QR CodeQR Code

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، چند معروضات

18 Mar 2021 23:32

اسلام ٹائمز: میں یہ نکتہ عرض کرتا چلوں کہ میرے جیسے افراد نہ تو اپنے آپکو شہید کا ''رفیق خاص، قریبی ساتھی، دیرینہ دوست'' یا اس طرح کے کسی لقب کے اہل سمجھتے ہیں، البتہ کچھ وقت گزارنے کا موقع ضرور نصیب ہوا۔ جس سے کچھ سیکھنے کی کوشش ضرور کی، جو ہماری زندگی کا سرمایہ ہے۔ آج یہ بات تحریر و تقریر میں ببانگ دہل کہہ رہا ہوں کہ اگر میری ذات میں کوئی معمولی سی بھی اچھی بات ہے تو شہید ڈاکٹر کی عطا کردہ ہے اور ایسے تمام افعال و کردار جو ذاتی اور اجتماعی حوالے سے منفی اور ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں، انہیں کسی بھی حوالے سے شہید سے نسبت دینا نہ صرف شرعی اشکال کا حامل ہے بلکہ اسے ہرگز قابل قبول اور شائستہ اقدام بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔


تحریر: ڈاکٹر سید راشد عباس

چند دن قبل ایک ویبینار میں، میں نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی پاکستان میں ایک باقاعدہ مکتب میں تبدیل ہوچکے ہیں، اس پر مختلف احباب کی آراء موصول ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ میرے پاس اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے مضبوط دلائل ہیں۔ دوست احباب کو اس پر قلم اٹھانا چاہیئے۔ اس مکتب کو محفوظ رکھنے اور اس کا شفاف اور واضح تعارف بنیادی ضرورتوں میں ہے۔ یہ تحریر اس کی پہلی کڑی ہے، اگرچہ اسے العارف کے لئے تحریر کیا گیا لیکن اسلام ٹائمز کے قارئین کی خدمت بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی جس طرح زندگی میں جسموں میں انقلابی روح پھونکنے کی صلاحیت رکھتے تھے، شہادت کے بعد بھی ان کا یہ عمل جاری و ساری ہے بلکہ بعض عرفاء کے نزدیک تو شہادت کے بعد انسانی روح جسمانی قید و بند سے رہا ہو کر زمان و مکان کی قید سے بھی ماوراء ہو جاتی ہے۔ جو احباب شہید ڈاکٹر کی یاد زندہ رکھے ہوئے ہیں اور جو تنظیمیں اس مناسبت سے مختلف پروگرام اور تقاریب منعقد کرتی چلی آرہی ہیں، خداوند عالم ان کو اجر بھی دے اور ان کی توفیقات خیر میں اضافہ بھی کرے نیز انہیں شہید کو درک کرنے کی صلاحیت بھی دے۔

شہید ڈاکٹر کی برسی کے موقع  پر ہر سال دوست احباب کی خواہش ہوتی ہے کہ میں شہید پر کچھ نہ کچھ تحریر کروں۔ گذشتہ سال شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی پر اردو میں کتاب شائع ہوئی اور اس سال تقریباً 330 صفحات پر مشتمل فارسی میں بھی ایک کتاب شائع ہوچکی ہے، جس سے مجھے قدرے اطمینان ہوا کہ اس کتاب سے ایران میں بھی لوگوں کو شہید ڈاکٹر کی شخصیت اور ان کی فعالیت سے آشنائی کا موقع میسر آسکے گا۔ فارسی میں شائع شدہ کتاب کا آج تک جس نے بھی مطالعہ کیا، اس کی زبان سے بے ساختہ یہ جملے سننے کو ملے کہ "امام خمینی کے افکار و نظریات کے پیروکار کیسے کیسے عظیم افراد ہیں، جو دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں لیکن اہلِ ایران ان سے بے خبر ہیں۔" ایک ایرانی مصنفہ نے اس کتاب کا فرانسیسی زبان (فرنچ) میں بھی ترجمہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ انگریزی میں ترجمہ کیلئے دیکھیں کون آگے بڑھتا ہے۔ اس کتاب کی بدولت اس سال فارسی، عربی اور فرنچ میں شہید کے بارے میں مختلف آرٹیکل شائع ہوئے ہیں۔

اس سال کی برسی کے پروگرامات بلا شک و شبہ کرونا وائرس کیوجہ سے کسی حد تک متاثر ہوئے، لیکن پھر بھی مناسب رہے۔ ایک بات جس کا شدت سے احساس ہوتا ہے، بالخصوص مختلف پروگراموں میں کی گئی تقاریر اور خطابات سننے کے بعد کہ اکثر افراد اپنی یاداشتوں کا سہارا لے کر گفتگو کرتے ہیں اور اس سے اپنی مرضی کے نتائج نکالتے ہیں۔ سیاست کے شوقین یا سیاست میں سرگرم لیڈران شہید کی سیاسی سرگرمیوں کو ہی اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیکر اپنی خوبیوں خامیوں پر پردہ ڈالتے ہیں، جبکہ سیاست کے ساتھ شہید جن دوسرے تحفظات کا اظہار فرماتے تھے، ان  امور کو نہ صرف فراموش بلکہ قابل ذکر تک نہیں سمجھا جاتا۔ دوسری طرف ایک طبقہ صرف ان کی مظلومیت کا رونا روتا رہتا ہے۔ بعض تحریروں میں اپنے احساس کمتری کو مٹانے کیلئے شہید کے ابتدائی ساتھیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کہیں پر اپنی شخصیت کو منوانے کے لئے شہید کے قریبی اور دیرینہ ساتھی کا لیبل استعمال کیا جاتا ہے۔

متنازعہ لیکن غیر مصدقہ واقعات کو شہید سے نسبت دی جاتی ہے، اس سے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے افکار و نظریات کی کتنی ترویج ہوتی ہے اور ڈاکٹر شہید کے مشن کو کیا فائدہ پہنچ سکتا، اظھر من الشمس ہے۔ اس پر رائے دینا خود عبث نظر آتا ہے۔ شہید ڈاکٹر کے عنوان سے یہ بھانت بھانت کی بولیاں اپنی جگہ پر کئی سوالات جنم دے رہی ہیں۔ سال گذشتہ شہید کے بارے میں جو کتاب مرتب کرنے کی سعادت مجھے نصیب ہوئی، اس میں کوشش کی گئی تھی کہ شہید ڈاکٹر کے اپنے خطابات، تقاریر اور مستند تحریروں سے حوالہ جات کو سامنے لایا جائے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مقررین و مصنفین کی اکثریت اس کتاب اور اس کے مستند حوالہ جات سے استفادہ کی طرف مائل نہیں یا ان حوالہ جات کو پڑھنے کی زحمت نہیں کرتی، جس کا منطقی نتیجہ من گھڑت باتیں، غیر مستند واقعات اور ذاتی یاداشتوں کو سامنے لایا جانا ہے، جو تکراری اور بار بار کے سنے سنائے اور اکثر اوقات ناقابل اثرانداز محسوس ہوتے ہیں۔

میں نے ذاتی طور پر شہید کی زندگی میں ان کی جو تقاریر یا نجی محفلوں میں گفتگوئیں سنی ہیں، وہ مکمل طور پر سیاق و سباق کے ساتھ ذہن نشین نہیں رہیں، لیکن جب ان کی ریکارڈ شدہ گفتگو ان کی اپنی آواز میں سن کر لکھیں اور ان پر غور کیا تو کئی نئی باتیں اور نئے مفاہیم سمجھنے کو ملے۔ موجودہ تنظیمی برادران اور شہید کے ساتھیوں سے بھی دست بستہ گزارش ہے کہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں شہید کے مستند حوالوں کو موضوع بحث بنائیں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی اور اس سے یقیناً بہت سارے احباب نے استفادہ کیا، لیکن شہید نقوی اب ایک مکتب میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کیلئے اگر ابھی سے پیش بندی نہ کی گئی تو کئی من مانی باتیں ان سے منسوب کر دی جائیں گی، جنہیں بعد میں مسترد کرنا مشکل ہو جائیگا۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا ہے کہ انحراف سے بچنے کیلئے مؤثر اقدامات انجام دئیے جائیں۔

شہید سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد زندہ ہے۔ حتیٰ ان کی اپنی اولاد سے بڑھ کر کس کی خواہش ہوگی کہ وہ اپنے عظیم والد کے بارے میں کچھ لکھیں اور بولیں۔ انہیں بھی اس احتیاط کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ وہ دوسروں سے زیادہ محتاط رہیں، کیونکہ ان کی زبان سے ادا شدہ الفاظ و مفاہیم دوسروں سے زیادہ مستند سمجھیں جائیں گے جبکہ اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ خود شہید کے فرزندان شہید کی زندگی میں اپنی کم سنی کی وجہ سے بہت سے حقائق و حالات سے براہ راست آگاہ نہیں ہیں، لہٰذا وہ بھی سنی سنائی پر یقین کرنے پر مجبور ہیں، تاہم اس کا مناسب راہ حل سامنے آنا چاہیئے تاکہ شہید کے افکار و نظریات کی تحریف سے بچا جا سکے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسی ہستیاں کسی ایک تنظیم، خاندان یا گروہ کی ملکیت یا ورثہ نہیں ہوتیں، وہ اپنے افکار و نظریات کی روشنی میں آفاقی و ماورائے خاندان و قبیلہ و قوم ہوتی ہیں۔ شہادت کے بعد تو یوں بھی شہید کی روح زمان و مکان کی قید سے ماوراء ہو جاتی ہے۔

شہید نقوی جیسی شخصیات سے بعض اوقات کچھ افراد اپنے ذاتی مفادات بھی حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے آپ کو ان کے ساتھ منسوب کرکے اپنی حیثیت منوانے یا شہید کو پل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش بھی کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں ہم ایران میں بھی مشاہدہ کر رہے ہیں اور بعض شہداء کے فرزندان نے تو اپنے  ذاتی یا سیاسی مفادات کیلئے اپنے عظیم باپ کا نام تک استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا، جس کا منطقی نتیجہ شہید کی عظمت و بزرگی کو داؤ پر لگانے کی صورت میں ہی ظاہر ہوا۔ البتہ ایران میں ایک نظام ہے اور معاشرے پر اس کی مناسب گرفت ہے، لہٰذا شہید بہشتی، شہید مطہری حتی امام خمینی جیسی شخصیات کے خاندان کے افراد اگر ان عظیم ہستیوں کے افکار و نظریات کو ''من مانے'' انداز سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا ان عظیم شخصیات کے مقام و مرتبے سے دنیوی استفادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو نظام اور  معاشرے کی طرف سے ردعمل سامنے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کی کئی عظیم شخصیات کی حقیقی اولادیں عوام الناس میں اپنی حیثیت کھو چکی ہیں یا انہیں عظیم شہداء سے منسوب نہیں کیا جاتا ہے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شخصیت بھی الحمداللہ اس مقام پر ہے کہ ان کا  پاکستانی معاشرہ میں غیر معمولی احترام ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے اہل خانہ، قریبی ساتھیوں، براہِ راست شاگردوں اور ان کی اجتماعی سرگرمیوں میں ہم رزم و ہم بزم دوستوں کی بھی پہلی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان سے ایسی کوئی بات واقعہ یا نظریہ منسوب نہ کریں، جو حقیقت سے عاری، سیاق و سباق سے محروم اور ناپختہ اور ادھوارا ہو۔ یاد رکھنے والی بات ہے کہ حدیث مبارکہ میں منافق کی جو تین نشانیاں بتائی گئی ہیں، یعنی منافق جھوٹ بولتا ہے۔ امانت میں خیانت کرتا ہے اور وعدہ خلافی کرتا ہے، وہ نشانیاں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے قربت، دوستی اور خونی رشتے کے دعوے داروں اور شہید کے افکار و نظریات کی پاسداری کے دعوے داروں کے لئے بھی لازم اور ضروری ہیں کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے بارے میں جھوٹ نہ بولا جائے، انہوں نے جو امانتیں سپرد کی ہیں، ان میں خیانت نہ کی جائے (شہید کی امانتوں میں وہ تنظیمیں اور امور بھی ہیں، جو وہ آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے چھوڑ گئے ہیں) اور ان سے کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک قومی سرمایہ تھے۔ قومی سرمائے کی حفاظت تمام قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ شہید کی زندگی اور ان کا عمل و کردار قوم کی ترقی و پیشرفت، عزت و وقار اور عظمت و سربلندی کیلئے تھا۔ ان کے نام اور ان کی ہستی کو بھی اسی مقصد اور ہدف کیلئے استعمال کیا جائے۔ آخر میں یہ نکتہ عرض کرتا چلوں کہ میرے جیسے افراد نہ تو اپنے آپ کو شہید کا ''رفیق خاص، قریبی ساتھی، دیرینہ دوست'' یا اس طرح کے کسی لقب کے اہل سمجھتے ہیں، البتہ کچھ وقت گزارنے کا موقع ضرور نصیب ہوا۔ جس سے کچھ سیکھنے کی کوشش ضرور کی، جو ہماری زندگی کا سرمایہ ہے۔ آج یہ بات تحریر و تقریر میں ببانگ دہل کہہ رہا ہوں کہ اگر میری ذات میں کوئی معمولی سی بھی اچھی بات ہے تو شہید ڈاکٹر کی عطا کردہ ہے اور ایسے تمام افعال و کردار جو ذاتی اور اجتماعی حوالے سے منفی اور ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں، انہیں کسی بھی حوالے سے شہید سے نسبت دینا نہ صرف شرعی اشکال کا حامل ہے بلکہ اسے ہرگز قابل قبول اور شائستہ اقدام بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی وصیت میں کچھ احباب کا نام لے کر اچھے پیرائے میں ذکر کیا ہے اور ان کیلئے بہت اچھے الفاظ استعمال کئے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ شہید نے اپنی زندگی میں ان کے اس کردار کی تعریف کی ہے۔ شہید کی شہادت کے بعد اگر خدانخواستہ ان میں منفی تبدیلی رونما ہوچکی ہے تو وصیت اس کی ڈھال نہیں بن سکتی، البتہ شہید نے بشمول ناچیز کے جن افراد کو اچھے الفاظ سے یاد کیا ہے، وہ شہید کی وصیت کا خیال رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ویسا ہی رکھیں بلکہ اس سے بہتر بنائیں، جو شہید ان سے توقع رکھتے تھے۔ (یاد رہے اس تحریر میں کسی فرد یا گروہ کو سامنے رکھ کر تنقید نہیں کی گئی ہے، ایک مجموعی تأثر ہے جس کو بیان کیا گیا ہے، جو غلط بھی ہوسکتا ہے) ڈاکٹر صاحب کی یاد میں ان چند اشعار کے ساتھ معروضات تمام کر رہا ہوں۔
ستارہ ہوں مگر یوں ہے، چمکنا بھول، بیٹھا ہوں
میں خود اپنے تعارف کا حوالہ بھول بیٹھا ہوں
جسے مدنظر رکھ کر میں چلا تھا جانب منزل مگر
سفر کے درمیان وہ ستارہ بھول بیٹھا ہوں
ابھی مصروف ہوں کافی، کبھی فرصت میں سوچوں گا
کہ تجھ کو یاد رکھنے میں، میں کیا کیا بھول بیٹھا ہوں
نہ جانے کیا دکھائے گی یہ میری کم نگاہی بھی
گذشتہ یاد رکھتے ہیں، میں فردا بھول بیٹھا ہوں


خبر کا کوڈ: 922303

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/922303/شہید-ڈاکٹر-محمد-علی-نقوی-چند-معروضات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org