1
Wednesday 7 Apr 2021 19:22

اردن میں ناکام بغاوت کے پس پردہ اہداف

اردن میں ناکام بغاوت کے پس پردہ اہداف
تحریر: محمد فہمی
 
حال ہی میں اردن میں ایک ناکام بغاوت انجام پائی ہے۔ بغاوت کے الزام میں اردن کے سابق ولیعہد اور موجودہ بادشاہ کے سوتیلے بھائی شہزادہ حمزہ کو گھر میں نظربند کرنے سمیت کئی اعلی سطحی حکومتی عہدیداران کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے جن سے سیکورٹی اور انٹیلی جنس ادارے پوچھ گچھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گرفتار شدہ افراد میں اردن کی شاہی عدالت کے سابق سربراہ باسم ابراہیم عوض اللہ بھی شامل ہیں۔ یاد رہے ابراہیم عوض اللہ کچھ عرصے کیلئے سعودی عرب کیلئے اردن کے خصوصی ایلچی بھی رہ چکے ہیں۔ 2018ء میں ابراہیم عوض اللہ کو غیر متوقع طور پر اس عہدے سے معزول کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے انتہائی قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔
 
یہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے 500 ارب ڈالر مالیت پر مبنی "نئوم" نامی میگا پراجیکٹ کے کچھ ٹھیکے ابرہیم عوض اللہ کو بھی دیے گئے ہیں۔ اسی طرح ترکی میں سعودی عرب کے صحافی جمال خاشقجی کے پراسرار قتل کے بعد بھی ابراہیم عوض اللہ سعودی ولیعہد کے قریبی افراد میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اردن میں ناکام بغاوت کے الزام میں گرفتار کی گئی ایک اور اہم شخصیت حسن بن زید ہیں جن کا تعلق بھی شاہی خاندان سے ہے۔ حسن بن زید اردن کے علاوہ سعودی عرب کی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ حال ہی میں اردن کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اس ناکام بغاوت میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پائے گئے ہیں۔
 
اردن کے اٹارنی جنرل نے بھی ناکام بغاوت کے بارے میں سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے جاری تحقیقات کو خفیہ رکھنے پر زور دیتے ہوئے شہزادہ حمزہ سے متعلق ہر قسم کی خبر شائع کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اردن میں آزادی اظہار کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان ایک اہم پیغام لے کر اردن روانہ ہو چکے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وہ اردن کی شاہی عدالت کے سربراہ باسم عوض اللہ کی آزادی کی کوشش کریں گے۔ بعض سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ناکام بغاوت کے پس پردہ سینچری ڈیل کی راہ میں درپیش رکاوٹیں ختم کرنے جیسے محرکات اور اہداف کارفرما ہو سکتے ہیں۔
 
یاد رہے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے ایک جامع منصوبہ متعارف کروایا تھا جو سینچری ڈیل کے نام سے معروف ہے۔ اس منصوبے میں دو ریاستی حل کا انکار کرتے ہوئے فلسطینیوں کو آزادی اور خودمختار ریاست کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت بعض عرب ممالک سینچری ڈیل کے شدید حامی ہیں اور اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مل کر اسے جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ البتہ فلسطینی گروہوں سمیت اکثر عرب اور اسلامی ممالک اس منصوبے کے شدید مخالف ہیں کیونکہ اس میں فلسطینیوں کے بنیادی ترین حقوق جیسے جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپس کے حق کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ اردن کا شمار بھی سینچری ڈیل کے مخالفین میں ہوتا ہے۔
 
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ حالیہ ناکام بغاوت درحقیقت اردنی فرمانروا کو سینچری ڈیل کی مخالفت ترک کر کے امریکہ، اسرائیل اور اس کے ہمنوا عرب ممالک سے تعاون کرنے پر مجبور کرنے کیلئے دباو ڈالنے کی خاطر انجام پائی ہے۔ اردن کے فرمانروا عبداللہ دوم نے اب تک اس منصوبے کی مخالفت کی ہے اور یمن کے خلاف جنگ میں بھی سعودی عرب کا ساتھ نہیں دیا۔ انہوں نے سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے یمن جنگ کیلئے فوجی بھیجے جانے کی درخواست بھی مسترد کر دی تھی۔ اردن میں بغاوت کی حالیہ کوشش کا اصل مقصد شاہ عبداللہ دوم پر دباو ڈالنا تھا اور فی الحال امریکہ اور اسرائیل اردن میں سیاسی بحران پیدا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے کیونکہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ کمزور ہونے میں خود اسرائیل کا بھی نقصان ہے۔
 
دوسری طرف اردن بھی اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے مسلسل استحصال سے شدید تنگ آ چکا ہے اور موجودہ حالات کو ان تینوں ممالک کے مداخلت آمیز اقدامات کو کم کرنے کا بہترین موقع سمجھتا ہے۔ اردن ان عرب ممالک میں بھی اچھا خاصہ اثرورسوخ رکھتا ہے جن سے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سفارتی تعلقات استوار کر رہی ہے۔ مزید برآں، اردن فلسطین اتھارٹی اور اسرائیلی حکام کے درمیان جاری امن مذاکرات میں بھی اہم کردار کا حامل ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں اسرائیل اور اردن کے تعلقات میں بھی تناو پیدا ہوا ہے جس کے اثرات اسرائیل کی جانب سے اردنی ولیعہد کو مقدس مقامات کی زیارت سے روکنے اور اردن کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم کے طیارے کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی صورت میں دیکھے گئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 925851
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش