1
1
Saturday 20 Mar 2021 22:30

شہیدوں کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں

شہیدوں کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

آج کلاس میں عجیب صورتحال پیدا ہوگئی، نہ میں نے یہ سوچا تھا اور نہ ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کلاس میں سٹوڈنٹس رونے لگیں اور استاد کے ضبط کا بندھن بھی ٹوٹنے ہی والا ہو۔ ایک ماہ پہلے مجھے کہا  گیا کہ آپ نے بی ایس کی بچیوں کو  لکھنا سکھانا ہے، میرا یہ طریقہ ہے کہ کلاس کے وقت کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں، ایک حصہ میں بولتا ہوں اور بچیاں سنتی ہیں، دوسرا حصہ بچیوں کے بولنے کا ہوتا ہے۔ میں انہیں کوئی نہ کوئی موضوع دے دیتا ہوں اور وہ اس پر لکھ کر لے آتی ہیں، کلاس میں سنا دیتی ہیں اور میں اس پر اپنی رائے کا اظہار کر دیتا ہوں۔ اس طرح ہر ماہ ہر بچی چار مختلف مضامین خود سے لکھ لیتی ہے اور سمسٹر میں ان کی اپنی تخلیقی تحریروں کی تعداد بیس کے قریب ہو جاتی ہے۔ پچھلی کلاس میں ایسے ہی میرے ذہن میں یہ موضوع آیا کہ اپنی زندگی کے مشکل ترین دن پر مضمون لکھ کر لائیں۔ ایسے موضوعات دیتا ہوں کہ ہر بچی الگ سے لکھ کر لائے اور کاپی پیسٹ کی بھی کوئی گنجائش نہ ہو۔

خیر آج کلاس میں بچیوں نے اپنے اپنے مضامین پڑھنا شروع کیے تو میں حیران ہو رہا تھا کہ میرے ذہن میں تو امتحانات کا دن، پیسے گم ہو جانے کا دن اور اس طرح کے چھوٹے موٹے موضوعات تھے، مگر ہر بچی منفرد موضوع پر لکھ کر لائی تھی۔ کسی نے دادی اماں کی موت پر لکھا تو کسی نے نانا ابو کے آخری دیدار کا تذکرہ کیا، کوئی ماں کی رکتی دھڑکنوں اور کم ہوتی امیدوں کو یاد کر رہی تھی اور کسی نے ایکسیڈنٹ کو مشکل ترین دن بتایا۔ سچی بات میں حیرت سے سنے جا رہا تھا اور دل ہی دل میں پشیمان بھی ہو رہا تھا کہ میں نے ایسا موضوع کیوں دیا، جس پر پوری کلاس کا ماحول غمگین ہوگیا ہے۔

ایک طالبہ نے اپنے انکل کی شہادت کا ذکر کیا، جو دیگر بارہ لوگوں کے ساتھ شہید کر دیئے گئے تھے اور جب بارہ لاشیں ایک ہی گاوں میں پہنچی تھیں تو قیامت کا منظر تھا۔ کچھ گھر تو ایسے تھے، جن میں تین تین لاشیں آئی تھیں، چھوٹے سے گاوں میں تو دو لوگوں کی وفات سانحہ ہوتی ہے۔ ایک بچی نے محرم کے جلوس پر حملے کے سانحہ کو اپنی زندگی کا سب سے مشکل دن بتایا، جب جلوس میں دھماکہ ہوا اور ہر طرف افراتفری کا عالم ہوگیا اور کوئی ہسپتال اور امام بارگاہ تک جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ پھر امام بارگاہ میں شہداء کی ماوں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کی آہ بکا  اور بہتے آنسو نہ بھولنے والے لمحات ہیں۔

ایک بچی نے اپنے انیس سال کے بھائی کی شہادت کا واقعہ سنایا کہ وہ ٹریننگ مکمل کرکے سیاچین پر تعینات ہوا اور کچھ ہی دنوں بعد اطلاع آئی کہ بارڈر پر برفانی تودہ گرا ہے اور بہت سے فوجی جوان شہید ہوگئے ہیں۔ ویسے گھر والوں کے لیے وہ لمحات بہت مشکل ہوتے ہیں، جب حادثہ ہوچکا ہو اور اپنے پیاروں کی کوئی خیر خبر نہ ہو۔ وہ لمحات تو قیامت کے ہوتے ہیں، جب کسی بہن کو پتہ چلے کہ اس کا بھائی شہید ہوگیا ہے اور اس کی لاش لائی جائے گی۔ یہ وہ مقام تھا، جہاں پر پہنچ کر بہن  اپنے لکھے کو پڑھ نہ سکی اور ضبظ ٹوٹ گیا۔ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپٹ کر کڑیل فوجی جوانوں کی سلامی کے ساتھ لاش کو قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا، مگر وہ جذبات آج بھی زندہ ہیں، جو ایک بہن اور بھائی کی پاکیزہ محبت کے امین ہوتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی کلاس کا ماحول جذباتی ہوگیا، میں حیران ہو رہا تھا کہ ان بچیوں پر ان حادثات نے کتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور وہ آج بھی ان ایام کو یاد رکھے ہوئے اس دن کا ایک ایک لمحہ انہیں یاد ہے۔ وطن کے دفاع میں شہید ہونے والے اور وطن دشمنوں کی سازشوں سے وطن میں شہید ہونے والے عام لوگ ہمارے وہ ہیرو ہے، جنہوں نے اپنی جان دے کر دشمن کی گولیوں کو ہم تک پہنچنے سے روکا۔ دہشتگردی میں شہید ہونے والے نہتے لوگ جنہیں فقط ان کے مسلک کی بنیاد پر شہید کیا گیا وہ اپنے خون سے اس وطن کی بنیاد کو استحکام دے گئے۔ شہداء کا خون قوم کے لیے روح حیات ہے، وطن، مذہب اور قوم کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے والے لوگ اپنی جان قربان کرکے ہمیں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ دے جاتے ہیں۔ ہر علاقے میں موجود شہداء کی قبور دیگر قبور سے ممتاز ہوتی ہیں، کیونکہ وہ تو ایسا رزق پاتے ہیں، ہم جس کا شعور بھی نہیں رکھتے۔

بچیوں کو بتا رہا تھا کہ مر تو ایک دن سب نے جانا ہی ہے، جب ایسا ہی ہے تو شہادت کتنی خوبصورت موت ہے، جس سے زندگی کا اختتام ہو۔ ان ماوں، بہنوں، بیویوں اور بیٹیوں کو سلام جو سنت زینبیؑ پر عمل کرتے ہوئے شہادت کو کمزوری نہیں طاقت بنائے ہوئے ہیں۔ کوئی ان ستم گروں کو بتائے کہ تمہاری گولیاں ایک جسم پر نہیں چلتیں بلکہ کئی بہنوں کے جذبات، کئی سہاگنوں کے احساسات اور کئی بیٹیوں کے سہاروں پر بھی گولیاں چل جاتی ہیں۔ تم گولی چلا کر بھول جاتے ہو مگر ان کی زندگیاں انہیں یاد کرتے گزر جاتی ہیں۔ میں اسلام آباد کے ایک ادارے میں پڑھا رہا تھا، جہاں چوبیس بچیوں کی کلاس میں سے تین بچیوں کا تعلق براہ راست شہداء سے تھا۔

پچھلے کئی گھنٹے سے سوچ رہا ہوں کہ ہزارہ ٹاوں کوئٹہ میں کیا عالم ہوگا؟ جب ممکن ہے کوئی بچی روتے ہوئے بتائے سر میرے والد، میرا بھائی، میرا ماموں، میرے چچا سب شہید ہوچکے ہیں۔ یہ کوئی افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ ابھی کوئٹہ میں ہونے والے واقعہ میں دنیا بھر کے میڈیا نے اس بہن کا انٹرویو چلایا تھا، جو کہہ رہی تھی ہم اپنے بھائی کو خود دفن کریں گی، کیونکہ اب ہمارے گھر میں کوئی مرد باقی نہیں رہا۔ شہداء کا ذکر بھی کیا برکت رکھتا ہے؟ ابھی لکھ ہی رہا تھا کہ شہید کے بیٹے اور شہید کے بھائی انکل سید یاور نقوی صاحب کا فون آیا، شائد کوئی بیس سال بعد ان سے بات ہوئی۔ اس کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے وہ دن گھومنے لگا، جب پورا ساہیوال سنسان پڑا تھا اور ہر طرف ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ ظالموں نے سید عابد حسین ایڈووکیٹ اور سید  حیدر عباس ایڈووکیٹ کو شہید کر دیا۔
خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را
خبر کا کوڈ : 922638
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Ume Rubab
Pakistan
Agha shab mn b ap ki student hun khoda ap ko hamisha sàlmt rakhy .ap Jo dars dety kharan ko
wo bht acha hai
Allah Pak sy dua h k hamin b sodha k naqsy qdm py chlny ki tofeeqat ata frmy
منتخب
ہماری پیشکش