف کرنے کی بجائے اپنے عوام پر صرف کرنی چاہیئے اور سامراجی طاقتوں کے اس بہانے اور ہتکھنڈے کو ناکام بنانے کے لیے کہ ایران ان کے لیے خطرہ ہے۔ سنجیدہ اقدامات انجام دینے چاہیئے۔ ایران نے ان ممالک کو کئی بار علاقائی دفاعی اتحاد بنانے کی تجویز دی ہے، تاکہ عالمی طاقتیں انہیں ایران کے نام پر بلیک میل نہ کرسکیں، لیکن آل سعود اور ان کے حواریوں کو ابھی سممجھ نہیں آرہی ہے، جب تک امریکہ ان کا تمام دودھ دھو نہیں لے گا، آل سعود کو ہوش نہیں آئے گا۔
خبر کا کوڈ : 921993
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش