1
Saturday 20 Mar 2021 18:16

امریکہ مشرقی ایشیا میں عدم استحکام کی پالیسی پر گامزن (حصہ اول)

امریکہ مشرقی ایشیا میں عدم استحکام کی پالیسی پر گامزن (حصہ اول)
تحریر: حسین روحانی فرد
 
مشرقی ایشیا خطے میں چین کا اثرورسوخ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ ہر حال میں اس خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کا خواہشمند ہے لہذا اس مقصد کے حصول کیلئے چین اور شمالی کوریا کو خطے کیلئے ایک خطرے کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔ امریکہ مختلف بہانوں کے ذریعے مشرقی ایشیا خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے۔ این بہانوں میں سے ایک اپنے علاقائی اتحادی ممالک کی قومی سلامتی کے بارے میں اظہار تشویش ہے۔ اسی طرح مشرقی ایشیا خطے میں اپنے اتحادی ممالک کو جدید فوجی ہتھیار اور سازوسامان فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دینا بھی ایسا ہی ایک بہانہ ہے۔ مختلف علاقوں میں اپنی فوجی اور سیاسی موجودگی کیلئے بہانے تراشنا امریکہ کی ایک پرانی ریت رہی ہے۔
 
مشرقی ایشیا خطے میں موجود رہنے کیلئے امریکہ کا ایک اور ہتھکنڈہ خطے کے ممالک میں دوریاں پیدا کر کے عدم استحکام کو فروغ دینا ہے۔ حال ہی میں (منگل 16 مارچ 2021ء) امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن اور امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے پہلے بیرون ملک دورے کے طور پر جاپان اور اگلے روز جنوبی کوریا کا سفر کیا ہے۔ یہ دورہ ایشا میں اپنے روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کی غرض سے انجام پایا ہے۔ اس دورے میں امریکی وزیر خارجہ نے شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے عاری کرنے کیلئے اتحادی ممالک کی مدد سے نئی کوششیں شروع کرنے کا اعلان کیا جس کے باعث خطے میں ایک بار پھر شدید تناو پیدا ہو گیا ہے۔ جاپان میں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے جاپانی ہم منصب افراد کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔
 
اس پریس کانفرنس میں انہوں نے زیادہ تر توجہ چین پر مرکوز رکھی۔ گذشتہ برسوں میں امریکہ اور مشرقی ایشیا میں اس کے اتحادی ممالک براہ راست چین کے بارے میں موقف کا اظہار کرنے سے گریز کرتے تھے لیکن اس بار ان کی جانب سے واضح طور پر چین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکی اور جاپانی وزرائے خارجہ اور دفاع نے اس پریس کانفرنس میں واضح طور پر چین کو خطے میں عدم استحکام کا باعث قرار دیا۔ اگرچہ انہوں نے سینکاکو جزائر سے متعلق چین اور جاپان کے درمیان جاری چپقلش کی جانب اشارہ نہیں کیا لیکن چین کے خلاف نئے ایشوز سامنے لائے جن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی اور ہانگ کانگ میں چین کی قومی سلامتی کے قانون کا اجراء شامل ہیں۔
 
پریس کانفرنس کی روشنی میں، نیز امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر امریکی حکام کی واضح تاکیدات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن چین کو اپنی واحد حریف عالمی طاقت تصور کرتا ہے اور اس سے مقابلہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ مذکورہ بالا پریس کانفرنس کا مقصد بھی چین کے مقابلے میں اپنے اتحادیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا۔ دوسری طرف جاپان امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے دورہ ٹوکیو کو چین کیلئے ایک اہم پیغام تصور کر رہا ہے لہذا دونوں ممالک کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیانیے میں کھل کر چین کے نام کا اظہار حالیہ نشست کا گذشتہ نشستوں سے بنیادی فرق قرار دیا جا رہا ہے۔ حتی جاپان کے بعض میڈیا ذرائع نے اس نشست کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ چین سے مقابلے کے نئے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔
 
لہذا جاپان میں جاپانی اور چینی ساحلی گارڈز کے درمیان تناو اور ٹکراو میں مزید شدت پیدا ہونے کے بارے میں بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکہ کھل کر اپنی اس خواہش کا اظہار کر رہا ہے کہ اس کے علاقائی اتحادی ممالک کو خطے میں اپنا اثرورسوخ اور سرگرمیاں بڑھا دینی چاہئیں۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ جاپان، شمالی کوریا اور چین کا مقابلہ کرنے کی غرض سے اپنے جزیروں میں امریکی میزائل سسٹم نصب کرنے کی اجازت دے دے گا۔ ہو سکتا ہے روس اس فیصلے کی مخالفت کرے لیکن امریکہ کا اتحادی ہونے کے ناطے جاپان کو اس مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں ہو گی۔ اسی طرح جاپان روس کے بلاک میں شامل ہونے کی خواہش بھی نہیں رکھتا۔
 
امریکی حکومت اس قسم کے فریبکارانہ سیاسی اقدامات کے ذریعے اپنے اتحادی ممالک کو حقیقت کے برخلاف یہ یقین دلانا چاہتی ہے کہ نئے امریکی صدر کے برسراقتدار آنے کے بعد سفارتکاری کے ذریعے سیاسی اہداف کا حصول دوبارہ اس کی پہلی ترجیح بن چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے اپنے اتحادی ممالک بھی امریکی حکومت کے نامعقول اور غیر منطقی اقدامات اور رویوں کے باعث امریکہ پر اعتماد کھو چکے تھے۔ لہذا اب جو بائیڈن اپنے اتحادیوں کا اعتماد دوبارہ بحال کرنے کے خواہاں ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی گذشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن کا کواڈ گروپ کے رکن ممالک (جاپان، انڈیا، آسٹریلیا) سے آنلائن کانفرنس کا انعقاد تھا۔    (۔۔۔۔۔۔ جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 922580
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش