0
Monday 5 Apr 2021 18:37

تکریم مسجد

تکریم مسجد
تحریر: سید توکل حسین شمسی

علی بیٹا جاؤ دیکھو یہ مسجد میں شور کیسا ہے، مسجد اللہ کا گھر ہے۔ رسول خدا (ص) نے وہاں شور مچانے سے منع فرمایا ہے، وہاں عبادت کرنی چاہیئے، شور نہیں مچانا چاہیئے۔ دادا جی مولوی صاحب نے محلے کے تمام نوجوانوں کو اکٹھا کیا ہے، مسجد کی صفائی کرنے کے لئے، انہوں نے بتایا ہے کہ جو لوگ اللہ کے گھر میں جھاڑو دیتے ہیں، جنت اور حوریں ان کی مشتاق رہتی ہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں سے جھاڑو لینے گئے ہیں۔ دادا جی: بہت اچھی بات ہے بیٹا۔ مولوی صاحب نے سچ فرمایا ہے، ہمارے آٹھویں امام علی ابن موسیٰ رضا (ع) فرماتے ہیں کہ جو شخص مسجد کی نظافت کرتا ہے، جنت اور حوریں اس کی مشتاق رہتی ہیں۔ اس کام کو بہشتی حوروں کا حق مہر کہا گیا ہے۔

علی: دادا جی ہم اپنے گھروں کی روزانہ صفائی کرتے ہیں، لیکن اللہ کے گھر کی صفائی صرف خاص دنوں میں کیوں کرتے ہیں۔؟ دادا جی: کیونکہ ہم نے کام والی کو پیسے دینے ہوتے ہیں، اس لئے چاہتے ہیں کہ ہر روز آکر صفائی کرے۔ پھر آپ کی دادو اس کے سر پر کھڑی رہتی ہیں، برتن کیسے دھو رہی ہے، ڈسٹنگ کیسے کر رہی ہے، تھوڑی سی بھی گرد رہنے نہ پائے اور اگر غلطی سے رہ جائے تو اس بیچاری کی تو شامت آجاتی ہے، ایسے میں اس مسکین سے اظہار ہمدری بہت بڑا سنگین جرم ہے۔ تم کیا جانو میاں یہ کام والی بہت کام چور ہوتی ہے، تم بیچ میں ٹانگ مت اڑائیو، ہمیں معلوم ہے ان سے کام کیسے کروانا ہے۔ ان کا تو دل چاوے ہے کہ بیس منٹ میں جھاڑو پوچا کیا اور وہ گئی۔

بیٹا ہمارا اخلاقی و شرعی وظیفہ ہے کہ ہم جہاں اپنے رب سے راز و نیاز، عبادت اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، اس مکان کی تنظیف و تطہیر کا خصوصی خیال رکھیں۔ رسول خدا (ص) مساجد کی نظافت کا خاص اہتمام فرماتے۔ جب بھی مسجد میں تشریف لاتے، اپنے آپ کو معطر فرماتے، آپ (ص) فرماتے ہیں کہ جو شخص شب جمعہ آنکھوں میں سرمہ ڈالنے کے برابر مساجد سے گرد و غبار صاف کرتا ہے، خدا اس کی مغفرت فرماتا ہے۔ مولا علی (ع) فرماتے ہیں کہ ہر ہفتے مسجد کو معطر کرنا چاہیئے۔ علی بیٹا کچھ اسلامی ممالک میں شعبان کے آخر عشرے میں تکریم مسجد کے عنوان سے ہفتہ منایا جاتا ہے، جس میں مساجد کی سفیدی کی جاتی ہے، گرد و غبار صاف کیا جاتا ہے، جائے نمازوں کو مرتب کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد رحمتوں اور برکتوں والے مبارک مہینے کا آغاز ہوتا ہے، یہ سب ماہ رمضان کے استقبال کے لئے ہے۔

دادا جی ہمیں رمضان مبارک کا استقبال کیسے کرنا چاہیئے؟ امی اور دادی تو ابو کو ایک لمبی خورد و نوش کی لسٹ لکھوا رہی ہیں۔ کیا رمضان میں بہت زیادہ کھاتے ہیں۔؟ دادا: ہا ہا نہیں بیٹا یہ خورد و نوش کا مہینہ نہیں ہے، یہ تو عبادت کا مہینہ ہے، دن کو روزہ اور راتوں کو عبادت کرنی چاہیئے، جب ہم روز رکھیں گے تو ہمیں ان غریبوں و مسکینوں کی بھوک پیاس کا احساس ہوگا، جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔ اس احساس کے بعد ہم اللہ کی نعمتوں کا شکر صحیح معنوں میں ادا کر پاتے ہیں اور ہمارے اندر دوسرے نادار انسانوں پر خرچ کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ علی بیٹا ہمارا روزہ رکھنے کا مقصد حکم الہیٰ کی تکمیل اور حصول تقویٰ ہے۔ استقبال رمضان کے لئے سب سے پہلے ہمیں یہ دعا ضرور کرنی چاہیئے کہ اللہ ہمیں صحت و سلامتی عطا فرمائے، تاکہ دسترخوان الہیٰ سے ہم محروم نہ رہ جائیں۔

پھر ہمیں خدا کی بہت بہت شکر گزاری کرنی چاہیئے کہ اس نے یہ رحمت و برکت و بخشش والا مہینہ ہماری زندگی میں دوبارہ قرار دیا۔ اس ماہ کی آمد پر جشن و خوشحالی بھی بنتی ہے، کیونکہ جنت کے سب دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے نہ صرف بند کئے جاتے ہیں بلکہ اس شیطان مردود کو بھی زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے، جو ہمیں رسیوں میں باندھ کر جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ اس مبارک ماہ کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں عبادت کے لئے کمر کس لینی چاہیئے۔ عبادتوں کا ثواب اتنا بڑھا دیا جاتا ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی اس کا حساب ہی نہیں لگا سکتا۔ جو مسلمان روزے کی حالت میں سو جائے تو وہ بھی عبادت ہی لکھی جاتی ہے۔ بیٹا ہمیں رمضان کی آمد سے پہلے روزے کے فقھی مسائل پر بھی توجہ دینی چاہیئے، جیسے ابھی مسجد میں صفائی کرتے ہوئے گرد و غبار اڑے گی، اگر گاڑا غبار روزے کی حالت میں خلق تک چلا جائے تو روزہ باطل ہو جاتا ہے۔

اس لئے ہم رمضان سے پہلے ہی مسجد کا گرد و غبار صاف کر دیتے ہیں۔ چلو بیٹا ہم بھی مسجد چلتے ہیں اور اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں، ایسا نہ ہو سارا ثواب اور ساری حوریں مسجد کے خادم لے جائیں۔ آج اگر کسی سے کہا جائے کہ آپ کو مولا علی (ع) کے حرم میں خاکروبی کرنی ہے تو وہ اس بات کو اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھے گا اور سمجھنا بھی چاہیئے، لیکن مولا علی (ع) کو جنت سے بھی زیادہ مسجد پسند تھی، پھر وہاں خاکروبی کرنا کیسا ہوگا، مولا علی (ع) فرماتے ہیں کہ جو مسجد سے گرد و غبار صاف کرتا ہے، اس کو ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب دیا جاتا ہے۔ علی: دادا جی جلدی چلیں، سب سے پہلے اس کام کو ہم شروع کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 925415
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش