0
Monday 5 Apr 2021 15:35

شہیدِ کربلا کون تھے؟

شہیدِ کربلا کون تھے؟
تحریر: سویرا بتول

آج ایک ایسے شہید کی برسی ہے، جنہیں شہیدِ کربلا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ شجاعت، دلیری اور بہادری کا دوسرا نام جس کے ذکر سے یزیدِ وقت پر آج تک ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ آپ کا اصل نام ثاقب حیدر تھا اور آپ سیدہ زینب سلام علہیا کے حقیقی سپاہیوں میں سے تھے۔ عین ممکن ہے کہ ہم شہیدِ کربلا کو زیادہ نہ جانتے ہوں، مگر دشمن آج تک یہ نام سن کر ڈر جاتا ہے اور وہ اب تک آپ کی دماغی سطح و پلاننگ پر ریسرچ کر رہا ہے۔ شہید ثاقب حیدر المعروف شہیدِ کربلا جنہیں پاکستان کے شہداء کی صف میں کھڑا کریں تو یہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور شہید ناصر صفوی سے کم نہ تھے اور اگر ایرانی شہداء میں دیکھیں تو شہید ابراہیم ہمت اور شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کے ہم پلہ نظر آتے ہیں۔ شہیدِ کربلا نے ایسا کیا کام کیا کہ آج تک یزیدِ وقت پر اُن کی ہیبت طاری ہے۔؟

یہ وہ جوان ہے، جس نے اپنی جوانی اس دنیا کی عیش و عشرت میں قربان کرنے کی بجائے حرمِ سیدہ زینب سلام علہیا کے دفاع میں قربان کر دی۔ جب کبھی اس شہید سے کہا جاتا کہ آپ حرمِ ثانی زہراء میں تصویر کیوں نہیں بنواتے تو آپ سر جھکا کر کہتے کہ کہاں حضرت عباسؑ کی بہن اور کہاں میں اُن کا ادنیٰ غلام۔ جب کبھی شہیدِ کربلا سے پوچھا جاتا کہ عشق کیا ہے تو کہتے عشق یعنی دمشق۔ اِن کا یہ مشہور جملہ آج تاریخ کا حصہ بن گیا، عشق یعنی دمشق۔ عاشقوں کی منزل کا دوسرا نام دمشق ہے اور محفاظینِ حرم وہ حقیقی عشاق تھے، جنہوں نے سیدہ ؑ سے کیے اپنے عشق کی کیا خوب لاج رکھی۔ انہیں اس بات کی ہرگز پرواہ نہ تھی کہ انہیں اپنے وطن کی خاک نصیب ہوگی یا نہیں۔ یہ بوترابی تھے، خیمہ حسینؑ کے محافظین، اپنے ہدف اور وظیفے سے بخوبی آگاہ، یہ آئے اور آسمانی رمزیں پاکر بخوشی خاک میں مل گئے۔

شہیدِ کربلا جس نے اپنی زندگی اِس وقت قربان کی، جب ایک خوشحال عیش و عشرت سے بھرپور زندگی ان کی منتظر تھی۔ اِن کی دبئی میں جاب تھی اور شادی کو ابھی فقط تین ماہ ہوئے تھے اور وہ حرمِ سیدہ کے دفاع کے لیے روانہ ہوگئے۔ اگر  وہ چاہتے تو آج کل کے جوانوں کی طرح لاکھ حیلے و بہانے کرسکتے تھے کہ وہاں باقی لوگ موجود ہیں، میرے ہونے سے کیا ہوگا۔ لیکن انھوں نے اسے اپنا شرعی فریضہ سمجھا اور وہاں دفاع کیا اور دفاع فقط عام سپاہی بن کر نہیں بلکہ اک بہادر، نڈر، شجاع و زیرک کمانڈر بن کر کیا، جس کی پلاننگ و دشمن کو تہ تیغ  کرنے کی صلاحیت نے دشمن کی نیندیں اڑا دیں۔ ان کی زندگی میں تو وہ نام کربلا سے ڈرتے ہی تھے، لیکن بعد از شہادت بھی ان کی حکمت عملی و بہادری کی وجہ تلاش کرنے میں لگے کہ آخر کربلا تھا کیا۔؟؟

کیا وجہ تھی کہ وہ جب دشمن پر حملہ کرتا تو کامیاب لوٹتا؟ جس نے خود کہا کہ مجھے زیادہ ساتھی نہیں فقط 50 ساتھی چاہیئں، جو دشمن کے سامنے ڈٹ سکیں اور بصیرت سے کام لیں۔ یعنی اک جوان کی خصوصیت میں اک خاص بات اس کا بابصیرت ہونا قرار دیا۔ شہید کربلا یعنی شہید ثاقب اسی ٹیکنالوجی میں زندگی گزارنے والے جوان تھے، جس نے اپنے دوست کو میسج پر کہا کہ *اگر میں مر جاوں تو میرے کفن پہ یا زینبؑ لکھنا* شہید کربلا جس نے جوانوں کو سست نہیں پڑنے دیا۔ جس کے لیے اول وقت نماز و بالخصوص نماز فجر بہت اہمیت رکھتی تھی۔ شہید کربلا جوانوں کے لیے بہترین و سادہ مثال ہیں۔ جس نے سادہ زندگی گزار کر اپنے آپ کو سیدہ کی حرمت کے لیے قربان کر دیا۔ آج کے جوانوں کو شہید ثاقب کو پڑھنا اور سمجھنا چاہیئے۔

شہادت کے بعد آپ کا پیکر دشمن کے علاقے میں رہ گیا، دو سال سات ماہ بعد آپکا جسدِ پاک ملا، جسے بہشتِ معصومہ میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اے شہیدِ کربلا، اے فخرِ پاکستان، اے علمدارِ زینبیون آپکی سرخ شہادت پر مقاومت اسلامی کا لاکھوں سلام۔ ہمیں آپ کی سرخ شہادت پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ *ہمارا درود و سلام ہو اس ملت کے شہداء کے ٹکڑوں پر* جو صحراؤں میں، جہاں صحرا کی تپتی ہوئی ہوا اور جنابِ سیدہ کی محبت کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا، آپ نے وہاں اپنے عشق کی داستان رقم کی۔
لہو دے کر بتلاؤ کہ عاشق ہو تم
عشق کے دعوے یونہی کیا نہیں کرتے
خبر کا کوڈ : 925388
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش