1
Friday 9 Apr 2021 00:15

یوکرائن میں امریکہ کی شیطنت

یوکرائن میں امریکہ کی شیطنت
تحریر: سید رحیم نعمتی

یوکرائن کو روس سے علیحدہ ہوئے کئی سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یہ علیحدگی اس وقت انجام پائی، جب یوکرائن میں مغرب نواز سیاسی رہنماء اقتدار پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس علیحدگی کے بعد یوکرائن کے مشرقی حصوں میں علیحدگی پسند تحریکوں نے جنم لیا اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ یوکرائنی حکومت اور علیحدگی پسند رہنماوں میں مذاکرات کے بعد دونوں جانب جنگ بندی اور آپس میں قیدیوں کے تبادلے پر راضی ہوگئے تھے۔ یہ معاہدہ مینسک معاہدے کے نام سے معروف ہے۔ اگرچہ توقع کی جا رہی تھی کہ اس معاہدے کے نتیجے میں یوکرائن میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو جائے گی، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی حکومت اس معاہدے کو سبوتاژ کرکے مشرقی یوکرائن میں دوبارہ سے جنگ کی آگ لگانے کے درپے ہے۔

حال ہی میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے یوکرائنی وزیر دفاع آندرے تاران اور امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ٹیلیفون پر بات چیت کی ہے۔ یہ گفتگو یوکرائن کے بارے میں امریکہ کی تازہ ترین فعالیت سمجھی جاتی ہے۔ امریکہ نے اس اقدام کے ساتھ ساتھ روس پر بھی کچھ الزامات عائد کئے ہیں، جن میں یوکرائن کی سرحد کے قریب فوجی سرگرمیاں بڑھانے اور اشتعال انگیز اقدامات انجام دینا شامل ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ ایک بار پھر یوکرائن میں تناو پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس خطے میں تناو کی نئی لہر اس وقت پیدا ہوئی، جب یوکرائن نے روس پر سرحدی علاقوں میں اپنی فوجی پوزیشن مضبوط بنانے کا الزام عائد کیا اور اسے خطرناک نتائج کی دھمکی دی۔

یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا: "سرحدی علاقوں میں فوجی مشقوں کی صورت میں اپنی طاقت کا مظاہرہ اور اشتعال انگیز اقدامات انجام دینا روس کا روز کا معمول بن چکا ہے۔" انہوں نے روس پر الزام عائد کیا کہ وہ یوکرائن پر اپنا رعب جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح یوکرائن کے وزیر خارجہ دیمیترو کولبا نے بھی روس پر الزام عائد کیا کہ وہ مشرقی یوکرائن اور کریمہ جزیرے میں سکیورٹی صورتحال کو منصوبہ بندی کے تحت خراب کر رہا ہے۔ روس کے خلاف یہ الزامات ایسے وقت عائد کئے جا رہے ہیں، جب مغربی فوجی اتحاد نیٹو مسلسل روس کے پڑوسی ممالک میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یوکرائنی حکام کی جانب سے روس کے خلاف حالیہ بیانات کا ایک مقصد مشرقی حصے میں روس کی سرحد کے قریب نیٹو افواج کی موجودگی کا زمینہ فراہم کرنا ہے اور وہ کافی حد تک اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یوکرائنی حکومت سات سال پہلے اس ملک میں بحران اور خانہ جنگی کے آغاز سے لے کر اب تک ہمیشہ اسی کوشش میں مصروف رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح نیٹو کو روس کے مقابل لا کھڑا کریں۔ اس بار یوں دکھائی دے رہا ہے کہ نیٹو بھی یوکرائن کی حمایت میں عملی اقدامات انجام دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ نیٹو نے روس کو خبردار کیا اور حتی فوج بھیجنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ نیٹو کمانڈرز نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ ہم صرف روس کے ساتھ تعاون کونسل میں بیٹھنے پر اکتفا نہیں کریں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نیٹو کمانڈرز کی دھمکی یوکرائن سے متعلق امریکی پالیسی سے لاتعلق نہیں ہوسکتی بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ انہوں نے واشنگٹن کو اعتماد میں لے کر ہی فوج بھیجنے کی دھمکی دی ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر اور وزیر دفاع کی جانب سے اپنے یوکرائنی ہم منصب حکام سے ٹیلی فونک رابطے بھی یوکرائن کے روس مخالف موقف کو مضبوط بنانے کی غرض سے انجام پائے ہیں۔ مزید برآں، امریکی حکام نے یوکرائنی حکام کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ روس کے ساتھ ہر قسم کے فوجی ٹکراو کی صورت میں کییف کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اس کی ہر ممکنہ حمایت کریں گے۔ امریکہ کی جانب سے گذشتہ ہفتے فوجی کشتی کے ذریعے 350 ٹن اسلحہ بھی یوکرائن بھیجا گیا ہے، جو اوڈیسہ کی بندرگاہ پر یوکرائن کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔

امریکہ کے یہ اقدامات دراصل یوکرائن کو روس کے مقابلے میں مزید اقدامات انجام دینے کیلئے سبز جھنڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن یوکرائن میں جنگ کی آگ لگانے میں اندرونی سطح پر کسی رکاوٹ سے روبرو نہیں ہیں بلکہ امریکی اراکین کانگریس کی اکثریت ان کی اس پالیسی کی حامی ہے۔ لہذا جو بائیڈن یوکرائن میں تناو کی شدت میں اضافہ کرکے ملک کے اندر اپنی سیاسی حمایت میں اضافہ کرنے کے درپے ہیں۔ امریکی کانگریس کے ریپبلکن اراکین بھی روایتی طور پر روس مخالف ہیں۔ یوں یہ کہنا درست ہوگا کہ یوکرائن کی جانب سے روس کے خلاف عائد کئے گئے حالیہ الزامات ڈرامے کا آغاز ہے اور ہمیں روس کے ساتھ یوکرائن کے تعلقات میں مزید تناو کی توقع رکھنی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 926114
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش