0
Friday 26 Mar 2021 17:30

سید زکی الباقری کی باشعور اور باوقار انتظار پر مجلس سے اقتباس(1)

سید زکی الباقری کی باشعور اور باوقار انتظار پر مجلس سے اقتباس(1)
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان

شعور کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کریں گے۔ سورہ یونس کی آیت نمبر 102 میں ہے کہ "فَهَلْ يَنْتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ"۔ اب کیا یہ لوگ ان ہی دنوں کا انتظار کررہے ہیں جو ان سے پہلے والوں پر گزر چکے ہیں تو کہہ دیجئے کہ پھر انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔ شعور کو انگریزی میں consciousness کہتے ہیں جبکہ قرآن فھمی میں اس کو معرفت، درک، دریافت کہتے ہیں۔ عربی زبان خوبصورت ہے۔ شعور کی ابتدا شعار سے ہے جس کو بال کہتے ہیں۔ ہماری اردو میں بال سے زیادہ باریک استعمال ہوا ہے۔ شعور ان ڈیپتھ اسٹدی ہے، حو اس ظاہری کو مشاعر بھی کہتے ہیں۔ شعور کے معنی کانشسنیس یا اوررنیس کہتے ہیں۔ سیلف اورنیس اور سوشل اورنیس۔ انسان اپنے آپ سے واقف ہے۔ ایک سپرفیشل اورنیس ہے اور دوسری انڈیپتھ اورنیس ہے۔

قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی مشھور و معروف آیت نمبر 11 اور 12 میں ہے کہ "وَ إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ۔ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِنْ لَا يَشْعُرُونَ"۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ برپا کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں حالانکہ یہ سب مفسد ہیں اور اپنے فساد کو سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ پہلی پانچ مومنین، دو آیات کفار اور 13 آیات منافقین کے بارے میں ہیں۔ منافقین سے مراد جو ڈبل اسٹینڈرڈ رکھتا ہے وہ دوگانہ شعور رکھتا ہے۔ آج کی دنیا اس کو پیس میکر کہتی ہے۔ دنیا میں بڑی تباہی پیس میکر لائے ہیں۔ چوری اوپر سے سینہ زوری۔ یہ لوگ پیس میکر نہیں بلکہ فساد پھیلانے والے یہی ہیں۔ انسان اگر حقیقت میں انسان ہے تو اس کو متوجہ رہنا چاہیئے حقیقت کیطرف۔ شعور حواس میں رہے گا تو آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انسان اپنے نفس کے بارے میں بصیرت رکھتا ہے۔

سورہ قیامت کی آیت نمبر 14 اور 15 میں ہے کہ "بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ وَ لَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ" بلکہ انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر ہے. چاہے وہ کتنے ہی عذر کیوں نہ پیش کرے. انسان شعور سے آگے بصیرت رکھتا ہے۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ:
تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
وجود کیا ہے، فقط جوہرِ خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

اپنے ظاہری مفاد کو فُل فِل کرتا تھا۔ شعور معرفت پر گفتگو کریں گے۔ کسی بھی چیز کے وجود کو اصالت اجود اوریجن آف ایکسٹنس، اصالت مادہ مٹیلریسٹک اوریجن اور اصالت روحی اسپریچویل اوریجن کہتے ہین۔

شعور و آگاہی کیلئے ضروری ہے کہ ہر کسی کی ہر بات کو نہ مانیں۔ جو کسی کی ہر بات کو مانتا ہے وہ شعور رکھتا ہے بصیرت نہیں رکھتا ہے۔ ہم اکثر شعور رکھتے ہیں بصیرت نہیں رکھتے ہیں۔ قران مجید بصیرت کی دعوت دیتا ہے۔ سورہ یوسف کا قصہ تفصیل میں ہے جس کی آیت نمبر 108 میں ہے کہ ہے۔ "قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ" آپ کہہ دیجئے کہ یہی میرا راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے اور خدا پاک و بے نیاز ہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ 100 آیتوں تک قصہ ہے اور اس کے بعد فلسفہ ہے۔ 12 آیات میں فلسفہ ہے اس قصے کا۔ قرآن بصیرت کی دعوت دے رہا ہے۔ یہی راستہ ہے شعور ہی نہ رہے بصیرت رہے۔

علامہ طباطبائی شعور کو ظاہری حواس تک محدود کرتے ہیں۔ بصارت حواس ہے مگر بصیرت ظاہری حواس نہیں ہے یہ وہ راستہ ہے۔ میں بصیرت کی اور میری اتباع کرنے والے بھی بصیرت کی دعوت دے رہے ہیں۔ ساری پاکیزگی اللہ کیلئے ہے میں مشرقین میں سے نہیں ہے۔ قرآن شعور سے آگے بصیرت کی دعوت دے رہا ہے۔ اصالت الوجود، ہر چیز تین چیزون کی دعوت دے رہی ہے، وجود ہے تو کوئی خالق ہے۔ یہ شعور نہیں اس کیلئے باشعور ہونا پڑتا ہے۔ میں یوں ہی نہیں پیدا ہوا ہوں۔ میرا پیدا کرنے والا ہے تو ہادی بھی ہے۔ علت و معلول کو دیکھتا ہے۔ I am created I am guided۔ سورہ طہ کی آیت نمبر 49 اور 50 میں ہے کہ "قَالَ فَمَنْ رَبُّكُمَا يَا مُوسَىٰ قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ" اس نے کہا کہ موسٰی تم دونوں کا رب کون ہے، موسٰی نے کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے۔

میرا پیدا کرنے والا بھی ہے تو ہادی بھی ہے۔ ہمارا رب وہ ہے جس نے پر شی کی تخلیق کی اور ہادی ہونا ضروری ہے۔ اس کیلئے 5 ڈبلیوز ہئیں۔ What, Why, When, Where and Why ہم کس کا انتظار، کب سے، کیوں انتظار کرہے ہیں۔ کون ہے یہ، کیوں انتظار کر رہے ہیں۔ مذاہب میں ریفارمر اور سیور کا تذکرہ ہے۔ ایک اچھا وقت آنے والا ہے۔ ہر شخص ہر وقت انتظار کر رہا ہے، دہقان کھیتی کے پک جانے کے بعد حصول کا انتظار کر رہا ہے، ماں بچے کی ولادت کی منتظر ہے، طالبعلم امتحان کے نتائج کا منتظر ہے۔ اجود کو صرف مادہ میں تصور کریں تو اس کا دوسرا شیپ لینا ضروری ہے۔ مادہ خود ہی پیدا ہو اس کا امکان ہی نہیں ہے۔ شہزادی فاطمہ(س) اپنے خطبہ فدک میں کہتی ہیں کہ پروردگار نے جس شیء کو بنایا ہے وہ کسی شیء سے نہیں بلکہ لاشی سے بنایا ہے۔ بگ بینگ تھیوری کو آدھا قرآن سے لیا گیا ہے۔

سورہ الانبیا کی 30ویں آیت میں ہے کہ "أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ" کیا ان کافروں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ زمین و آسمان آپس میں جڑے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو الگ کیا ہے اور ہر جاندار کو پانی سے قرار دیا ہے، پھر کیا یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔ آئٹم کے اندر ایک دنیا ہے۔ آئٹم کیلئے 136 قانون اپلائی ہوتے ہیں۔ انسان اگر باعظمت رہنا چاہتا ہے تو اسے سیلف اویئر اور سوشل اویئر رہنا چاہیئے خود کا شعور اور جامع کا شعور۔ Clash of civilization اس پر 10 مجالس پڑہی ہیں وہ سن لیں۔ ساری کائنات ایک entity تھی۔ ایک بڑا دھماکا ہوا جس سے کائنات وجود میں آئی۔ ہر ایک چیز کا cause اور effect ہوتا ہے تو یہ دھماکا کس نے کیا؟ اللہ نے دھماکا کیا۔ کائنات کا روحی وجود خالق ہے۔ یہاں سے کلیش ہے۔ کائنات رتک تھی یہ میٹر نہیں ہے اس کا کریئٹر موجود ہے۔

ہم نے تسبیح پڑھی وہ ایفیکٹو ہے اس کام کرنے سے نتیجہ نکلے گا یہ نتیجہ کس بیس پر نکل رہا ہے اس کو کیوں نہیں مانتے۔ صرف اوپر نہیں رہیں مگر اس کی باریک بینی پر جائیں۔ کورونا کا شعور دینی بھی ہے۔ کورونا امتحان ہے یا اللہ کا عذاب ہے اس پر اہلبیت ٹی وی پر مجالس پڑھی ہیں۔ انسان اتنا مدہوش تھا کہ سمجھ رہا تھا کہ ساری کائنات اس کے ہاتھ میں آگئی تھی۔ ایک جرمن فلاسفر نے Death of God کے نام سے دین کا مذاق اڑایا ہے۔ دنیا میں تمام بلائیں یورپ سے ہیں۔ بی بی سی نے کہا کہ ہم افریکہ کا کیا ہوگا؟ سب سے زیادہ پریشان وہ ہے جس کے پاس زیادہ دولت ہے۔ سورہ غافر کی آیت نمبر 16 ہے کہ "لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ" آج کس کا ملک ہے بس خدائے واحد و قہار کا ملک ہے، جو ہر طرف پاور کی بات کرتے ہیں وہ بتائیں کہ ملک کس کا ہے۔ باشعور آواز کہے گی کہ یہ ملک اللہ واحد القھار کا ہے۔

کوشش کریں کہ شعور معرفت میں اضافہ ہو۔ نماز امام زمانہ پڑھیں۔ "ایاک نعبد و ایاک نستعین"۔ کمک، مدد، استمداد کا اقرار کر رہے ہیں مگر جو مدد کر رہا ہے اس کے آئین کا اقرار کرنے کیلئے پیچھے ہٹے ہوئے ہیں اس لئے باشعور اور باوقار رہیں۔ امام علی نے اپنے خطبہ میں آئمہ کے آنے کا سبب بتایا ہے۔ پہلے خطبہ میں بتایا کہ کائنات کس طرح پیدا ہوئی وہ موجود ہے۔ قرآن کیا ہے اور اسکے بعد انبیاء کے آنے کا سبب بتایا۔ انبیاء اس لئے آئے کہ انسان کی انر فطرت جگانے کیلئے۔ اس نعمت کو یاد کروانے کیلئے جس کو بھلادیا۔ قرآن مجید کے 5وین سورہ، سورہ مائدہ کی 55ویں آیت میں ہے کہ "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَ هُمْ رَاكِعُونَ" ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔ انبیا نے تبلیغ کے ذریعے حجت کی اور ان کے دفن شدہ عقل جگائے۔ انسان کی عقل کو جگانے والے انبیا علیھم السلام ہیں۔

نھج البلاغہ کے دوسرے خطبہ میں انبیا کرام کے انتخاب میں امام علی (ع) نے بتایا ہے کہ "وَ وَاتَرَ إِلَيْهِمْ أَنْبِياءَهُ، لِيَسْتَأْدُوهُمْ مِيثَاقَ فِطْرَتِهِ، وَ يُذَكِّرُوهُمْ مَنْسِيَّ نِعْمَتِهِ، وَ يَحْتَجُّوا عَلَيْهِمْ بَالتَّبْلِيغِ، وَ يُثِيرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُولِ، وَ يُرُوهُمْ آيَاتِ الْمَقْدِرَةِ" پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے۔ انبیا کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کی امانت کو واپس لیں اور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کو یاد دلائیں۔ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینیوں کو باہر لائیں اور انہیں قدرت الاہی کی نشانیاں دکھائیں۔ امام باقر (ع) نے امام زمانہ کے بارے میں فرمایا ہے، جب ہمارا قائم آئیگا تو امام بندوں پر ہاتھ پھیرینگے اور ان کے عقول کو بلند کریں گے جس کے ذریعے ان کے عقول کو جمع کریں گے۔ اخلاق کو کامل کریں گے۔ امام ایسا نظام بنائینگے جس کے ذریعے سے دفن شدہ عقول، دفن شدہ شعور کو بلند اور بیدار کریں گے۔ ایک اسلامی ملک ایران ہے جس کے کام سے دشمن پریشان ہیں۔ ایران کے میزائل حضرت موسٰی کے عصا کے مانند ہیں۔

سوئی ہوئی انسانیت بیدار ہو گی۔ مڈل ایسٹ کی 7 یونیورسٹیان ویسٹ کے پاس ریکگنائزڈ ہیں مگر ایران کی 40 یونیورسٹیان ریکنگائزڈ ہیں۔ سردار قاسم سليماني کی شہادت کے بعد ایران نے جو طمانچہ مارا تو پاورفل ملک نے کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، امام زمانہ تشریف لائیں گے تو عقول انسانی کامل ہونگے یعنی اس طرح کا زمینہ فراہم ہوگا جو انسان سو رہا ہے وہ بیدار ہوگا اور اس کی عقل پوری ہوگی۔ مڈل ایسٹ کی سات اور ایران کی 40 یونیورسٹیاں ویسٹ میں ریکگنائیزڈ ہیں۔ اس لئے اس شعور کی ضرورت ہے جو اصالت مادہ میں اٹک نہیں گیا ہو بلکہ اصالت معنی کیطرف گیا ہو۔ اصالت روحی و اصالت معنوی تک گیا ہو۔ امام جو رہنمائی کر رہے ہیں اس پر یقین کریں یہ ہے باشعور ہونا انتظار میں۔ 
خبر کا کوڈ : 923591
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش