0
Friday 9 Apr 2021 00:36

بغداد واشنگٹن معاہدہ

بغداد واشنگٹن معاہدہ
اداریہ
بغداد اور واشنگٹن کے درمیان بدھ کو ہونے والے مذاکرات کے نئے دور میں عراق سے غیر ملکی فوجیوں کے باہر نکلنے پر تاکید کی گئی ہے۔ عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد الصحاف نے بغداد واشنگٹن کے درمیان اسٹرٹییجک مذاکرات ختم ہونے کے بعد عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں کچھ تفصیلات بیان کیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسٹریٹیجک مذاکرات میں سکیورٹی، طبی اور اقتصادی چیلنجوں کے بارے میں تفصیل سے گفتگو ہوئی اور بغداد و واشنگٹن نے اسٹریٹیجک معاہدے کی پابندی کے ضرورت پر زور دیا ہے۔ عراق کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ان مذاکرات میں طے پایا ہے کہ عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی اب صرف صلاح و مشورے نیز فوجی ٹریننگ کی حد تک باقی رہے گی اور ان کی حیثیت صرف مشیر و ٹرینر کی ہوگی اور تمام غیر ملکی فوجی ایک معینہ پروگرام اور نظام الاوقات کے تحت عراق سے باہر نکل جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ باقی بچے بیرونی فوجی پوری طرح عراق کی فوجی چھاؤنیوں تک محدود رہیں گے۔ عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بغداد اور واشنگٹن نے عراق سے غیر ملکی جنگی فوجیوں کے انخلا پر اتفاق کیا ہے۔ یاد رہے کہ عراق اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹیجک مذاکرات کا تیسرا دور بدھ کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے انجام پایا۔ دوسری جانب عراق کے عصائب اہل الحق گروہ کے سربراہ نے عراق میں امریکی فوجیوں کی ضرورت سے متعلق عراقی وزارت خارجہ کے بیان پر سخت تنقید کی اور کہا کہ عراق کو امریکی فوجیوں کی کسی بھی شکل میں موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور عراقی وزیر خارجہ کا بیان عراق کی مسلح افواج کی واضح توہین ہے۔ انھوں نے امریکی فوجیوں کی موجودگی کی ضرورت ہونے پر مبنی عراقی حکام کے بیانات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی فوجیوں کی ضرورت کے سلسلے میں بات کرنا حقیقت میں فوجی و سکیورٹی اداروں اور سب سے بڑھ کر فوج اور الحشدالشعبی جیسے اداروں کی توہین ہے اور عراق کو بیرونی فوجیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ادھر چند دن پہلے عراقی وزیراعظم نے کہا ہے کہ ملک کو امریکی فوجیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور بغداد واشنگٹن کے درمیان اسٹریٹیجک مذاکرات کا مقصد باہمی تعلقات پر نظرثانی کرنا ہے۔ انہوں نے روزنامہ الشرق الاوسط کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عراق کے پاس داعش کے خلاف جنگ کا تجربہ ہے اور اب امریکی فوجیوں کی موجودگی کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ مسئلہ کہ جسے واشنگٹن جان بوجھ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ ہے کہ عراقی پارلیمنٹ میں داعش مخالف نام نہاد اتحاد کے عراق سے انخلا پر مبنی بل کے منظور ہونے کے بعد بھی عراق میں امریکی اور اس کے اتحادی افواج کی موجودگی، بنیادی طور پر غیر قانونی اور عراق کے قومی اقتدار اعلیٰ کی آشکارہ خلاف ورزی ہے۔ اس بناپر اس وقت عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی غاصبانہ اقدام شمار ہوتی ہے۔

درحقیقت عراق میں امریکیوں کا رویہ بالکل غاصب حکومت کے رویوں جیسا ہے۔ اس درمیان ایک مسئلہ کہ جس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی، وہ یہ ہے کہ امریکہ عراق میں داعش سے مقابلے کے بہانے اپنی فوجی موجودگی باقی رکھنا چاہتا ہے، جبکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں عراقیوں کی بڑے پیمانے پر کامیابی اور داعش کے خلاف حشدالشعبی کی کاری ضربیں عراق میں اس دہشت گرد گروہ کا شیرازہ بکھرنے اور اس کی مکمل شکست پر منتج ہوئی ہیں۔ یہ ثمرات اور کامیابیاں ایسے عالم میں حاصل ہوئی ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف شام و عراق میں نام نہاد امریکی اتحاد کے اقدامات نے عملی طور پر داعش کے خلاف جنگ میں کوئی مدد نہیں کی ہے اور امریکی اتحاد ایک لاحاصل اتحاد ثابت ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 926106
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش