1
2
Monday 29 Mar 2021 10:02

امید مستضعفین کی حکومت

امید مستضعفین کی حکومت
تحریر: شاہد عباس ہادی

جب آفتابِ عالم تابِ افق پر نمودار ہوتا ہے، کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق فیضیاب ہوتی ہے، پودے اس کی کرنوں سے سرسبز ہوتے ہیں اور غنچے و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کر لیتی ہیں، تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور عالم کائنات کی فضاء اجالوں سے پرنور ہو جاتی ہے۔ چنانچہ متمدن دنیا سے عرب کی سنگلاخ وادیوں میں جس وقت ظہور امام مہدی عجل الله فرجه کا سورج طلوع ہوگا، دنیا کی ہر چیز قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھائے گی، زمین اپنے خزانے اگلے گی اور آسمان سے کثیر رحمت برسے گی۔

امام زمانہ (عج) اس وقت حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں گے، جب دنیا میں ناامنی، بے سروسامانی اور لاکھوں جسمانی، روحانی اور ذہنی بیماریاں پھیل چکی ہوں گی، دنیا پر تباہی و بربادی چھا چکی ہوگی، شہر جنگوں کی وجہ سے ویران ہوچکے ہوں گے، کچھ لوگ بھوک سے مر رہے ہوں گے اور کچھ لوگ مرغن غذاوں سے اپنے پیٹ بھر رہے ہوں گے، کچھ لوگ بڑے محلوں اور عمارتوں میں زندگی گزار رہے ہوں گے اور کچھ لوگ ویرانوں میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہوں گے، ظالمین و مستکبرین نے مستضعفین اور ناتوان لوگوں کو اپنا غلام بنایا ہوگا اور فقراء کے حقوق پائمال ہو رہے ہوں گے۔ لہذا انسان عدالت کا منتظر ہوگا اور اس انتظار کی انتہاء منجئ بشریت کی حکومت ہوگی۔ عدالت مہدوی ایسی عدالت ہوگی جو پورے عالم کو گھیر لے گی اور تمام لوگ امام کی عدالت سے بہرہ مند ہوں گے۔

عالمگیر عادلانہ حکومت کا قیام تمام بشریت کی آرزو ہے، جو انصاف اور عدل اس حکومت میں ہوگا، پورے عالم کیلئے ہوگا۔ اس لئے یہ حکومت جہانی حکومت ہوگی، پس امام مہدی (عج) پوری دنیا کی زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پر کر دیں گے، جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہوگی۔ دعائے ندبہ میں ہے کہ "أین طامس آثار الزیغ والأھواء ، أین قاطع حبائل الکذب والافتراء" کہاں ہے وہ جو گمراہی اور ہوا و ہوس کے آثار کو نابود کرے گا؟ کہاں ہے وہ جو جھوٹ اور تہمت کی جڑوں کو کاٹے گا۔"

عوام الناس ایسی عدالت کے منتظر ہیں، جو ہوا و ہوس، جھوٹ، تہمت بازی، منافقت، شدت پسندی، قتل و غارت اور ظلم و ستم جیسے زہریلے سانپوں کا سر کچلے گی، یہ عدالت فتنہ پروری اور تفرقہ بازی جیسی بیماریوں کو جڑ سے ختم کرے گی، لیکن کیا ہم نے اپنے نفس کے متعلق سوچا ہے؟ کیا ہم فتنہ پروری نہیں کر رہے؟ کیا ہم تفرقہ بازی میں نہیں پڑے ہوئے؟ کیا ہم حسد نہیں کر رہے؟ کیا ہم نے ایک ہی ملت کے تصور میں خود کو ڈھالا ہے؟ کیا ہم نے ایک ملت بننے کی کوشش کی ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو آج ہی اپنا گریبان پکڑیں اور خود سے پوچھیں کہ غیبتِ امام میں امام زمانہ (عج) کیلئے زمینہ سازی کی ہے یا ان کے راستے کی رکاوٹ بن کر رہ گئے۔؟ 

اگر ہم واقعی ظہور مہدی (عج) کے منتظر ہیں تو ہمیں حقیقی منتظر بننا ہوگا، نہ صرف ہم نے خود کو حسد، تفرقہ بازی، فتنہ پروری سے دور کرنا ہوگا بلکہ ہر ظلم و ستم کا راستہ بھی روکنا ہوگا، ہمیں قتل و غارت گری کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا، ایران نے انقلاب اسلامی کا پرچم بلند کرکے پوری دنیا کو پیغام دے دیا کہ ایک حقیقی منتظر ہر قاتل، ہر ظالم کا راستہ روک سکتا ہے، یمن کے مظلوم باسیوں نے کمزور سے کمزور طبقے کیلئے پیغام دیا کہ اگر کوئی چاہے تو سرکش عالمی طاقتوں کے ظلم کو ٹکڑے ٹکڑے کرسکتا ہے۔

ہم ان درندوں کے سامنے کیوں خاموش ہو جاتے ہیں، جو ہر مظلوم کو ذبح کرتے نظر آرہے ہیں؟ جو کلہاڑی کے وار سے معصوم انسانوں کی جان لے رہے ہیں، ہم اس ظلم و بربریت کے خلاف مقاومت کیوں نہیں کرتے؟ ہم کیوں سیاسی مصلحت کا شکار ہوگئے ہیں؟ ذبح ہوتے ہوئے معصوم شہریوں کے قتل میں کونسی سیاسی مصلحت؟ مظلوم کی ایک آہ آسمانوں تک جاتی ہے، اس آہ پر اگر خاموشی دکھائی گئی تو اس ظلم میں برابر کے شریک ہونگے۔ ایک حقیقی منتظر اس ظلم اور قتل و غارت پر کبھی خاموش نہیں رہ سکتا۔
خبر کا کوڈ : 924036
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

مہر عدنان حیدر
Pakistan
ما شاء اللہ بہترین۔ بالکل منتظر کو ساکن نہیں ہونا چاہیئے۔ سلامت رہیں شاہد بھائی
ہماری پیشکش