QR CodeQR Code

ساہیوال ضلع سرگودھا کا محمود نظامی

7 Apr 2021 00:34

اسلام ٹائمز: مغوی کی بیوی نے تھانے میں رپورٹ درج کروائی ہے، جس پر ابھی تک ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی۔ ڈی پی او کے پاس پیش ہوئے مگر تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔ کیا آزاد اسلامی ریاست جسے ریاست مدینہ کہا جاتا ہے، اس میں ساہیوال کے اس سفید پوش شہری کیلئے آواز اٹھانا جرم ہے۔؟ ارباب اختیار! یہ فقیر منش بندہ ہے۔ اپنے آپ میں مست رہتا ہے۔ علم و حکمت کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا، ہمارا لاڈلا ہے، کوئی بڑی شخصیت آواز نہ اٹھائے، ہم نے تو اپنا حق مانگنا ہے۔۔۔۔۔ ہم نے یہیں رہنا ہے، یہیں جینا مرنا ہے، ہمیں ہمارا لاڈلا لوٹا دیں۔


تحریر: سید محمد تعجیل مہدی

محمود نظامی تونسہ شریف کا لاڈلہ ہے۔ ایک درویش صفت انسان ہے۔ حکمت و دانائی کی باتیں کرتا ہے اور فلسفہ بیان کرتا ہے۔ ایک مرتبہ ڈپٹی کمشنر کا دورہ تھا تو گارڈز سے کسی بات پہ تکرار ہوگئی، بات بڑھی تو پولیس والوں نے پکڑ کر تھانے میں ڈال دیا۔ معروف صحافی رؤف کلاسرا صاحب نے اس واقعے کو تحریر کیا تھا اور نظامی کے لیے آواز بلند کی تھی۔ اس واقعہ کو پڑھ کے مجھے بے ساختہ درویش صفت، ابوذر مزاج سردار تنویر حیدر المعروف علی ریحان ولایتی یاد آگئے۔ سادہ لباس میں ملبوس ایک عام آدمی جو کئی دلوں میں راج کرتا ہے۔ علم و حکمت کی باتیں کرتا ہے اور دانائی اس کی پیشانی سے ٹپکتی۔ ایک ویب سائٹ سے وابستہ ہے اور اس طرح روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے۔ آج ساتواں دن ہونے کو ہے اور اس عام پاکستانی کی کسی کو کوئی خیر خبر نہیں ہے۔ چھ دن قبل رات کی تاریکی میں درجنوں وردی پوش افراد آتے ہیں اور اس محب وطن کو بلا جواز جبری طور پر گن پوائنٹ پر اغواء کر لیتے ہیں۔

یوں رات کی تاریکی میں چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کرکے ایک بزرگ اور معزز شہری کو اغواء کرنے کی اجازت کونسا قانون دیتا ہے؟ نہایت دکھ کی بات ہے کہ ڈی آئی خان میں دہشت گردوں کو جیل سے بھگانے میں ریاست کے اہلکار شریک تھے۔ آرمی پبلک سکول کا دلخراش سانحہ ہوا تو سب کو امید تھی کہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی مگر ہم نے اپنے بچوں کے قاتل احسان اللہ احسان کو بھگا دیا، جبکہ دوسری طرف ایک بزرگ شہری کو بلا جواز اغواء کر لیا جاتا ہے، جس کے خلاف آج تک نقص امن کی ایک درخواست تک نہیں ملتی۔ ایک عرصہ سے ملک عزیز میں یہ خوف و ہراس کی فضا بنی ہوئی ہے۔ رات کی تاریکی میں کچھ نامعلوم افراد جو سب کو معلوم ہیں آتے ہیں اور بغیر کسی ثبوت کے لوگوں کو اٹھا لیتے ہیں۔ مسنگ پرسنز کے والدین و اہل خانہ کس کربناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، وہ ناقابل بیان ہے۔ کسی کی ماں بیمار ہے اور آخری سانسیں گن رہی ہے تو کسی کا باپ اپنے پیارے کی راہ تکتے ہوئے گزر چکا ہے۔

کراچی میں گذشتہ کئی دنوں سے مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے احتجاجی دھرنا دیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے پرامن احتجاج کیا گیا تو پولیس نے سب مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔ ابھی گذشتہ روز معروف عالم دین کے بیٹے کو اغوا کرکے نامعلوم مقام پر لے جایا جاتا ہے اور اس پہ تشدد کیا جاتا ہے۔ آئین پاکستان میں ہر قسم کے جرم کی واضح سزا موجود ہے۔ عدالتی نظام بھی موجود ہے، جو کبھی بھی کسی کا جرم ثابت ہونے پر سزا دے سکتا ہے۔ مگر اغواء کرنے والے یا تو ماوراء عدالت ہیں کہ وہ آئین و دستور کی دھجیاں اڑا سکتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔۔ یا پھر عدلیہ اس قدر کمزور ہے کہ کئی لوگوں کے قاتل کھلے عام پھرتے ہیں اور معصوم لوگوں کی ناموس و جان کو خطرہ ہے۔

مغوی کی بیوی نے تھانے میں رپورٹ درج کروائی ہے، جس پر ابھی تک ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی۔ ڈی پی او کے پاس پیش ہوئے مگر تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔ کیا آزاد اسلامی ریاست جسے ریاست مدینہ کہا جاتا ہے، اس میں ساہیوال کے اس سفید پوش شہری کے لیے آواز اٹھانا جرم ہے۔؟ ارباب اختیار! یہ فقیر منش بندہ ہے۔ اپنے آپ میں مست رہتا ہے۔ علم و حکمت کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا، ہمارا لاڈلا ہے، کوئی بڑی شخصیت آواز نہ اٹھائے، ہم نے تو اپنا حق مانگنا ہے۔۔۔۔۔ ہم نے یہیں رہنا ہے، یہیں جینا مرنا ہے، ہمیں ہمارا لاڈلا لوٹا دیں۔


خبر کا کوڈ: 925723

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/925723/ساہیوال-ضلع-سرگودھا-کا-محمود-نظامی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org