0
Friday 19 Mar 2021 19:00
عدم تحریف قرآن، تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ

 وسیم رضوی کی منگھڑت باتیں

عدم تحریف قرآن کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ
 وسیم رضوی کی منگھڑت باتیں
تحریر: فدا حسین ساجدی

وسیم رضوی کی من گھڑت باتوں کی وجہ سے جہاں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوا، وہاں قرآن مجید کی اصالت اور عدم تحریف کے حوالے سے عام لوگوں کے ذہنوں میں کچھ شکوک و شبہات پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ اگرچہ قرآن مجید نے صریح طور پر چیلنج کیا ہے کہ اگر پوری دنیا والے اکٹھے ہو جائیں تو ایک سورۃ بھی بنانے سے قاصر ہیں اور یہ بات پوری تاریخ سے ثابت ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسلام دشمن عناصر کی طرف سے قرآن مجید اور دین حق کے خلاف ہر قسم کے اقدامات سے کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی ہے، لیکن ان تمام ناپاک عزائم اور خبیثانہ اقدامات کے باوجود کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ بقول شاعر
نور حق شمع الہی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون


وسیم رشدی جیسے ایرے غیرے لوگوں کی کیا حیثیت ہے، جو قرآن کے بارے میں شبہات پیدا کرکے مسلمانوں کے مضبوط عقیدے کو تزلزل میں ڈالے۔ ان دو پہلووں کے حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے، ایک مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق، پیار و محبت کی فضا قائم رہے، جس کے لئے تمام فرقوں کے علماء اور بااثر شخصیات بیداری اور بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے دشمن عناصر کی ناپاک سازشوں کو پھر سے دوبارہ خاک میں ملا دیں۔ دوسری طرف جہاں قرآن مجید کی عدم تحریف کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ واضح طور پر جوانوں کے سامنے لایا جائے، تاکہ شبہات کا احتمال وجود میں نہ آئے۔ اس حوالے سے کچھ نکات غور طلب ہے۔

1۔ وسیم رضوی نے کہا تھا کہ قرآن کیونکہ تین خلفاء کے دور میں کتاب کی شکل میں آیا ہے، اس وجہ سے ان کے توسط سے قرآن میں کچھ آیات کا  اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے اور شیعہ عقیدہ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں، کیونکہ شیعوں کے نزدیک قرآنی آیات، روایات اور تاریخی حقایق کی روشنی میں موجودہ قرآن جو تمام مسلمانوں کے پاس ہے، وہی آسمانی کتاب ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی تھی اور اس میں کسی قسم کی کمی یا اضافہ نہیں ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ شکل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی وجود میں آئی تھی۔

جن شیعہ علماء کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ شکل خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں وجود میں آئی ہے، ان میں ابوالقاسم عبدالحی بن احمد بلخی خراسانی (وفات ۳۱۹)، ابوبکر انباری (وفات ۳۲۸)، سید مرتضیٰ علم الهدی، حاکم جِشُمی (وفات  ۴۹۴)، محمود بن حمزه کرمانی (وفات  حدود ۵۰۵)، فضل بن حسن طبرسی (وفات  ۵۴۸)،  سید بن طاووس (وفات ۶۶۴)، سید عبدالحسین شرف‌ الدین (وفات  ۱۳۷۷)، آیت الله حسین طباطبائی بروجردی (وفات ۱۳۴ ش)  آیت الله خویی (وفات ۱۴۱۲). و غیرہ شامل ہیں۔ ان علماء کے نظریہ کے مطابق یہ کہنا کہ قرآن خلفاء کے دور میں جمع ہوا ہے، کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔

2۔ وہ علماء جن کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کی موجودہ شکل خلفاء کے دور میں وجود میں آئی ہے، ان کا بھی نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ہے، کچھ علماء کا نظریہ یہاں نقل کرتے ہیں۔ شیخ صدوق اس حوالے سے فرماتے ہیں: ہم شیعوں کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ قرآن جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے، یہی قرآن ہے، جو آج ہمارے پاس ہے، جس میں 114 سورہ ہیں، اس میں کسی قسم کی کمی اور پیشی نہیں ہوئی ہے۔ آیت اللہ بروجردی اس حوالے سے فرماتے ہیں: اگر کسی کو اس دن کے اسلامی معاشرے  کی صورتحال اور اسلام کی تاریخ کا صحیح علم ہو اور وہ پورے قرآن کے تحفظ اور حفاظت میں مسلمانوں کی جدوجہد کو سمجھتا ہو تو، نظریہ تحریف کو قبول کرنا ناممکن ہے۔

3۔ اہل سنت کے معروف علماء نے شیعوں کے تحریف کا قائل نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے، ان میں اشعری مکتب کے بانی ابوالحسن علی ابن اسماعیل اشعری ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شیعہ علماء میں سے جو حقیقی معنوں میں اہل تحقیق اور صاحب نظر ہیں، وہ تحریف قرآن کے منکر ہیں اور وہ قرآن میں کمی اور اضافہ دونوں حوالے سے تحریف کی نفی کرتے ہیں۔

4۔ شاید مسلمانوں کے درمیان کچھ ایسے افراد ملیں، جو قرآن میں کمی کے قائل ہوں، لیکن قرآن میں اضافہ نہ ہونے کے حوالے سے تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ لہذا وسیم رضوی کی باتیں سو فیصد منگھڑت ہیں، ان باتوں کا نہ صرف کوئی مسلمان عالم بلکہ عام آدمی بھی قائل نہیں ہے۔ ساری باتیں بے بنیاد اور کلام الہیٰ کو نہ سمجھنے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

5۔ قرآن جس طرح جمال الہیٰ کی ترجمانی کرتا اور پیار و محبت، عدل و انصاف اور مساوات و برابری کا پیغام لاتا ہے، اسی طرح جلال خداوندی کا بھی مظہر ہے۔ اس لئے ظالم، جابر اور فاسد و فاجر لوگوں کے ظلم و بربریت، فساد و ناانصافی سے روک تھام کیلئے مضبوط اصول و قوانین پر بھی مشتمل ہے، جبکہ رحمت و شفقت ہمیشہ قہر و جلال پر غالب ہے۔ لہذا جن آیات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کی صیحح تفسیر اور تشریح کی جائے تو نہ صرف انسان کے ضرر میں نہیں بلکہ تمام بشریت کی فلاح و بہبودی اور سعادت و کامیابی انہی آیات شریفہ پر عمل پیرا ہونے میں پوشیدہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 922406
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش