2
Sunday 28 Mar 2021 10:37

انتظار کیا، کیوں اور کیسے؟

انتظار کیا، کیوں اور کیسے؟
تحریر: فدا حسین ساجدی

مقدمہ:
اگرچہ انسانوں کی خلقت کی ابتداء ہی سے الله تعالیٰ نے ان کی ہدایت، نجات اور معاشی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے انبیاء و اوصیاء کا سلسلہ شروع کیا، لیکن لوگ ان کی اہمیت سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے ان کی پیروی کرنے والوں کی تعداد  بہت کم رہی۔ دور معاصر میں دنیا کی مختلف جگہوں سے انسانی حقوق کے دفاع کی خاطر قدم اٹهانے والے یا اپنی اس تحریک اور نہضت میں مخلص نہیں تهے یا ان کے پاس کوئی جامع عقل اور وحی پر مبنی اصول اور قانون نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف انسانوں کے لوٹائے گئے حقوق ان کو واپس نہیں دلا سکے بلکہ ابتدائی حقوق سے محروم لوگوں کو ظاہری چمک اور دمک سے فریب دیکر سوشلیزم اور کمونیزم جیسے مکتبوں کے جال میں پهنسا دیئے۔ جس کے نتیجے میں بشریت مختلف قسم کے مصائب اور مشکلات کا شکار ہوگئی۔

لہذا انسانوں کی نجات کا واحد راستہ اسلامی اصول سے آگاه ہو کر ان پر عمل کرنے میں پوشده ہے، اسی بنا پر انسانوں کی نجات کی خاطر اسلامی اصول کو دنیا والوں تک پہنچانا علماء اسلام کی ذمہ داری ہے، انہی اسلامی اصول میں سے ایک اصل انتظار ہے۔ اسلام کے دامن میں پروان چڑهنے والے کبوتروں کے پاس دو بال ہیں، جو ان کو شاندار آینده اور معنوی کمال کی طرف لے جائیں گے، پہلا، بال سرخ کربلا ہے اور دوسرا بال سبز انتظار ہے، لیکن وه انتظار جو انسان کو زندگی میں با احساس، مسئولیت پذیر، دیندار، ظلم ستیز اور عدالت پیشہ بنائے اور انتظار کرنے والے کو عقیدے میں مضبوط، عمل میں پکا اور دینی و اسلامی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصمم بنائے۔

انتظار کی اہمیت
انتظار کے اثرات اور انتظار کے حوالے سے ہماری ذمہ داریاں بیان کرنے سے پہلے قارئین کی خدمت میں چند رواتیں پیش کرتے ہیں، جن سے انتظار کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ حضور اکرم (ص) امام زمان (ع) کے ظهور کے لئے انتظار کرنے کو افضل ترین اعمال میں شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: افضل اعمال امتی انتظارالفرج» "میری امت کا سب سے بہتر عمل ظهور اور فرج کا انتظار ہے" اور آنحضرت نے ایک اور حدیث میں انتظار کو بافضیلت ترین عبادتوں میں سے قرار دیا ہے، فرمایا: افضل العبادة انتظار الفرج» حضرت علی (ع) انتظار فرج کو خدا کے پاس سب سے زیاده محبوب عمل سمجهتے ہیں، جیسا کہ فرماتے ہیں: انتظروا الفرج‏ و لا تيأسوا من روح الله‏ فإن أحب الأعمال إلى الله عز و جل انتظار الفرج » خدا کی طرف سے فرج اور ظهور کے انتظار میں رہو اور خدا کی رحمت سے مایوس مت ہو جاو کیونکہ انتظار فرج خدا کے پاس محبوب ترین اعمال میں سے ہے اور جو بهی ہمارے امر پر اعتقاد رکهئے وه قیامت کے دن حظیره قدس (بهشت برین میں ہمارے ساتھ ہونگے اور حقیقی معنوں میں انتظار کرنے والے اس شخص کے مانند ہیں، جو راه خدا میں شہید ہو کر اپنے لہو میں لہو لہان ہوا ہو۔

انسان اپنی زندگی میں مختف قسم کی مشکلات سے گرفتار ہوسکتا ہے تو ان مشکلات سے تجات پانے کا بہترین راستہ انتظار فرج ہے۔ امام جواد (ع) اس حوالے فرماتے ہیں: افضل اعمال شیعتنا انتظار الفرج من عرف هذالامر فقد فرج عنه بانتظاره» "ہمارے شیعوں کا بہترین عمل انتظار فرج ہے، جو شخص اس مطلب کو جان کر اس پر اعتقاد رکهے تو اس انتظار کی بدولت اس کی مشکلات حل ہو جائیں گی۔" امام علی النقی (ع) کے صحابی علی ابن مهزیار کہتے ہیں، میں نے امام (ع) سے کسی خط میں فرج اور ظهور امام زمان کے حوالے سے سوال کیا تو امام (ع) نے فرمایا: اذا غاب صاحبکم عن دارالظالمین فتوقعوا الفرج» "جب تمهارے امام اور رہبر ظالم اور جابر لوگوں سے مخفی ہو جائیں تو ان کے ظهور کا انتظار کرو" ائمہ  معصوم (ع) کا کوئی بهی قول اور فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ لہذا اس حدیث میں امام، غیبت کے زمانے میں ہمیں انتظار کا حکم دیتے ہیں، اس سے  یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ظالم اور جابر حاکموں کے دور میں ہماری نجات اور کامیابی انتظار یی میں پوشیده ہے۔ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق سے سوال کیا، وہ شخص جو آئمہ کی ولایت کا قائل ہے اور حکومت حق کا انتظار کر رہا ہے، ایسے شخص کا مرتبہ اور مقام کیا ہے۔؟ امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : هو بمنزلة من کان مع القائم فی فسطاطہ” "وہ اس شخص کے مانند ہے، جو امام کے ساتھ ان کے خیمے میں ہو۔"

انتظار کیا؟ (انتظار کی تعریف)
انتظار (تنظر) سے ہے، جس کا لغوی معنی کسی شئے کی امید رکهنا ہے اور منتظر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کی آمد اور نئی و اچهی حالت پیدا کرنے کا امید وار ہو، جیسے وه بیمار جو شفایابی کا انتظار کرتا ہے۔ یہاں سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے، وه یہ کہ انتظار کرنے والا ہمیشہ موجوده حالت سے ناراحت ہے اور بہتر حالت کی امید رکهتا ہے۔ اس مقالے میں انتظار سے مراد منجی عالم بشریت حضرت امام زمان (عج) کے ظهور کا انتظار ہےو جس کے لئے شیعخ روایتوں میں ایک خوبصورت تعبیر ملتی ہے، وه ہے انتظار فرج » فرج کا معنی فتح، پیروزی، گشایش اور تنگی و غم سے نجات اور رہایی پانے کو کہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام (عج) کے ظهور کے ساتھ انسان ہر قسم کی مشکلات اور غموں سے نجات پایے گا۔ جب امام رضا سے ظهور امام مهدی (عج) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے اس مطلب کی طرف اشاره کیا کہ "مومنین کو راحت اور سکون فقط اسی وقت حاصل ہوگا، جب امام عج ظهور فرمائیں گے۔"

کلمہ انتظار اور فرج دونوں کے لغوی معنی کے پیش نظر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انتظار فرج کا مطلب امام (عج) کے ماننے والے، امام کی غیبت اور ظالم حکمرانوں کے ظلم و بربریت سے تنگ آکر ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کی موجوده حالت سے سخت ناراحت ہیں اور امام کی آمد کی امید رکهتے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ امام کے ظهور کے بعد بنی نوع انسان پر چهائی ہوئی ظلم و جور کی تاریک گهٹائیں ختم ہوکر سعادت اور خوش بختی میں تبدیل ہو جائیں گی اور انسان امام کے سایہ میں فلاح  و بهبود، خوشحالی اور ترقی کی اعلیٰ منزل پر پہنچ جائے گا۔ انتظار کا معنی روشن ہونے کے ساتھ انتظار کرنے والے کی تعریف بهی واضح ہوئی۔ ایک کلمہ میں اگر بیان کرنا چاہیئں تو واقعی انتظار کرنے والا وه ہے، جو اسلامی اور شیعہ مذہب کے اعتقادات پر صحیح طور پر عقیده رکهے۔

امام مهدی (عج) کی صحیح معنوں میں معرفت حاصل کرنے کے علاوه فرعی مسائل میں پابندی کے ساتھ اپنا وظیفہ انجام دیں، خاص طور پر انتظار کے حوالے سے جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے، اسے جامہ عمل پہنائے۔ یہاں پر اس مطلب کی طرف اشاره ضروری ہے کہ انتظار کا معنی کبهی یہ نهیں ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اس خوش فهمی میں بیٹھ جائیں کہ امام زمانہ علیہ السلام ظہور کریں گے اور معاشرے کی اصلاح کریں گے، بلکہ ہمیں بهی اپنے نفوس کو اخلاق کی برائیوں سے پاک کرنے کے ذریعے اپنی اصلاح کرنی چاہیئے، کیونکہ تمام انسانی معاشروں کی اصلاح اور پوری دنیا میں عدل و انصاف کی حکومت برپا کرنے والے کا منتظر کبهی اپنے نفس کی اصلاح سے غافل نہیں ہوتا ہے۔
                    
انتظار کیوں (فوائد انتظار)
غیبت کے دور میں انتظار، امام کے ماننے والوں کے لئے بہت سخت اور کھٹن ہے، کیونکہ ایک طرف امام (عج) کی غیبت اور ان کی زیارت سے محروم اور دوسری طرف ظالموں کی حکومت اور جرائم پیشہ افراد کے باگ ڈور ہمارے لئے قابل برداشت نہیں، لیکن کام جتنا سخت ہو، اتنا ہی اس کا نتیجہ زیاده اچھا ہوتا ہے اور عمل جتنا مشکل ہو، اتنا ہی اس کے لئے ثواب اور اجر زیاده ملے گا۔ لهذا امام (عج) کے ظهور کا انتظار ان اعمال میں سے ہے، جو سخت اور مشکل ہونے کی وجہ سے روایتوں میں صحیح معنوں میں انتظار کرنے والوں کے لئے بے شمار اجر اور ثواب ذکر ہوا ہے اور منتظرین کو بلند اور پرمحتویٰ تعبیرات کی ذریعے سراہا گیا ہے۔

دگنا ثواب 
الله تعالیٰ اپنی مخلوقات سے ہر حال میں بے نیاز ہے، اس کے باوجود ان کو نعمت وجود عطاء کرنے کے علاوه انسانوں کو کچھ تکالیف دیں، تاکہ اسی بہانے ان کو اپنی بہترین نعمتوں سے نوازے، لیکن الله تعالیٰ کا فضل و کرم اپنے بندوں پر اتنا زیاده ہے کہ بعض اعمال کے لئے بعض حالات میں دگنا ثواب رکها ہے۔ انہی حالات میں سے ایک حالت انتظار کا زمانہ ہے، جس میں مومنین کے ہر اچهے عمل کو دو برابر ثواب ملے گا۔ عمار ساباطی کہتے ہیں، میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا مولا: باطل حکومت کے دور میں آپ میں سے امام حق کے ساتھ چهپی ہوئی عبادت بہتر ہے یا دولت حق کے زمانے میں امام حاضر کے ساتھ کهلے عام عبادت کرنا بہتر ہے۔؟ امام نے جواب میں فرمایا: عمار مخفی طریقے سے صدقہ دینا کهلے عام صدقہ دینے سے بہتر ہے اور اسی طرح الله کی قسم امام حق پرده غیب میں ہونے کی وجہ سے باطل حکومت کے دور میں دشمن کے خوف سے تمهارا دوسروں کی نظر سے چهپ کر عبادت کرنا  امام حاضر کے ساتھ حق کی حکومت میں کهلے عام عبادت کرنے سے بہتر ہے اور کبهی بهی باطل کی حکومت میں خوف و ہراس کے ساتھ عبادت کرنا حق کی حکومت میں آرام و راحت عبادات کرنے کی مانند نہیں ہے۔

جان لو کہ تم میں سے ہر ایک اگر دشمن سے مخفی ہو کر وقت پر کامل طریقے سے ایک نماز جماعت پڑهے، خدا پچاس نماز جماعت کا ثواب تمهارے نامہ عمل میں لکهے گا اور اگر تم دشمن کے خوف سے چهپ کر فرادا ایک نماز وقت پر کامل طریقے سے پڑهوں گے تو خدا پچیس نماز فرادا کا ثواب لکهے گا اور اسی طرح ایک نماز نافلہ بروقت مکمل طور پر ادا کریں، الله تعالی دس نافلہ نماز کا ثواب اسے عطاء کرے گا اور تم میں سے کوئی بهی اچها کام انجام دے، خدا بیست حسنہ اس کے نامہ اعمال میں لکھے گا اور پهر الله تعالیٰ مومنین کو دگنا ثواب عطاء کرے گا۔ اگر وه لوگ اپنے نفس، امام اور دین کی حفاظت کے لئے تقیہ کے ساتھ اپنے اعمال کو نیک طریقے سے انجام دیں اور اپنی زبان کو حرام سے بچائیں تو  خدا اسے دوگنا اور چوگنا اجر دے گا، کیونکہ الله تعالیٰ بی حساب کرم کا مالک ہے۔

حقیقی اور سچے شیعہ
صراط مستقیم پر ثابت قدم ہوکر ایک مقدس اور بلند ہدف کی طرف حرکت کرنا ایک ایسی سعادت ہے، جو ہر کسی کو نہیں ملتی۔ اگر کوئی شخص حقیقی معنوں میں محب اور پیروکار اہلبیت ہو تو وه بتحقیق صراط مستقیم پر گامزن ہے، لیکن حقیقی معنوں میں شیعہ ہونا کوئی آسان کام نہیں، جبکہ روایات میں امام زمان (ع) کے ظهور کا انتظار کرنے والوں کو خود اہلبیت (ع) نے حقیقی اور سچے شیعہ سے یاد کیا ہے۔ امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں: وه لوگ جو امام المنتظر (عج) کی غیبت کے زمانہ سے تعلق رکهتے ہیں اور امام المنتظر (عج) کی امامت کے قائل بهی ہیں اور ان کے ظهور کا انتظار بهی کرتے ہیں، وه لوگ تمام زمانوں کے لوگوں سے افضل ہیں، کیونکہ الله تعالیٰ نے ان کو ایسی یاداشت، قوت عقل، فکر و فہم اور معرفت الہیٰ عطا کی ہے، جس کی وجہ سے امام (ع) کے غائب ہونے کے باوجود ان کا امام (ع) کے بارے میں ایمان ایسا ہی ہے، جیسے وه امام (ع) کو دیکھ رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اس زمانے میں ان مجاہدین کا درجہ عطا کرے گا، جنہوں نے رسول اکرم (ص) کے ساتھ مل کر تلوار کے ساتھ جہاد کیا ہو اور یہی وه لوگ ہیں، جو حقیقی مخلص، ہمارے سچے شیعہ اور اللہ کے دین کی ظاہر بظاہر اور چهب کر دعوت دینے والے ہیں۔ (بحارالانوار، ج52، ص 122)

اولیاء الہیٰ میں شامل
اولیاء الله وه افراد ہیں، جو مقام تقرب میں اس منزل پر فائز ہونگے، جہان جلوه ربوبیت ہر آن ان کی نگاه کے سامنے رہتا ہے اور ایسے افراد اس قدر غم دنیا سے بے نیاز  ہو جاتے ہیں کہ انہیں نہ دنیا کا خوف ہوتا ہے اور نہ اس کے فوت ہو جانے کا رنج ہوتا ہے۔ لہذا منتظران ظهور کو ایسا مقام حاصل ہے۔ ابو بصیر نے امام صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے قرآن کی اس آیت «يوم يأتي بعض آيات ربك لا ينفع نفسا إيمانها لم تكن آمنت من قبل أو كسبت في إيمانها خيرا» الأنعام: 158) کی تفسیر میں فرمایا: اس دن سے مراد خمارے قائم منتظر کے ظخور کا دن ہے۔ آگے امام انتظار کرنے والوں کا مقام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہمارے قائم کے ظهور کا انتظار کرنے والے شیعوں کو خوشخبری ہو، جو ظهور کے بعد ان کے اطاعت گزار ہونگے، یہ لوگ  اولیاء خدا ہیں اور اولیاء خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وه محزون اور رنجیدہ ہوتے ہیں۔

انتظار کیسے؟ (انتظار اور ہماری ذمہ داریاں)
امام کی معرفت 
انتظار کرنے والے کی سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وه حقیقی معنوں میں امام زمان کی معرفت حاصل کرے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف سے امام (عج) کی محبت کو اجر رسالت قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف امام کی ولایت کو تہ دل سے قبول کئے بغیر ہمارا دین قرآن کی نگاه میں مکمل نہیں ہے اور یہ دو امر یعنی محبت اور ولایت پذیری امام (ع) کی شناخت اور معرفت کے بغیر ممکن نہیں۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: «و إن من مات و لا يعرفهم مات ميتة جاهلية» "اگر کوئی شخص اماموں کی معرفت کے بغیر مر جائے، درحقیقت وه جاہلیت کی موت مرا ہے۔" ان کی معرفت سے مراد ان صفات اور نشانیوں کی پہجان ہے، جس کی وجہ سے اماموں  کے بارے میں ہمارا عقیده مضبوط ہو اور ان کی پیروی کرنے سے دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی حاصل ہو۔

تزکیہ نفس
ظهور امام کا انتظار کرنے والوں کے مهم ترین وظائف میں سے ایک تزکیہ نفس اور خود سازی ہے۔ یہ موضوع اس قدر مهم ہے کہ پیغمبروں کا سب سے بڑا ہدف اور غرض انسانی نفوس کی پرورش اور پاک و پاکزه بنانا ہے اور انسان کی فردی اور اجتماعی شخصیت کی سعادت اور دنیوی و اخروی شقاوت اسی سے وابستہ ہے۔ اسی وجہ سے انسان کا اپنے آپ کو بنانا ایک زندگی ساز اور سرنوشت ساز کام شمار ہوتا ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) آئے ہیں تاکہ خود سازی اور نفس انسانی کی پرورش اور تکمیل کا راستہ بتلائیں اور نفوس انسانی کو رزائل اور برے اخلاق سے پاک اور اچهے اخلاق اور فضائل کی پرورش کریں اور ائمہ اطهار خود فضائل اخلاقی اور کمال انسانی کے اعلیٰ ترین مرتبہ پر فائز تهے اور انہوں نے انسانوں کو خود سازی کا درس دیا اور ان کو اخلاق کی شناخت اور خواہشات نفسانی پر قابو پانے میں مدد فرمائی۔ ان باتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی نظر میں خود سازی اور تزکیہ و تہذیب نفس کی کتنی اہمیت ہے۔

لہذا انتظار کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ روحی پاکیزگی، فضائل اخلاقی کا حصول اور اپنے نفس کو بری صفات سے پاک کرنے کی راه میں ہمیشہ کوشاں رہیں، کیونکہ شیطان بهی ہمیشہ انسان کو راه حق سے بھٹکانے کے درپے ہوتا ہے۔ علاوه از ایں امام کی عادلانہ حکومت صرف ان لوگوں کے لئے قابل برداشت اور ہضم ہے، جنہوں نے اپنے آپ کو پاک دل، پاک صفت، پاک کردار اور پاک ضمیر بنایا ہو، ورنہ جس طرح امیرالمومنین کے دور میں لوگوں کے نفوس پاک نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی عادلانہ حکومت کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا ہوا، اسی طرح انتظار کرنے والوں کے نفوس پاک نہ ہوں تو امام (عج) کے ظهور میں تاخیر ہوگی۔ خاص طور پر روایات میں منتظر امام کو تقویٰ اور کسب فضائل اخلاق کی سفارش ہوئی ہے۔ امام صادق فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص قائم آل محمد امام زمان کے یاران میں سے ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ حقیقی معنوں میں انتظار کرے، در حالیکہ اس کے اعمال پرہیز گاری اور اچهے اخلاق کے ساتھ ہوں،  تب وه واقعی منتظر شمار ہوگا۔

حکومت جهانی کی تیاری
جو شخص حقیقی طور پر حجت خدا کے ظہور، فرج اور حکومت عدل کے قیام کا انتظار کر رہا ہو، اس کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو عدل و انصاف پر استوار کرے اور حکومت عدل کی تشکیل سے پہلے ہی اپنی زندگی میں ایسی حکومت کو نافذ کرے اور اپنے معاشرے میں اس قسم کی حکومت اجرا کرنے کے لئے کوشاں رہے، کیونکہ، حقیقی انتظار فرج کی بنیاد، حکومت عدل کو فردی زندگی، انسانی معاشروں اور پهر عالمی لیول پر نافذ کرنے کے لئے تیاری پر رکها گیا ہے اور یہ مہم صرف الفاظ اور نعروں سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ یہ دینی تعلیمات سے لاپرواہی کے ساتھ سازگار ہے۔ یہیں سے انتظار فرج کی ایک تفسیر کے غلط ہونے کا پتہ چلتا ہے، کیونکہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انتظار فرج یعنی انسانی معاشروں میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے لاتعلقی اختیار کرنا ہے اور اس امید سے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا کہ امام زمانہ علیہ السلام ظہور کریں گے اور معاشرے کی اصلاح کریں گے۔

حالانکہ حقیقت انتظار یہ ہے کہ انتظار کرنے والا انسان، اپنے آپ کو، اپنے ماحول اور معاشرے کو امام زمانہ علیہ السلام کے آنے اور عالمی لیول پر حکومت عدل کے قیام  کے لئے آمادہ کرے اور ہر ایک اپنی قدرت کے حساب سے اس لائن میں کوشش کرے۔ امام صادق فرماتے ہیں: قال أبو عبد الله (ع)‏ ليعدن‏ أحد كم لخروج القائم و لو سهما فإن الله إذا علم ذلك من نيته رجوت لأن ينسئ في عمره حتى يدركه و يكون من أعوانه و أنصاره. تم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری کہ قائم کے ظهور کے لئے ایک تیر ہی کیوں نہ ہو، اسلحہ تیار کرے، کیونکہ الله تعالیٰ سب کی نیت سے آگاه ہے۔ امید ہے کہ اس کی عمر کو خدا اتنا طولانی کرے کہ وہ امام کو درک کرے اور وہ امام کے اعوان و انصار میں سے قرار پائے۔ (بحار، ج52، ص366)

شیعہ اور منتظر ہونے کا ثبوت
لقلقہ زبان پر شیعہ اور منتظر ہونے کا ادعا کرنا کوئی مشکل کام نہیں اور اس کا کوئی فائده بهی نہیں ہے۔ لہذا اگر ہم دنیا اور آخرت دونوں میں اہلبیت (ع) کی محبت کا مزه چکھنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم عمل میں شیعہ ہونے کا ثبوت دیں اور منتظر کا بهی یہی حال ہے، جب تک عمل میں انتظار کے حوالے سے جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے، حقیقی معنوں میں ادا نہ کریں، جو فوائد انتظار کے لیے بیان ہوئے ہیں، ہمارے شامل حال نہیں ہوں گے۔ مندرجہ ذیل روایتوں میں غور کرنے سے شیعہ حقیقی کا اندازه لگایا جاسکتا ہے۔

ابو اسامہ امام صادق (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اے ابو اسامہ میں تمہیں تقویٰ الہیٰ، ورع، کوشش و تلاش، گفتار میں سچایی، اچهے اخلاق، پڑوسیوں سے نیکی کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ لوگوں کو زبان کے بغیر دین کی طرف دعوت دو، یعنی تمهاری رفتار و کردار اور اخلاق اتنا پاک اور صاف ہونا چاہیئے کہ لوگ تمہیں دیکھ کر مذہب شیعہ کی طرف مایل ہو جائیں) اور اے ابو اسامہ تم (شیعہ) ہماری لئے زینت بنو اور ہمارے لئے باعث شرم نہ ہو۔ امام صادق نے اپنے خاص صحابی عیسیٰ بن عبدالله قمی سے فرمایا: اے ابن عبدالله، وه شخص جو کسی ایسے شهر میں زندگی کر رہا ہو، جس میں ایک لاکھ یا اس سے زیاده لوگ بستے ہوں، اگر اس محب اہلبیت سے ایک اور شخص تقویٰ میں آگے ہو تو یہ ہمارا شیعہ نہیں ہے۔

علماء کی اطاعت اور مجتہدین کی تقلید
الله تعالیٰ نے ہر دور میں انسانوں کی ہدایت کا بندوبست کیا ہے۔ انبیاء کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد ہمارے اماموں نے لوگوں کی راہنمائی کی اور ان کو سیدهے راستے پر لانے کے لئے بیش بها قربانیاں دیں اور یہ مہم عصر انتظار میں علماء اور دینی دانشوروں کو سونپی گئی ہے اور دینی علماء غیبت امام کے شروع سے لیکر اب تک اس الہیٰ وظیفے کو احسن طریقے سے انجام دیتے آئے ہیں۔ لہذا عصر اتنظار میں امام مهدی (عج) کے انتظار کرنے والوں کی اہم ذمہ داریوں میں سے علماء کی پیروی اور مجتهدین کی تقلید ہے۔ جو لوگ تقلید پر اعتراض کرتے ہیں، وه قطعاً غلط فهمی میں ہیں یا وه واقعی شیعہ نہیں ہیں، کیونکہ جب خود امام ہمیں امر فرماتے ہیں کہ ہم جامع الشرائط مجتهدین کی تقلید کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا کوئی بهی عمل خدا کے ہاں تقلید کے بغیر قبول نہیں ہے۔ جب ہم اپنی ذمہ داریوں کو دین اور شریعت کی نسبت نہیں پہچان سکتے ہیں، لہذا اگر عملی میدان میں مسلمان باقی رہنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہیں کہ دینی احکامات کو دریافت کرنے کے لئے اس  دینی عالم کی طرف رجوع کریں، جو سالہا سال سے زحمت اٹها کر فرعی مسائل کو کلی قواعد سے نکال کر آسان طریقے سے ہمارے اختیار میں دیتا ہے۔

اگر ہمارے لئے براه راست خود امام (ع) کی تقلید کرنا ممکن ہوتا تو امام (ع) مجتهدین کی تقلید کرنے پر امر نہ فرماتے۔ در حالیکہ امام صادق (ع) فرماتے ہیں: «فامام من کان من الفقهاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علی هواه مطیعا لامر مولاه فللعام ان یقلدوه»۔۔۔ پس فقهاء میں سے جو اپنے نفس کو قابو میں رکهنے والا، دین کا محافظ اور ہوا و ہوس کا مخالف اور اپنے مولا کا فرمانبردار ہو، عوام پر اس کی تقلید واجب ہے) اس کے علاوه تمام دینی کاموں میں عصر انتظار میں شیعوں کی ذمہ داری ہے کہ علماء کی اطاعت کریں۔ امام زمان فرماتے ہیں «حوادث زمانہ میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو، وه لوگ میری طرف سے تمهارے اوپر ججت ہیں» اور ان کی سعادت اور کامیابی کا واحد راستہ یہی ہے، کیونکہ بہت سارے ایسے مسائل ہیں، جو علماء کے توسط سے ترجمہ شده کتابوں کو رٹنے سے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

عصر انتظار میں علماء کی ذمہ داری
انتظار کے دور میں علماء کی ذمہ داری کے حوالے سے بہت موضوعات قابل تحریر ہیں، ہم یہاں آیت الله حافظ بشیر دام ظلہ سے اس بارے چند جملات نقل کرتے ہیں: وہ اپنی کتاب ولادت امام مهدی میں لکهتے ہیں: غیبت کبریٰ کے دوران دینی طلباء علماء، مفکرین، مصنفین، مؤلفین، واعظین اور میدان خطابت میں یدطولیٰ رکهنے والوں پر بہت ساری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ بات کسی سے پوشیده نہیں ہے کہ اس موچوده دور میں انسانیت اور خصوصاً اسلام اور مسلمانوں کی جو حالت ہم دیکھ رہے ہیں، وه اس وقت سے قطعاً بہتر اور مختلف نہیں ہے، جس وقت غیبت کبریٰ رونما ہوئی تهی۔ آج بهی لوگ اسی طرح دنیا کی محبت میں غرق ہیں۔۔۔۔ اسی بنا پر دینی طلباء اور علماء پر واجب ہے کہ وه اپنے آپ کو واجب الہیٰ امر بہ معروف، نهی از منکر اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے تیاری کریں اور ان پر واجب ہے کہ وه انقلاب امام مهدی (ع) کی ضرورت کے بیان اور اس کی تشریح کے ذریعے ثقافت مهدویہ کو استحکام بخشیں۔
خبر کا کوڈ : 923889
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش