1
Sunday 21 Mar 2021 19:13

کمزور ہوتی ہوئی تحریک لبیک۔۔۔۔۔۔

کمزور ہوتی ہوئی تحریک لبیک۔۔۔۔۔۔
رپورٹ: سید عدیل زیدی
 
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) تحریک لبیک یارسول اللہ (ص) نامی مذہبی جماعت کا سیاسی ونگ ہے، تحریک لبیک یارسول اللہ (ص) کی بنیاد مرحوم علامہ خادم حسین رضوی نے رکھی، بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی یہ جماعت باقاعدہ طور پر 2017ء میں عوامی سطح پر منظم انداز میں منظر عام پر آئی، قبل ازیں پیپلز پارٹی دور حکومت میں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی پھانسی سے پہلے خادم حسین رضوی نے پلیٹ فارم تشکیل دیا، جو کہ ممتاز قادری کی رہائی کے لیے متحرک رہا، پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کے بعد خادم حسین رضوی نے تحریک لبیک یارسول اللہ (ص) کی بنیاد رکھی، جس سے ملک کے اہم مذہبی رہنماء منسلک ہوئے اور ایک مذہبی جماعت قائم کی گئی، جسے پیر افضل قادری نے تحریک لبیک یارسول اللہ کا نام دیا۔ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کو پارٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا جبکہ علامہ خادم حسین رضوی کو پارٹی کا سرپرست اعلیٰ اور پیر افضل قادری کو سرپرست بنا دیا گیا، آہستہ آہستہ کئی گدی نشینوں، آستانوں اور درگاہوں کے متولین کی حمایت بھی تحریک لبیک کیساتھ ہوگئی۔

یہ تحریک لبیک پاکستان ہی تھی جس نے اسلام آباد کے ڈی چوک پر 2016ء کو ممتاز قادری کے چہلم کے سلسلے میں 4 روزہ دھرنا دیا۔ علامہ خادم حسین رضوی کی جانب سے تحریک لبیک یارسول اللہ (ص) کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرانے کی کوشش کی گئی، تاہم کمیشن نے پارٹی کے تجویز کردہ نام پر اعتراض کیا، جس کے بعد ڈاکٹر جلالی اور خادم حسین رضوی کے درمیان اختلافات بڑھنے لگے، دونوں نے اپنے راستے جدا کر لیے، جس کے بعد علامہ خادم حسین رضوی اور دیگر کی مشاورت سے جماعت کے سیاسی ونگ نام تحریک لبیک پاکستان رکھا اور اسے الیکشن کمیشن نے رجسٹرڈ بھی کر لیا۔ تحریک لبیک کی عوامی مقبولیت اور اس تیزی کیساتھ ہونے والی فعالیت کی وجوہات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ختم نبوت (ص) اور حرمت رسول (ص) کا معاملہ سرفہرست نظر آتا ہے، علامہ خادم رضوی مرحوم نے اپنے مخصوص انداز میں اس تحریک کو عوامی سطح پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

علامہ خادم رضوی کے انداز خطابت، تقاریر میں بعض اوقات غیر شائستہ اور سخت الفاظ کے استعمال کو اکثر انہی کے ہم مسلک علماء نے پسند نہ کیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ختم نبوت (ص) کے معاملہ پر علامہ مرحوم کی آواز نے حکومتی ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ تحریک لبیک پاکستان نے الیکشن ایکٹ-2017ء میں مبینہ طور پر ختم نبوت کے کالم میں ہونے والی ترمیم کے خلاف اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا، یہی دھرنا تحریک لبیک کو عوامی سطح پر ایک شناخت کیساتھ متعارف کرانے کیوجہ بنا۔ یہ دھرنا 20 روز تک جاری رہا اور آخرکار پولیس کے ناکام آپریشن کے بعد فوج کی مداخلت پر دھرنا ختم ہوا، تاہم حکومت کو مظاہرین کے متعدد مطالبات تسلیم کرنا پڑے۔ اسی سال یعنی 2017ء میں تحریک لبیک پاکستان کے حمایت یافتہ اُمیدواروں نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیکر اپنے سیاسی سفر کا بھی باقاعدہ آغاز کیا۔ بعدازاں ٹی ایل پی نے 2018ء کے عام انتخابات میں ملک کے مختلف علاقوں سے باقاعدہ طور پر حصہ لیا۔

تحریک لبیک پاکستان بالخصوص پنجاب میں ایک مضبوط عوامی، مذہبی و سیاسی قوت بن کر ابھری، جس نے 2018ء کے الیکشن میں بلاشبہ مسلم لیگ نون کے ووٹ کو اچھا خاصا نقصان پہنچایا، شائد یہی وجہ تھی کہ نون لیگ ’’مخالف قوتوں‘‘ نے ٹی ایل پی کے راستہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ کھڑی کی، اگر یہ کہا جائے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی نون لیگ کے مقابلہ میں کم مارجن سے فتح میں ٹی ایل پی کا کسی نہ کسی طرح کردار ہے تو غلط نہ ہوگا۔ نومبر 2020ء میں ایک مرتبہ پھر علامہ خادم رضوی کی جماعت نے اسی مقام پر دھرنا دیا، جو حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں ختم ہوا۔ علامہ خادم رضوی تحریک لبیک کو ایک مضبوط قوت بنانے میں کامیاب ہوچکے تھے، تاہم ان کی کورونا وائرس کے باعث وفات کے بعد تحریک لبیک پاکستان کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ گیا، مرحوم خادم رضوی کا لاہور میں تاریخی جنازہ ہوا، جب بات ان کے جانشین کی آئی تو تحریک میں اس حوالے سے مسائل آنا شروع ہوگئے۔

پیر افضل قادری بھی خود کو ٹی ایل پی کے نئے سربراہ کے طور پر دیکھ رہے تھے، تاہم ’’دستار‘‘ علامہ خادم رضوی کے بیٹے سعد رضوی کے سر پر آئی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سعد رضوی اور انکے والد کی شخصیت میں بے پناہ فرق ہے، خادم رضوی اپنے کارکنوں اور چاہنے والوں کیلئے ایک عقیدتی منصب حاصل کرچکے تھے، سعد رضوی جیسے نوجوان کا اس اہم ذمہ داری کو سنبھالنا واقعاً کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ سعد رضوی کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ علمی اعتبار سے کوئی ٹھوس شخصیت نہیں اور نہ ہی ان کا درس نظامی مکمل ہے، اس کے علاوہ بھی سعد رضوی کی شخصیت کو مختلف حوالہ جات سے نشانہ بنایا گیا۔ علامہ خادم رضوی کی وفات کے بعد تحریک لبیک پاکستان یقینی طور پر کمزور ہوئی ہے۔ ذرائع نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا ہے کہ علامہ خادم رضوی کی وفات کے بعد کئی گدی نشین، درگاہوں اور آستانوں کے متولین نے بھی ٹی ایل پی سے باقاعدہ علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ کئی کارکنان بھی تحریک کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور علامہ خادم رضوی کے دور قیادت میں فعال رہنے والے بعض اہم رہنماء بھی سعد رضوی کی قیادت قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
خبر کا کوڈ : 922689
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش