QR CodeQR Code

مدافعینِ حرم کون تھے؟

3 Apr 2021 23:38

اسلام ٹائمز: ایسے موقعوں پر ڈاکٹر علی شریعتی کا وہ جملہ شدت سے یاد آتا ہے کہ اگر حق و باطل کے میدان میں تمہاری شرکت نہیں تو پھر جہاں چاہے رہو، نماز پڑھو یا شراب پیو، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جب امام حسینؑ حج کو چھوڑ کر باہر نکلے تو جن لوگوں نے اپنا طواف جاری رکھا اور امامؑ کا ساتھ نہیں دیا، وہ اُن لوگوں سے مختلف نہیں ہیں، جو شام کے سبز محل کے چکر لگاتے ہیں۔ آج اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ مدافعین ِحرم نے اپنی ذمہ داری پوری کی اور یزیدِ وقت کو للکارا۔ اب آپ بتایئے کہ ہمارا کیا وظیفہ ہے۔؟


تحریر: سویرا بتول
 
جب ہم محافظینِ حرم کا ذکر کرتے ہیں تو بہت سارے سوالات جنم لیتے، مگر افسوس یہ سوال غیر نہیں بلکہ اپنے اٹھاتے ہیں۔ آئیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ مدافعینِ حرم کون تھے؟ انہیں شام کس نے بھیجا؟ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان سے ہزاروں افراد شام میں داعش میں بھرتی ہوئے، یہ وہ حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور ان کا فقط ایک ہی ہدف تھا اور وہ مقدس مقامات کو بلاتفریق کسی مسلک کے مسمار کرنا۔ یہ ایک ایسی خطرناک فکر ہے کہ خدشہ تھا کہ موقع ملتے ہی حرمِ نواسی رسول سیدہ زینب سلام علہیا کو نشانہ بنایا جاسکے اور اس گروہ سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ یہ کام شام میں کرے، کیونکہ ماضی قریب میں ازواجِ مطہرات، اہلِ بیت اطہار اور اصحابِ کرام کے مزارات اور قبور کو اسی آئیڈیالوجی کے تحت مسمار کیا جاچکا تھا۔

پاکستان میں اکثر حکومتی افراد یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ حرمین شریفین کو خطرہ ہوا تو ہم اِس کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے، یعنی یہ دو ممالک کے تعلقات اور معاہدوں کا معاملہ نہیں بلکہ تقدسِ اسلام اور ناموس ِ رسول کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے دو بڑے مکاتب، مکتبِ اہل سنت اور مکتبِ اہل بیتؑ کے ہاں روضہ رسولﷺ اور اہلِ بیت رسول کا تحفظ اور تقدس حرمِ رسول میں شامل ہیں اور ان کا دفاع کرنا شریعی فریضے کے زمرے میں آتا ہے اور اسی شرعی فریضہ کو انجام دیتے ہوئے مدافعین حرم نے اسلام کی حرمت اور تقدس کی حفاظت کی۔

یہ آج تک ثابت نہیں ہے کہ پاکستان سے کوئی لشکر گیا ہو ایران عراق جنگ میں اور کوئی شہید ہوا ہو اور ہم اُس کا یومِ شہادت مناتے ہوں، ایسی کوئی سادہ سی مثال بھی نہیں ملتی۔ اگر پاکستانی شیعہ ایرانی مفادات کے لیے کام کرتے ہوتے، اگرچہ ایران کو ایرانی ہونے کی نہیں انقلابی ہونے کی سزا تھی، پھر بھی کوئی شخص پاکستان سے ایران عراق کی جنگ میں شامل نہیں ہوا۔ لہذا یہ بات درست نہیں ہے کہ پاکستانی شیعہ ایرانی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ شام میں انگشت شمار جوانوں کا جانا غیرت و حمیت کا معاملہ تھا۔ حرم مطہر کی حفاظت کا معاملہ تھا۔

اگر زینبیون کے شہداء میں شہادت سے پہلے اِن کی زندگی میں غور و فکر کریں تو ہمیں بہت خوبصورت نکات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر جوانوں کا شہادت سے پہلے یہ کہنا کہ امام حسینؑ نے کربلا میں ھل من ناصر کا نعرہ بلند کیا تھا، اب ایسا نہ ہو کہ اِس زمانے کا حسینؑ اکیلا رہ جائے۔ ایسا نہ ہو کہ عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینبؑ اِس زمانے کے یزیدیوں کے ہاتھوں دوبارہ گرفتار ہو جائیں۔ یہ بہت لطیف نکتہ ہے اور اِس کی جانب ہر محبِ اہل بیت کو غور و فکر کرنا چاہیئے۔ امام حسینؑ جانے یا کربلا کی مائیں جانیں کہ کیسے اپنے جواں لعل کو تیار کرکے مقتل گاہوں میں بھیجا۔ کیسے خاک و خوں میں غلطاں اُن کے اجسام کے ٹکڑے دیکھے اور اِن سب کے بعد زبان سے *ما رایت الا جمیلا* "میں نے جمالِ خدا کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا" جیسے فقرے ادا ہوئے۔

واقعی کربلا کی ماؤں کے حوصلے تھے۔ کربلا کی ماؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مدافعین حرم کے اہلِ خانہ نے اپنے جوان سپوت وقت کے یزید سے لڑنے کے لیے میدان میں اتارے اور سلام ہو اُن عشاق پر جو تکفیریت کے سامنے سیسیہ پلائی دیوار کی طرح  آخری لمحے تک ڈٹے رہے اور ہجرت کے تمام زخم مسکراتے ہوئے اپنے سینوں پر سجاتے رہے۔ لوگوں نے اِن کو کئی نام دیئے، طرح طرح کے طعنے دیئے، اپنے فتووں کی فیکٹریاں اِن پر کھول دیں، مگر وہ خیمہ حسینؑ کے محفافظین، ثانی زہراؑ کے عباس، جو اپنے ہدف اور وظیفے سے بخوبی آگاہ تھے، اہلِ دل، اہلِ معرفت و اہل شعور تھے۔ اس چکاچوند دنیا میں مہمان کی طرح آئے، تنہاء اگلے مورچوں پہ ڈٹے رہے اور ہم ایک بار پھر حسرت کے ساتھ اے کاش اے کاش کا راگ الاپتے رہے کہ کاش مولا کربلا میں ہوتے۔۔۔!

زینبیون نہ صرف ہمارے لیے بلکہ اہلِ بیتؑ سے عشق رکھنے والے ہر باضمیر انسان کے لیے قابلِ فخر ہیں۔ آخر کب تک اِن کے بارے میں باتیں کانوں میں سرگوشیوں میں کی جائیں گی؟ وہ جوان جو نہ صرف اس ملت کے لیے بلکہ وطنِ عزیز کے لیے بھی قابلِ  افتخار ہیں، جن کی مظلومیت یہ ہے کہ جن کے جسدِ پاک کو اپنے وطن نہ لایا گیا، وہ کب تک یوں ہماری بے حسی اور کوتاہ نظری کا شکار رہیں گے؟ ضروری ہے کہ ہر بار وہی بات کہی جائے جس کی سُر سامراج کو پسند ہو۔؟
نسلِ نو سے کہو بولنا چھوڑ دے
سوچنا جرم ہے سوچنا چھوڑ دے


ایسے موقعوں پر ڈاکٹر علی شریعتی کا وہ جملہ شدت سے یاد آتا ہے کہ اگر حق و باطل کے میدان میں تمہاری شرکت نہیں تو پھر جہاں چاہے رہو، نماز پڑھو یا شراب پیو، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جب امام حسینؑ حج کو چھوڑ کر باہر نکلے تو جن لوگوں نے اپنا طواف جاری رکھا اور امامؑ کا ساتھ نہیں دیا، وہ اُن لوگوں سے مختلف نہیں ہیں، جو شام کے سبز محل کے چکر لگاتے ہیں۔ آج اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ مدافعین ِحرم نے اپنی ذمہ داری پوری کی اور یزیدِ وقت کو للکارا۔ اب آپ بتایئے کہ ہمارا کیا وظیفہ ہے؟ ہمیں اپنا وظیفہ خود معلوم کرنا ہے، ہمیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں آج کی کربلا میں کب، کہاں اور کیسے کردار ادا کرنا ہے، ورنہ ایسا نہ ہو کہ بہشتی سواری ایک دفعہ پھر آئے اور ہم دنیا کی قیدی دوبارہ یالیتنا معکم کی گردان کرتے رہیں۔
ہم صف اول کے دعویدار تھے اور شہداء کو صفِ آخر میں سے چنا گیا(رہبر معظم)


خبر کا کوڈ: 925091

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/925091/مدافعین-حرم-کون-تھے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org