QR CodeQR Code

ہم شاہ پہ مر گئے ہیں لیکن خیریت سے ہیں

5 Apr 2021 02:47

اسلام ٹائمز: اے مدافعان حرم ہماری ملت، ہمارا ایمان، ہماری تاریخ آپ اور آپکے پاکیزہ لہو کی محتاج ہے۔ قسم باخدا جو کام آپ نے اپنے پاکیزہ لہو سے کیا، ہم قیامت تک اُسکے مقروض ہیں۔ مثلِ اکبر و قاسم آپ نے ثانی زہراء کے حرم پہ آنچ نہ آنے دی اور یزیدیت کو دکھا دیا کہ جب تک بیبیؑ کے عباسؑ زندہ ہیں، دشمن کو ہرگز اجازت نہ دینگے کہ وہ حرم ثانی زہراؑ کو میلی آنکھ سے دیکھے۔ سیرتِ علی اکبر پر عمل کرتے ہوئے آپ نے وقت کے شمر کیخلاف جہاد کیا اور آسمانی رمزیں پا کر بخوشی مٹی میں اتر گئے۔


تحریر: سویرا بتول

جب جب یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ داعشی تکفیری دہشت گرد ایک بار پھر منظم ہو رہے ہیں، نجانے کیوں وہ مٹھی بھر عشاق شدت سے یاد آتے ہیں، جنہوں نے اپنے لہو سے داعش جیسے تکفیری خونخوار بھیڑیوں کو قابو کیا۔ وطنِ عزیز پاکستان سے ہزاروں افراد شام میں داعش میں بھرتی کیے گئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق فقط پنجاب سے ساٹھ ہزار افراد داعش کا حصہ بنے۔ اِن تمام افراد کا ہدف ایک ہی تھا یعنی مقدس مقامات کو مسمار کرنا۔ اس آئیڈیالوجی کے مطابق سب سے پہلے آلِ سعود نے جنت البقیع میں روضہ سیدة النساء العالمین جنابِ فاطمہ زہراؑ کو مسمار کیا اور اگر امت کی طرف سے شدید ردعمل کا خوف نہ ہوتا تو عین ممکن تھا کہ مسجدِ نبوی کو بھی منہدم کر دیا جاتا۔

یزید جو اکسٹھ ہجری میں فرزندِ رسول کے مدمقابل آیا تھا، آج ایک بار پھر اپنی نئی شکل کے ساتھ سامنے آن کھڑا ہوا ہے، بس فرق یہ ہے کہ اس نے اپنا نام داعش رکھ لیا ہے اور وہ علی اعلان کہہ رہا ہے کہ وہ اسلامی خلافت کا وارث ہے اور وہ اپنی خلافت اور طاقت کے بل بوتے پر دنیا بھر سے ملنے والی مالی مراعات پر اتراتے ہوئے، اپنے اسلاف کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کربلا کا میدان سجانے والوں کی قبریں اکھاڑ دے گا۔ گویا ایک بار پھر خانوادہ نبوت و رسالت کی مقدس ہستیوں کو تہ تیغ کرکے ان کے اہلِ بیتؑ کو اسیر کر لے گا۔ وہ مسجد کے محراب میں کھڑا ہوا چیختا ہے، چلاتا ہے، چنگھاڑتا ہے کہ وہ ایسا کرے گا۔ پھر اکسٹھ ہجری کی طرح فتوے باز قاضی شریح کی نسل والے اسے فتوے بھی جاری کرتے ہیں، اسے کھلی چھٹی بھی دی جاتی ہے اور ہر قسم کی مالی امداد کی یقین دہانی بھی کروائی جاتی ہے۔

ایسے میں کچھ درد دل رکھنے والے پاک طینت جوان آگے بڑھے، جنہیں ہم مدافعین حرم کے نام سے جانتے ہیں، انہوں نے پوری دنیا کو داعش کے منحوس اثرات اور مقاصد سے پاک کیا۔ یہ وہ دیوانے تھے جو چراغِ ہدایت پہ نچھاور ہونے کے لیے منڈلاتے رہے، خوشبو کو پاتے پاتے اپنے محبوب اور مقدس مقام پہ پہنچ گئے۔ مدافعان حرم ہم ہی میں سے تھے، ہمارے ہی گردوپیش میں ہوتے تھے مگر یہ بات طے ہے کہ وہ لوگ سبک رفتار تھے، ہم سے تیز چلنے والے تھے، ہم سے آگے بڑھنے والے تھے اور یہ ہم سے آگے بڑھ گئے، ہم ایک بار پھر اے کاش اے کاش کہتے رہ گئے اور وہ تنہا ہجرت کے زخم سجائے سارے وعدے وفا کر گئے۔
جب تک دنیا باقی ہے تم زندہ ہو
اے میرے وطن کے شہزادو، تم زندہ ہو
خوشبو کے روپ میں اے پھولو تم زندہ ہو
تم زندہ ہو، تم زندہ ہو


وہ عاشقانِ خدا مدافعین ِحرم جنہوں نے اپنے لیے سرخ موت کو چنا، تاکہ ہمیں سیاہ موت کے دیوانوں سے بچا سکیں۔ وہ اپنے خون کے ہر قطرے سے اسلام کو زندگی بخشتے، تاریخ کو طیش میں لاتے، زمانے کے مردہ اور بے جان ڈھانچے میں گرمی حیات پیدا کرتے اور ہجرت کے تمام زخم اپنے سینوں میں سجائے خوشی سے شہادت کو گلے لگاتے اس دنیا سے روانہ ہوگئے اور ہم آج تک نام نہاد مصلحت کی سیاہ قبا اوڑھے چپ سادھے بیٹھیں ہیں۔
اپنے ہی وطن میں یہاں محکوم ہیں ہم تو
اپنی ہی سرزمین پر مظلوم ہیں ہم تو
ظلم و ستم کی انتہاء ظالم نے یہاں کی
خنجر ہیں وہ ظالم مگر حلقوم ہیں ہم تو


اے مدافعان حرم ہماری ملت، ہمارا ایمان، ہماری تاریخ آپ اور آپ کے پاکیزہ لہو کی محتاج ہے۔ قسم باخدا جو کام آپ نے اپنے پاکیزہ لہو سے کیا، ہم قیامت تک اُس کے مقروض ہیں۔ مثلِ اکبر و قاسم آپ نے ثانی زہراء کے حرم پہ آنچ نہ آنے دی اور یزیدیت کو دکھا دیا کہ جب تک بیبیؑ کے عباسؑ زندہ ہیں، دشمن کو ہرگز اجازت نہ دیں گے کہ وہ حرم ثانی زہراؑ کو میلی آنکھ سے دیکھے۔ سیرتِ علی اکبر پر عمل کرتے ہوئے آپ نے وقت کے شمر کے خلاف جہاد کیا اور آسمانی رمزیں پا کر بخوشی مٹی میں اتر گئے۔ آج کے حسینؑ کو بھی ایسے ہی نیک طینیت، زندہ دل اور پاکیزہ نوجوانوں کی ضرورت ہے، جو ظہورِ قائمِ آلِ محمد کے لیے زمینہ سازی کریں اور مدافعین حرم کی طرح اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے وقت کے یزید و شمر کے خلاف جہاد کریں۔
خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینیت را

یہ مٹھی بھر عشاق جو آئے اور ہجرت کے سارے زخم اپنے سینوں پہ سجا کر چلے گئے، نہ اِن کی کروڑوں کی مراعات تھی، نہ اِن کی اولادیں دوسرے ملکوں میں زیر تعلیم تھیں، یہ اگلے مورچوں میں تنہاء تکفیریت سے لڑتے رہے، جانتے تھے کہ جس راہ کا انتخاب کیا ہے، وہاں شہادت حتمی ہے۔ معشوق کی راہ میں جان دینے کی تڑپ انہیں ایک پل بھی آرام سے بیٹھنے نہ دیتی تھی۔
یہ آئے اور عہد نبھا گئے
یہ زمین پر بیٹھ کر کھاتے
زمین پر سو جاتے
یہ بو ترابی تھے
کربلائی تھے
زینبی تھے
حسینی تھے
شہادت کے عاشق
خیمہ حسینؑ کے محافظین
جو مٹی سے اٹھے
آسمانی رمزیں پاکر
مٹی میں اتر گئے
اور ہم نادان، احسان فراموش
ان کے حق میں دو لفظ بولنے سے بھی ڈرتے ہیں
ہم محسن شناس نہیں بلکہ
احسان فراموش ہیں


خبر کا کوڈ: 924861

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/924861/ہم-شاہ-پہ-مر-گئے-ہیں-لیکن-خیریت-سے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org