1
Saturday 3 Apr 2021 20:32

عراقی وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب اور اس کے اہداف

عراقی وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب اور اس کے اہداف
تحریر: محمد رضا تقی زادہ
 
31 مارچ 2021ء کے دن عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی نے اپنے چند وزراء کے ہمراہ سعودی عرب کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے میں دونوں ممالک کے درمیان کئی دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔ اس دورے میں عراقی وزیراعظم کے وفد میں سیاسی اور اقتصادی عہدیداران کے ساتھ ساتھ جنوب میں واقع سرحدی صوبوں کے عہدیداران بھی شامل تھے۔ گذشتہ چند ہفتوں میں عراقی کابینہ کے اراکین نے خطے کے مختلف ممالک جیسے قطر، مصر، اردن، پاکستان اور آرمینیا کا دورہ کیا ہے اور ان مملک کے حکام سے مذاکرات انجام دیے ہیں۔ یاد رہے مصطفی الکاظمی کی حکومت ایک عبوری حکومت ہے اور اکتوبر 2021ء میں عراق میں مڈٹرم الیکشن منعقد ہونے ہیں۔ موجودہ عراقی حکومت کی حالیہ سفارتی سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ الیکشن میں اپنی جیت حتمی قرار دے چکی ہے۔
 
عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کے دورہ سعودی عرب میں دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں کئی معاہدے طے پائے ہیں۔ عراقی وزیراعظم کے سیکرٹری نشرواشاعت نے ان معاہدوں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں ممالک نے ایکدوسرے سے چند گنا ٹیکس نہ لینے کا بھی معاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سعودی عرب نے عراق کی برآمدات کیلئے خصوصی امدادی فنڈ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اسی طرح عراق اور سعودی عرب کے درمیان پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دینے کیلئے بھی ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کی روشنی میں مختلف اقتصادی شعبوں میں ترقی کیلئے مشترکہ منصوبہ بندی انجام دی جائے گی۔ اگرچہ دونوں ممالک میں طے پانے والے معاہدے بظاہر اقتصادی نوعیت کے ہیں لیکن ان کے ذریعے عراق میں سعودی عرب کی مداخلت کا زمینہ ہموار کیا جا رہا ہے۔
 
عراق اس وقت بہت زیادہ معاشی مسائل اور چیلنجز سے روبرو ہے۔ انہی شدید معاشی مسائل کے باعث یکم اکتوبر 2019ء سے عراق میں عوامی احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ یہ مظاہرے جو "اکتوبر مظاہروں" کے نام سے معروف ہیں، سابق وزیراعظم عادل عبدالمہدی کا مستعفی ہونے پر مجبور ہو جانے کا باعث بنے تھے اور ان کی جگہ مصطفی الکاظمی کو عبوری وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا۔ موجودہ عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی سعودی عرب جیسے ممالک سے تعلقات کو فروغ دے کر ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کو تقویت دینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب مختلف ممالک کو مالی امداد کے بہانے انہیں اپنی مطلوبہ پالیسیوں پر گامزن ہونے پر مجبور کرنے میں خاص تجربہ اور مہارت رکھتا ہے۔
 
یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ عراق میں مڈٹرم الیکشن بہت قریب ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے مصطفی الکاظمی کو وزارت عظمی کیلئے امیدوار بننے کی سبز جھنڈی دکھا دی ہے یا کم از کم انہیں اپنی عدم مخالفت کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ مغربی ایشیا خطے کے گذشتہ چند برس کے حالات و واقعات کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ خطے میں سعودی عرب کا کردار انتہائی تخریب کارانہ اور منفی رہا ہے۔ دہشت گرد عناصر اور گروہوں کی حمایت اور پشت پناہی، خطے میں سعودی جرائم میں سے ایک ہے۔ یہ دہشت گردی وہابیت طرز فکر کی بنیاد پر انجام پا رہی ہے جس کا مرکز سعودی عرب ہے۔ وہابیت کا ایک اہم اور بنیادی رکن اپنے علاوہ باقی تمام فرقوں کی تکفیر اور مسلمانوں میں نفرت اور دشمنی کا بیج بونا ہے۔
 
خطے میں سعودی عرب کا ایک اور تخریبی کردار مختلف اقوام اور مذاہب میں تفرقہ ڈال کر ان میں جنگ کی آگ لگانا ہے۔ عراق، شام، یمن اور لبنان میں سعودی عرب کی کارستانیاں واضح ہیں۔ سعودی حکمران خطے کے ممالک میں مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے ہر ممکنہ ہتھکنڈہ بروئے کار لاتے ہیں جن میں سے ایک ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور اپنی کٹھ پتلی حکومتیں برسراقتدار لانا ہے۔ یمن اور لبنان کی موجودہ صورتحال اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ لبنان نے وزیراعظم سعد الحریری نے 4 نومبر 2017ء کے روز سعودی عرب دورے کے دوران اچانک اپنا استعفی پیش کر دیا اور لبنان شدید سیاسی بحران کی لپیٹ میں آ گیا۔ عربی نیوز ویب سائٹ 21 کے مطابق سعودی ولیعہد کے اعلی مشیر ثامر السبھان سمیت سعودی حکام نے سعد حریری کو استعفی دینے پر مجبور کیا تھا۔
 
دوسری طرف سعودی عرب نے یمن کے سابق اور مستعفی صدر منصور ہادی کو واپس اقتدار میں لوٹانے کے بہانے گذشتہ سات برس سے اس ملک کے خلاف تباہ کن جنگ شروع کر رکھی ہے جس میں ایک لاکھ سے زائد بیگناہ شہری جاں بحق جبکہ بڑی تعداد میں یمنی شہری زخمی اور جلاوطن بھی ہو چکے ہیں۔ عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کا دورہ عراق ظاہر کرتا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں کامیابی کیلئے سعودی عرب اور امریکہ کے دیگر حمایت یافتہ ممالک کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ لیکن وہ ملک کے زمینی حقائق سے غافل ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ کی جانب سے امریکہ کے فوجی انخلاء پر مبنی بل منظور کئے جانے کے بعد ملک سے امریکی فوجیوں کا انخلاء عراق میں ایک عوامی مطالبہ بن چکا ہے لہذا عراقی عوام ہر ایسے سیاسی لیڈر کو مسترد کر دیں گے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا دامن تھامنے کی کوشش کرے گا۔
خبر کا کوڈ : 925049
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش