2
5
Monday 5 Apr 2021 01:16

تیرا باپ بھی دے گا آزادی!!!

تیرا باپ بھی دے گا آزادی!!!
تحریر: محمد سلمان مہدی
 
یہ ایک نعرہ ہے جو اس تحریر کے عنوان کے طور پر مستعار لیا گیا ہے۔ یہ نعرہ نام نہاد عورت مارچ میں لگایا گیا۔ یہ نعرہ مغربی زایونسٹ بلاک کی فنڈڈ این جی اوز کی فنڈڈ ایکٹیوسٹ خواتین کے توسط سے پاکستان بھر میں گونجا۔ خواتین کی اس کیٹگری کو جتنی آزادی، چین و سکون میسر ہے، شاید ہی پاکستان کی عام خواتین کو یہ سب کچھ میسر ہو!۔ باوجود این، آئین پاکستان کو نہ ماننے والیوں کو مزید آزادی درکار ہے اور امریکی زایونسٹ بلاک کی طاقت کے بل بوتے پر پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو ببانگ دہل دھمکی دی گئی ہے کہ تیرا باپ بھی دے گا آزادی!! یہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کو ماننے والی پاکستان کی باحجاب بیٹیاں بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح کے مزار کے سامنے اس گرم موسم میں کھلے آسمان تلے احتجاجی دھرنے سے پاکستان کی حکمران اشرافیہ سے ایک ایسا مطالبہ کر رہی ہیں، جو آئین پاکستان کے عین مطابق ہے، لیکن ان کی ایک نہیں سنی جا رہی! پاکستان کے شیعہ مسلمان شہریوں کی غیر اعلانیہ اور غیر قانونی قید و بند اور تشدد کا خاتمہ، فقط یہ ایک مطالبہ!
 
آئین پاکستان کی تمہید میں ہی بہت واضح لکھا جا چکا، حقوق اور آزادیوں کی ضمانت دی جا چکی۔ بدقسمتی سے یہ عملی طور پر نافذ نہیں ہے۔ اس آئین میں تمہید، ابتدائیہ سے لے کر متعدد شقوں میں شہریوں کے حقوق کی جو لفظی ضمانت دی گئی ہے، اس کو عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے آئین کی شق پانچ سے پہلے چار شقوں میں بھی بہت واضح طور پر شہریوں کے حقوق کا تذکرہ موجود ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آئین کی شق 6 کو اعلانیہ چار مرتبہ پاؤں تلے روند کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے وردی پوش جرنیلوں کی باقیات آج بھی یہ طے کرتے ہیں کہ محب وطن کون ہے اور کون نہیں!! پاکستان کا اصل المیہ یہی ہے کہ آئین کی حکمرانی کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ وہ خود ہیں کہ جنہیں آئین کے آگے اپنی ٹوپی اتار کر سر تسلیم خم کر دینا چاہیئے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف چاروں نے غیر آئینی طریقے سے اور اپنے ادارے کی طاقت سے آئین پاکستان کو یا منسوخ کیا یا معطل و التوا میں رکھا۔ اس جرم کو پاکستان کے آئین نے مملکت سے سنگین غداری قرار دیا ہے!
 
اس سنگین غداری کے مجرموں کو سیلوٹ کرنے والوں کو آئین پاکستان کا مطالعہ کرکے اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اعلانیہ اجتماعی توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ظہیرالدین بابر سے آفتاب نومی اور سردار تنویر حیدر علی ریحان تک جتنے بھی شیعہ مسنگ پرسنز ہیں، یعنی جنہیں ریاستی اداروں نے جبری قیدی بنا رکھا ہے، ان میں سے کسی کا بھی جرم آئین کی شق چھ کے تحت جرم کا ارتکاب کرنے والے جرنیلوں سے بڑا نہیں ہوسکتا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ان متدین انقلابی شیعوں کا جرم جو بھی ہو، کافر کافر کا نعرہ لگانے والے لدھیانوی تکفیری دہشت گرد اور تحریک طالبان احسان اللہ احسان جیسوں کے جرم سے بڑا نہیں ہوسکتا۔ یہ دونوں آئین و قانون کے مجرم تو پاکستان میں مزے کریں اور علامہ اقبال اور جناح کے پاکستان کے نظریاتی شیعہ بیٹے جبری قیدی بنائے جائیں، یہ عدل و انصاف کے مسلمہ اصولوں کی بدترین نوعیت کی خلاف ورزی ہے۔ آزادی اور حقوق پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی آئینی انسانی حق ہے۔ ریاست پاکستان کے ان بے لگام سنگین غداری کے ارتکاب کرنے والوں کو عدلیہ لگام ڈالے۔ آئین تقاضہ کرتا ہے کہ عدلیہ آزادی سے آئینی قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے۔
 
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلام آباد ہائیکورٹ اور صوبائی عدالت عالیہ (ہائیکورٹ) کے چیف جسٹس اور دیگر ججوں سے گزارش ہے کہ وہ فوری طور پر شیعہ مسنگ پرسنز کے ایشو پر از خود نوٹس لے۔ ریاست پاکستان کے ان سکیورٹی اداروں کے سربراہان کو براہ راست عدالت طلب کرکے کھلی سماعت کرے۔ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)،  انٹیلی جنس بیورو، انسداد دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی)، پاکستان رینجرز سمیت جتنے بھی عسکری ادارے علامہ اقبال اور جناح کے پاکستان کے نظریاتی بیٹوں کی جبری قید میں ملوث ہیں، ان سب کے سربراہان کو عدالت کی کھلی سماعت میں طلب کیا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ احسان اللہ احسان کو کیوں جبری قید میں نہ رکھا!؟ وہ کیسے فرار ہوگیا!؟ ان سے پوچھا جائے کہ کالعدم سپاہ صحابہ کے دہشت گرد نئے نئے ناموں سے تکفیری ٹولے بنا کر کیوں آزاد پھر رہے ہیں!؟  محمد احمد لدھیانوی جس نے یہ اعتراف کیا کہ بھارت کے دارالعلوم دیوبند میں اسکے بزرگان نے 1980ء کے عشرے میں پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے مسلک کو کافر قرار دینے کی مہم چلانے کی پالیسی بنائی تھی۔ کافر کافر کا نعرہ لگا کر پاکستان میں شیعہ نسل کشی کرنے والے حق نواز جھنگوی لعنت اللہ علیہ کے جانشین محمد احمد لدھیانوی دہشت گرد کو فوجی چھاؤنی کا دورہ کیوں کروایا گیا!؟
 
یہ لوگ پاکستان کو کس آئین اور کس قانون کے تحت یرغمال بنا کر رکھے ہوئے ہیں۔!؟ وہ کہتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے!؟ کیا خاک سبق سیکھا ہے!؟ اگر سقوط پاکستان سانحہ 16 دسمبر1971ء سے سبق سیکھا ہوتا تو پانچ جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء فوجی بغاوت کرکے مارشل لاء مسلط نہ کرتا۔ اگر امریکا اور سعودی زایونسٹ بلاک کی افغانستان پراکسی جنگ سے سبق سیکھا ہوتا تو جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999ء کو آئین پامال کرکے اقتدار پر فوجی بغاوت کرکے قبضہ نہ کرتا۔ اگر کافر کافر کے نعرے لگانے والے دہشت گردوں کے جی ایچ کیو، پی این ایس اور پی اے ایف، ایس ایس جی، آئی ایس آئی پر حملوں سے سبق سیکھ کر تکفیری دہشت گرد نظریئے کو دفن کر دیا ہوتا تو سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور سے بچا جا سکتا تھا۔ کیا یہ سبق سیکھا کہ احسان اللہ احسان کو بڑے پروٹوکول میں آرام سے رکھا اور سکون سے جانے دیا!؟ کیا یہ سبق سیکھا!؟ شیعہ مسنگ پرسنز کو اگر باعزت رہائی نہیں ملتی تو پاکستان کے غیرت مند بیٹے دنیا میں کہیں بھی ہوں، ان پر لازم ہے کہ اپنے مادر وطن کو آرٹیکل جی تھری اور تھری ناٹ تھری کے زور پر یرغمال بنانے والوں کی اصلیت پوری دنیا میں بے نقاب کریں۔
 
پاکستان کے غیرت مند بیٹوں پر لازم ہے کہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ سرتاج عزیز کی کتاب بیٹوین ڈریمس اینڈ ریالیٹیز پڑھیں اور اس میں جس ادارے نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر سویلین حکومت کو ڈکٹیشن دی، اس کا نام اور تفصیل بیان کریں۔ سی آئی اے کے اسلام آباد پاکستان میں سابق چیف آف اسٹیشن رابرٹ گرینائیر کی کتاب۔۔۔۔ (88 Days to Kandahar) ۔۔۔۔ کا مطالعہ کریں اور ان میں موجود تفصیلات ادارے کے نام کے ساتھ عوام کو بتائیں۔ بہت ہوگیا یہ ظلم و ستم! پاکستان کے غیرت مند نظریاتی بیٹوں نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اب تک بہت سے ناقابل تردید حقائق کو دانستہ بیان نہیں کیا کہ اے کاش کہ ریاست پاکستان کے یہ کرتا دھرتا پاکستان کو اس کے آئین کے تحت شفافیت کے ساتھ چلنے دیں، لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے نہ سدھرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔

شیعہ مسنگ پرسنز کے محترم خانوادگان اور ان مظلوموں کے حامی اپنی فریاد سے عرش الہیٰ کو ہلاکر رکھ دیں! اب ھیھات مناالذلۃ کا نعرہ مستانہ بلند کر دیں! تیرا باپ بھی دے گا آزادی، یہ ہمارا نعرہ نہیں، بلکہ شیعہ مسنگ پرسنز کا نعرہ ہے تم خود مانو آزادی، تم خود دو  آزادی! کہ جس آزادی کو آئین نے لازم قرار دے رکھا ہے! وہ آئین کہ جو عدالت و آزادی کے اس خدا پر ایمان لایا ہے کہ جس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پاکستان میں اس اللہ کی حاکمیت اعلیٰ ہے۔ اگر عدلیہ انصاف نہیں کرتی تو ان خائنوں اور غداروں کا مقدمہ اس کی عدالت میں چلے گا!) (ہم پاکستان میں آئین کی حکمرانی کے قائل ہیں، کیا آئین کی حکمرانی کا مطالبہ جرم ہے؟ دہشت گردوں سے دوستی اور محب وطن پاکستانیوں سے سوتیلا سلوک قابل قبول نہیں ہے۔)
خبر کا کوڈ : 925299
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Syedshah Jafri
United States
Mohtram bohat sahi baat kee. Buzurg kehtey hain keh agar kuwain main kutta gir jaey tou pehley kutta nikalo phir us ka pani pak karo. Bilkul isee tarha sab sey pehley karachi ko wapis capital bananey kee baat honee chahiyeh. Laikin badqismatee sey shia ho ya koi bhee maslak ka koi bhee talab sey kutta nikalney kee himmat nahi kerta ya phir razi hey keh Quaid e Azam key Pakistan ka capital Karachi tha. Agar koi bhee samjhta hey keh is masaley key baghair masail hal ho saktey hain dar e parda woh Ayoub, ziad, musharrf kee policies _set ittefaq kertey hain.ppp, pml, anp, ji, jui koi bhee nahi boley ga. Yeh sab key sab Pakistan dushman hain.
Nooraan
Pakistan
شیعہ مسنگ پرسنز
یہ ایک بہت بڑی سازش ہے۔ جو دشمن (امریکہ اسرائیل سعودیہ اور ان کے ہمنواؤوں) نے شیعہ قوم کے خلاف تیار کر رکھی ہے، یعنی
۱۔ دنیا کو دو بلاک شیعہ و سنی میں تقسیم کرنا۔ جیسا کہ اب واضح ہوچکا ہے۔
۲۔ شیعہ قوم کو اپنی پاکستانی فوج اور حکومت کے خلاف کھڑا کرنا۔
۳۔ شیعہ قوم کو دبانا، کنارے لگانا۔
جبکہ پاکستانی حکومت اور پالیسی سازوں میں دشمن کے ایجنٹ موجود ہیں، جس کی وجہ سے دشمن ابھی تک کامیاب ہے۔
ہماری پیشکش