0
Friday 19 Mar 2021 17:14

این اے 249، عمران خان نے اولین الیکشن 1997ء میں اسی حلقے سے لڑا

این اے 249، عمران خان نے اولین الیکشن 1997ء میں اسی حلقے سے لڑا
رپورٹ: ایم رضا

وزیراعظم عمران خان نے 1997ء میں کراچی میں چراغ کے انتخابی نشان سے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا، جن میں سے ایک حلقے کے بہت سے علاقے اب این اے 249 میں شامل ہیں۔ آج کے این اے 249 اور ماضی کے این اے 184 میں فرق صرف اتنا ہے کہ بڑھتی آبادی کے تناظر میں حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کی اس نشست کو بتدریج تقسیم کر دیا گیا، مگر 24 سال پہلے بلدیہ ٹاؤن، میٹروول، مومن آباد کے کچھ علاقے، کیماڑی، سلطان آباد اور دیگر علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کا یہ حلقہ این اے 184 تھا، جہاں سے عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے اپنی زندگی کے پہلے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ ماضی کے اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ کے امیدوار لگاتار 2 مرتبہ کامیاب ہوئے تھے، مگر پھر یہ نشست ایم کیو ایم کے پاس چلی گئی تھی اور 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے فیصل واوڈا نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو سخت مقابلے کے بعد شکست دے کر ایوان زیریں کے رکن منتخب ہوئے تھے، اس طرح یہ حلقہ 4 جماعتوں کے پاس رہا ہے مگر آج بھی اس کی حالت پسماندہ ہے۔

1997ء کے عام انتخابات کا جائزہ لیں تو اس وقت بھی قومی اسمبلی کے ماضی کے حلقے این اے 184 سے اہم امیدواروں نے حصہ لیا تھا مگر مسلم لیگ (ن) کے میاں اعجاز احمد شفیع نے 35 ہزار 451 ووٹ لے کر فتح حاصل کی تھی جبکہ ان کے مقابلے پر حق پرست گروپ (ایم کیو ایم) کے محمد عرفان خان نے 32 ہزار 668 لے کر دوسری اور پیپلز پارٹی کے میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر 23 ہزار 512 ووٹ حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان محض 2037 ووٹ حاصل کرسکے تھے، ان کے خلاف انتخابات لڑنے والوں کو گمان بھی نہیں تھا کہ وہ مستقبل کے وزیراعظم کے مقابلے پر ہیں۔ اسی طرح نصیر اللہ بابر بھی بعد میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر داخلہ بنے۔

1997ء کے انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ (ج) چھٹہ گروپ کے ایس مجاہد بلوچ نے 2705 ووٹ لئے تھے، مگر بعد میں انہی علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے سے ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر ان کے صاحبزادے سلمان مجاہد بلوچ نے کامیابی حاصل کی تھی، موجود پی ٹی آئی کے رہنماء سبحان علی ساحل نے اس وقت پختونخواہ قومی پارٹی کے ٹکٹ پر اس حلقے سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ آزاد امیدوار علی سنارا کو بھی بہت سے لوگ بھولے نہیں ہونگے۔ اسی حلقے یعنی این اے 184 پر 1993ء کے عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ نون کے میاں اعجاز احمد شفیع نے 32 ہزار 937 ووٹ لے کر کامیابی سمیٹی تھی، پیپلز پارٹی کے امیدوار سید مسرور احسن 32 ہزار 671 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔

یہی وہ ووٹ بینک یا وجوہات تھیں جن کی بناء پر میاں شہاز شریف نے این اے 249 سے 2018ء کے انتخابات میں حصہ لیا تھا مگر وہ 723 ووٹ کے فرق سے ہار گئے تھے۔ اس حلقے کا ضمنی انتخاب انتہائی اہم ہوچکا ہے، کیونکہ کم از کم 3 جماعتوں یا اتحاد کو یہاں سے اپنے امیدواروں کی کامیابی کی امید ہے، کئی جماعتوں کے اہم امیدوار میدان میں آچکے ہیں۔ رمضان المبارک کی وجہ سے تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان الیکشن کمیشن سے درخواست کرچکی ہیں کہ ضمنی انتخاب کی تاریخ کو آگے بڑھایا جائے، ابھی ان درخواستوں پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

1997ء میں عمران خان کا نعرہ ’’نئے چہرے نیا نام، اقتدار میں عوام‘‘ تھا
1997ء میں عمران خان کا نعرہ نئے چہرے نیا نام۔ اقتدار میں عوام تھا، اس وقت این اے 184 کی نشست پر عمران خان جبکہ پی ایس 73 پر ڈاکٹر اعجاز علی شاہ، پی ایس 74 پر ایاز گوہر تنولی ایڈووکیٹ اور پی ایس 75 پر انجینئر اکبر بادشاہ امیدوار تھے۔

جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں میں ووٹوں کا فرق صرف چند سو کا رہا
این اے 249 یا این اے 184 سے الیکشن میں جیتنے اور ہارنے والے کچھ امیدواروں میں ووٹ کا فرق صرف چند سو کا رہا ہے۔ شہباز شریف این اے 249 سے 2018ء میں 723 ووٹ سے شکست کھائی۔ 1993ء میں مسلم لیگ نون کے اعجاز احمد شفیع پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں صرف 266 ووٹ کے فرق سے کامیاب ہوئے تھے۔ 1997ء میں اعجاز شفیع نے دوبارہ کامیابی حاصل کی اور ایم کیو ایم کے امیدوار 2 ہزار 783 کے فرق سے دوسرے نمبر پر رہے گے۔

1997ء میں پی ٹی آئی نے چراغ کے نشان پر انتخابات میں حصہ لیا
کسی بھی جماعت کے لئے انتخابی نشان انتہائی اہم ہوتا ہے، لیکن ملک کی بڑی جماعتیں ایسی بھی ہیں، جن کی ابتدائی انتخابی نشان بعد میں بدل گئے، ان میں پاکستان تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ پی ٹی آئی نے 1997ء میں چراغ کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لیا تھا، اس وقت پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا نہیں تھا۔

حلقے سے لڑنے والے شہباز، عمران،نصیر بابر کا تعلق دیگر صوبوں سے تھا
این اے 249 یا این اے 184 کی نشست پر انتخابات میں حصہ لینے والوں میں سے کچھ کا تعلق صرف کراچی ہی سے نہیں بلکہ سندھ سے بھی نہیں تھا، جن میں شہباز شریف، عمران خان اور میجر جنرل نصیر اللہ بابر بھی شامل ہیں۔ اس کی وجہ اس حلقے میں بسنے والی اکائیاں تھیں۔ تمام امیدواروں کو امید تھی کہ زبان، علاقے اور برادری کی بنیاد پر انھیں ووٹ ملیں گے۔

نوجوانوں کو عمران خان پر پورا بھروسہ تھا، دوا خان صابر
1997ء میں پی ٹی آئی کے ایک رہنماء دوا خان صابر اس وقت ابراہیم علی بھائی اسکول میٹروول کے پولنگ اسٹیشن میں پی ٹی آئی کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ دوا خان صابر کہتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جس پولنگ بوتھ کا ایجنٹ تھا، وہاں عمران خان کو 183 ووٹ ملے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت لوگ ہمارا مذاق اڑاتے تھے، مگر نوجوانوں کو عمران خان پر پورا بھروسہ تھا، دوا خان صابر کے ایک عزیز انجنیئر اکبر بادشاہ اسی علاقے کی صوبائی نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار تھے جبکہ نجیب ہارون اس وقت عمران خان کی انتخابی مہم کے سربراہ تھے۔

این اے 249 کا ضمنی انتخاب بھی 97ء کی طرح رمضان میں ہوگا
1997ء کے عام انتخابات بھی رمضان المبارک میں ہوئے تھے اور آج کے این اے 249 میں بھی ضمنی انتخاب کی پولنگ 29 اپریل کو ہوگی اور اسلامی کلینڈر کے اعتبار سے یہ انتخاب رمضان المبارک کے وسط میں ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 922385
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش