2
Tuesday 30 Mar 2021 08:30

ثقافت کے نام پر کیا ہو رہا ہے؟

ثقافت کے نام پر کیا ہو رہا ہے؟
تحریر: اختر شگری

دنیا میں بہت سارے نظام نافذ ہیں اور ان کے الگ الگ اصول و معیارات بھی ہیں، اسی طرح ملک عزیز پاکستان کی بنیاد جب "لاالہ الا اللہ" پر ہے تو اس کے بھی کچھ اصول اور مقاصد ہیں۔ یہاں کے تعلیمی، سیاسی و ثقافتی نظام کا محور "لا الہ الا اللہ" ہے تو آداب و رسومات بھی قرآن و سنت کے عین مطابق ہونی چاہیئے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ مٹھی بھر مفاد پرست، شرپسند اور دنیا پرست لوگ بیرونی فنڈنگ سے پاکستان کے دینی تشخص کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور یہاں کے تعلیمی سسٹم، ثقافتی نظام اور سیاسی اصول و ضوابط کو سیکولر اور لبرل نظریات کا حامل بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ عناصر ثقافت کے نام پر ناچ گانا اور میوزیکل پروگراموں کو ترویج دے رہے ہیں، معاشرے سے شرم و حیا اور عفت و عظمت کا خاتمہ کرکے شیطانی نظام رائج کرنے کے خواہاں ہیں۔ آج ثقافت اور ماڈلنگ کے نام پر جوان لڑکیاں، لڑکوں کے سامنے، بہن بھائی کے سامنے، بیٹی باپ کے سامنے ناچنے پر مجبور ہے۔ آخر یہ کس چیز کے لئے منصوبہ بندی ہو رہی ہے اور ان کا اصل ہدف اور مقصد کیا ہے۔؟

رہبر معظم آقا سید علی خامنہ ای دام ظلہ فرماتے ہیں؛ "دشمن نے اب جنگ نرم کا طریقہ اپنا لیا ہے۔" ٹی وی، میڈیا، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے علاؤہ مفاد پرست عناصر کی مدد سے ہماری ثقافت، آداب و رسومات پر مسلسل برنامہ ریزی کے ساتھ اٹیک کر رہے ہیں اور ہماری ثقافت اور دین میں خرافات، بدعات اور فضولیات شامل کرکے ہمیں دین سے دور لے جانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر اب مسلمانوں میں بھی ریپ، طلاق، بے حیائی، عریانیت و لبرل خیالی تیزی سے جگہ بنا رہی ہے۔ شادی بیاہ کی وہ تقریبات جو خالص اسلامی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے عین مطابق ہونی چاہیئں، اب ان تقریبات میں بھی بے حیائی پھیلا کر شرم و حیاء کا جنازہ نکالا جاتا ہے اور حیاء و عفت جو کہ اسلام کا ایک اہم جزو ہے، پامال کیا جا رہا ہے۔

اسلام نے عورتوں کو پردہ کا حکم دیا ہے اور مردوں سے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کی تاکید کی ہے، مگر نہ تو ہماری قوم کے مردوں کو اس کی فکر ہے اور نہ ہی عورتوں میں پردے کی اہمیت کا احساس ہے۔ آج کی مسلم خواتین کا نقاب ماڈرن ہونے کی وجہ سے لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن گیا ہے اور کچھ خواتین مغربی طرز پر زندگی بسر کرنے کے لے میرا جسم میری مرضی کی صدا بلند کرتی ہوئی گلی کوچوں میں گھوم رہی ہیں۔ یورپ اور امریکہ جو اپنی ثقافت اسلامی ملکوں میں رائج کرنے کے خواہاں ہیں، خود تمام برائیوں کی جڑ اور گناہ کا منبع ہیں۔ جہاں شراب، زنا، لبرل ازم، روشن خیالی، انسانی حقوق کی پامالی اور فحاشی عروج پر ہے اور اب ان غیر اخلاقی کرتوتوں پر قابو پانا ان کے بس سے باہر ہے، کیونکہ اب یہ کرتوت ان کی ثقافت ہیں۔

مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج مسلم اقوام میں بھی مغربی تہذیب کی کرن تیزی سے پھیل رہی ہے۔ برصغیر کے جمہوری اور اسلامی ملک میں بھی آزاد خیالی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں اور مغرب کی تہذیب کو باقاعدہ طور پر فالو کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اسلام کی اپنی الگ ثقافت، جامع نظام تعلیم، تہذیب اور قوانین ہیں کہ جن میں انسان تو انسان حیوانوں، پرندوں اور حشرات الارض کے بھی حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ ثقافت کے بارے میں مسلم دانشمندوں کا نظریہ ہے کہ "ثقافت زندگی کے بنیادی تصورات کا ایک مجموعہ ہے، جو وحی الہیٰ سے اخذ کی جا سکتی ہے یا انسانی آزمائشوں کا نتیجہ ہے۔" اسی لیے ثقافتی نظریات مسلم دانشمندوں اور غیر مسلم دانشمندوں کے مختلف ہے، کیونکہ اسلام ایک ضابطہ حیات اور الہیٰ مذہب ہے۔ اس لیے جو شریعت احمد المرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیکر تشریف لائے، ابدی ہے اور قیامت تک کے لئے ہے۔

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے قول، فعل اور تقریر یعنی سنت پر عمل کرنا ہم پر واجب ہے، جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے، وہ قیامت تک حلال اور جن چیزوں سے آپ نے منع فرمایا، وہ قیامت تک کے لئے حرام ہیں۔ احادیث پیامبر اور احکام خداوندی کی روشنی میں ثقافت اسلامی کے کچھ بنیادی اصول ہیں، جن میں رد و بدل کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلامی ثقافت کسی راہب یا پادری کے بنائے ہوئے اصول تو نہیں ہیں، جن میں ردو بدل ممکن ہو۔ اسلام قرآنی آیات و احادیث پیامبر کی روشنی میں پھیلا ہے اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ لہذا کوئی بھی کام اگر اسلامی اصول سے ٹکرا جائے تو اسے ثقافت تو نہیں کہا جا سکتا بلکہ خرافات، بدعت اور اختلافات پیدا کرنے کے لئے مقدمہ اور پل کہا جاسکتا ہے۔

آج یورپ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اگر ترقی کی ہے تو علم کی مرہون منت ہے، کسی مذہب نے تعلیم پر اتنا زور نہیں دیا، جتنا اسلام نے دیا ہے۔ تعلیم کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں قرآنی آیات اور احادیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھری پڑی ہیں۔ اسلام نے "مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا واجب قرار دیا ہے" اور "مھد سے لحد تک علم حاصل کرنے کی بھی تاکید کی ہے۔" مگر افسوس آج مسلمان علمی میدان میں قدم جما کر ثقافت، سیاست اور قوانین قرآن مجید سے اخذ کرتے اور مغرب میں پھیلاتے اس کے برعکس ہم مسلمان غرب پرست، قوم پرست، نسلی اور علاقائی گروہوں میں بھٹکے ہوئے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔

لہذا ہم مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، کبھی بھی یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں بن سکتے، اس لیے ہمیں ہاتھوں میں ہاتھ دیکر، متحد ہوکر جہدوجہد کرنے کی ضرورت ہیں۔ بقول اقبال:
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر
تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں، وہ خطاپوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریّا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم
خبر کا کوڈ : 924234
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش