0
Thursday 8 Apr 2021 23:26

پہلی اور آخری رخصت

شہید آیت اللہ العظمیٰ سید محمد باقر صدر (رہ) کی برسی کی مناسبت سے
پہلی اور آخری رخصت
ترتیب و تنظیم: سعید خان پٹھان

5 اپریل 1980ء بروز ہفتہ، دوپہر اڑھائی بجے پورے نجف کی حفاظت کے ادارے کا رئیس اپنے معاون "ابو شیما" کے ساتھ شہید صدر (رہ) کے گھر پہنچا اور انہیں پیغام پہنچایا کہ "(بعث) پارٹی کے عہدیدار چاہتے ہیں کہ آپ سے بغداد میں ملاقات کریں۔" شہید صدر (رہ) نے کہا کہ اگر تمہیں مجھے گرفتار کرنے کا حکم ملا ہے تو ٹھیک ہے، تم جہاں چاہو گے میں چلونگا۔ رئیس نے کہا جی ہاں، مجھے آپکو گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شہید صدر (رہ) نے کہا کہ کچھ دیر میرا انتظار کرو، میں غسل (شہادت) کرلوں، کپڑے بدل لوں اور اپنے گھر والوں سے رخصت لے لوں۔ رئیس نے کہا کہ ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں ہے، آج یا کل ہی واپس آجاؤ گے۔ شہید صدر (رہ) نے کہا کہ میرے بچوں اور گھر والوں سے رخصت ہونے سے کیا تمہیں کوئی نقصان ہوگا۔؟ رئیس نے کہا کہ نہیں، لیکن ضروری نہیں ہے۔ جو کرنا ہے کرلو۔ شہید صدر (رہ) نے غسل شہادت کیا، دو رکعت نماز پڑھی اور کپڑے بدلے۔ اپنی حیران و پریشان والدہ کے پاس گئے۔ ان کے ہاتھ کو اپنے سینے سے لگایا اور پیار کیا۔ اس کے بعد ایک ایک بچے کو اپنے سینے سے لگایا اور پیار کیا۔

ان کے ان کاموں سے تمام بچے سمجھ گئے کہ وہ اپنے والد کو آخری بار الوداع کر رہے ہیں۔ وہ جب اپنی پندرہ سالہ بیٹی سے رخصت ہو رہے تھے تو ان کی بیٹی برداشت نہیں کرسکی اور دیوار کی طرف منہ پھیر کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ شہید صدر نے اپنی بیٹی کو آغوش میں لیا اور کہا: "میری پیاری بیٹی! ہر انسان کو موت آنی ہے۔ موت کسی بھی وجہ سے آسکتی ہے۔ ممکن ہے انسان کسی بیماری کی وجہ یا سوتے ہوئے یا کسی اور وجہ سے مر جائے، لیکن خدا کی راہ میں مر جانا بہت ہی اچھا اور شرف کا باعث ہے۔ میں اگر صدام اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں نہ مارا جاؤں، تو کسی بیماری یا کسی اور وجہ سے مر جاؤنگا۔ حضرت عیسی ؑ کے اصحاب کو آری سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے لکڑی کی صلیب پہ میخوں سے آویزاں کر دیا گیا، لیکن انہوں نے اطاعت اور بندگی کی راہ میں استقامت کی۔ میری پیاری بیٹی! پریشان نہ ہو، ہم سب آج یا کل مر ہی جائیں گے۔ باشرف ترین موت، "شہادت" ہے۔ میری پیاری بیٹی! میرے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، میں اس کے لئے راضی ہوں۔"

اس کے بعد اپنی اہلیہ سے رخصت لینے کی باری آئی، وہ ان کے سامنے کھڑے ہوئے اور انہیں غور سے دیکھنے لگے۔۔۔ اور انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا: "موسیٰ صدر(١) کی بہن! کل تمہارے بھائی کی باری تھی اور آج تمہارے ہمنشیں، شریک اور دوست کی باری ہے۔ آج میری باری ہے۔ میری جنت! تمہیں خدا کے حوالے کیا، صبر کرنا۔ ہم نے خدا کی بیعت کی ہے اور اس بیعت کو توڑا نہیں جاسکتا، ہم نے (خود کو) خدا کی رضا کے لئے فروخت کر دیا ہے اور خداوند سبحان نے (ہمیں) خرید لیا ہے۔ اے اپنے وطن اور گھر والوں سے دور! تمہاری ذمہ داری سنگین ہے اور گھر والوں کی ذمہ داری تمہارے کندھوں پر ہے۔ مجھے معاف کر دو۔ میں جا رہا ہوں، قیامت میں ملیں گے۔۔۔۔ تین دن میرا انتظار کرنا، اگر واپس نہ آؤں تو میری والدہ اور بچوں کو لے کر "کاظمین" میں میرے بھائی سید اسماعیل کے گھر چلی جانا۔" شہید صدر نے اپنی تمام گرفتاریوں میں صرف اسی دفعہ اپنے گھر والوں سے رخصت لی۔۔۔۔ *پہلی اور آخری مرتبہ۔*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)۔ امام موسیٰ صدر، شہید صدر (رہ) کے برادر نسبتی تھے، جنہیں شہید صدر (رہ) کی شہادت سے چند سال پہلے لیبیا کی حکومت نے اغوا کر لیا تھا۔ (بحوالہ: السیرۃ و المسیرۃ فی الحقائق و والوثائق، ج۴، ص ۲۷۰)

�� *باقر صدر: صدی کا نابغہ*��
�� *اپنے جد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے جوار، کاظمین شہر میں 1934ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔* بچپن میں ہی یتیمی کا روگ سہنا پڑا، چونکہ ابھی آپ بچپن کی بہار سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوئے تھے کہ والد محترم سید حیدر صدر داغ مفارقت دے گئے۔ آپ کی والدہ اور بھائی سید اسماعیل صدر کا آپ کی تربیت میں اہم کردار رہا۔
✅ *بچپن میں ہی آپ کی ذہانت زبان زد عام تھی*، جس کی دلیل یہ ہے کہ جب آپ کو اسکول میں داخل کرایا گیا تو سال کے وسط میں اساتذہ اس نتیجے پر پہنچے کو بچے کو اگلی کلاس میں بھیج دیا جائے اور پھر اگلے ایک سال میں آپ نے تیسری اور چوتھی کلاس کا بھی کورس مکمل کر لیا۔
�� جب سید کی عمر دس گیارہ سال تک پہنچی تو انہوں نے اپنے آپ کو فیملی کے اندر دو راستوں کے درمیان پایا۔ کچھ کا خیال تھا کہ سید باقر صدر کو بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیج دیا جانا چاہیئے، جبکہ خود سید دینی تعلیم اور حوزہ علمیہ میں داخل ہونے کے متمنی تھے۔ تین دن کی بھوک ہڑتال کے ذریعے سے آپ نے اپنا مطالبہ منوایا اور سب لوگ اس بات پر راضی ہوگئے کہ سید کو حوزہ علمیہ بھیج دیا جائے۔

�� 1946ء میں ( آپکی عمر 12 سال بنتی ہے) آپ اپنے بھائی سید اسماعیل صدر کے ساتھ *ہجرت کرکے کاظمین سے نجف اشرف تشریف لائے۔* اس دور میں آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ حوزے کی اکثر کتابیں بغیر استاد کے خود سمجھ سکتے تھے۔ سید باقر صدر دن میں سولہ گھنٹے تحصیل، مطالعے اور تفکر میں مشغول رہتے۔ کورس کی کتابوں کے علاوہ اخبار اور رسالوں کا مطالعہ بھی آپ کا شوق تھا۔ اکثر آپ امیر المومینؑ لائبریری اور نجف کی شوشتری لائبریری میں مصروف مطالعہ ہوتے۔ شیخ محمد رضا آل یاسین اور سید خوئی کے درس خارج سے استفادہ کیا۔ فقہ اور اصول کے درس خارج کو دس سال کی مختصر مدت میں ختم کیا۔ علماء نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ 22 سال کی عمر میں باقر صدر مسلم مجتہد تھے۔

جب آپ کی کتاب "فدک فی التاریخ" سید عبد الحسین شرف الدین تک پہنچی اور انہوں نے کتاب کو پڑھا تو فوراً بے اختیار بول پڑے: خدا کو گواہ مان کر کہتا ہوں کہ آپ مجتہد ہیں۔ یاد رہے کہ جس وقت یہ کتاب لکھی گئی ہے، اس وقت شہید کی عمر صرف 20 سال تھی۔ سید خوئی نے آپ کو 22 سال کی عمر میں اجتہاد کا اجازہ عطا کیا۔ ایسا ہونا تشیع کی تاریخ کا نادر موقع ہے۔ 26 سال کی عمر میں سید باقر صدر نے خود اصول کا درس خارج دینا شروع کیا اور پھر دو سال بعد فقہ کا بھی درس خارج بھی پڑھانا شروع کیا۔ اسی دوران آپ نے بہت سارے اچھے شاگرد تربیت کیے ،جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے تھا۔ 1962ء میں سید موسیٰ صدر کی ہمشیرہ کے ساتھ آپ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔

�� *آپ کی اہم تالیفات* میں ہمارا فلسفہ، ہماری اقتصاد، استقراء کی منطقی بنیادیں، اسلام میں بغیر سود کے بینک، قرآنی مکتب، ائمہ اہل بیت ؑاور دوسری دسیوں کتابیں اور لیکچرز ہیں۔ آپ نے فقہ، اصول، تفسیر، فلسفہ، عقائد، تاریخ، اقتصاد وغیرہ کے موضوعات پر مفید تحریریں لکھیں۔ سید محمد باقر صدر نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس موضوع میں تقلید کی بجائے جدید نظریات پیش کیے۔ آپ نے اسلام کے اقتصادی، معاشرتی، فکری نظام کو قرآن و حدیث اور عقلی بنیادوں پر بیان کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام پر کاری ضربیں لگائیں اور ان کے مقابلے میں اسلام کے خالص نظام کو بیان کیا۔ آپ کی تصنیفات آج بھی محققین کے مطمع نظر اور بہت ساری یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔

�� *علمی میدان کے علاوہ آپ نے عملی طور پر سیاسی اجتماعی میدان میں بھی قدم رکھا۔* 1957ء میں عراق کے اندر "الدعوہ اسلامی پارٹی" کی بنیاد رکھی اور وہاں کے مظلومین کے اجتماعی سیاسی حقوق کے حصول کے لیے میدان میں اترے۔ آہستہ آہستہ اس پارٹی کی جڑیں معاشرے میں مضبوط ہونے لگیں اور حکومت وقت اسے اپنے لیے خطرہ محسوس کرنے لگی۔ اسی دوران آپ نے اپنے ایک مشہور فتوے میں عراق کی بعث پارٹی میں شمولیت کو حرام قرار دیا، جس سے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ ایران میں اسلامی انقلابی کی کامیابی کے بعد آپ نے فوراً اس انقلاب کی تائید کی اور مبارکباد پیش کی، جس سے بعثی حکومت مزید طیش میں آگئی۔ حکومت کی طرف سے کئی بار مختلف پرکشش آپشنز آپ کے سامنے رکھے گئے، لیکن آپ نے ہمیشہ انکار کیا۔ عراقی ایجنسیز کی طرف سے کہا گیا کہ آپ صرف چند جملے امام خمینی اور انقلاب اسلامی کے خلاف لکھ دیں، آپ کو قید سے چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن اس جری سید نے کچھ بھی لکھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں شہادت کے لیے آمادہ ہوں۔ انسانیت اور دین کے خلاف میں ایک بھی قدم نہیں اٹھا سکتا۔

⚫ کئی بار آپ کو نظر بند، کئی بار قید کرنے اور مختلف قسم کے ٹارچر اور سزاوں کے باوجود جب آپ کے پائے استقامت میں کسی قسم کی لغزش نہیں دیکھی اور آپ نے بعث پارٹی کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تو صدام لعین نے فیصلہ کیا کہ آپ کو اب راستے سے ہٹانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ *اس طرح اس عظیم اسلامی مفکر کو 9 اپریل 1980ء کو بغداد میں نہایت جسمانی اذیت کے بعد گولی مار کر شہید کیا گیا۔* آپ کو نجف اشرف وادی السلام میں لے جا کر دفنایا گیا۔ جہاں کچھ عرصے تک کے لیے دادا امیر المومنین ؑ کی طرح آپ کی قبر بھی عام لوگوں کے لیے مجہول رہی۔ پھر وہاں سے کچھ مومنین نے (1994ء میں) آپ کی لاش کو موجودہ قبر اور ضریح میں منتقل کیا، جہاں آپ ابدی نیند سو رہے ہیں۔

آپ کے ساتھ ساتھ صدام نے آپ کی بہن سیدہ بنت الہدیٰ کو بھی شہید کیا۔ اس وقت صدام کا یہ جملہ مشہور تھا کہ میں وہ غلطی نہیں کروں گا، جو یزید نے کی تھی۔ حسین کو قتل کرکے زینب کو زندہ چھوڑ دیا اور پھر زینب نے یزید کو رسوا کر دیا۔ میں بھائی کے ساتھ بہن کو بھی موت کے گھاٹ اتاروں گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ نہایت بے دردی کے ساتھ اس کنیز زینب کو مارا گیا، جن کی لاش کا آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ کہاں پھینکا گیا ہے اور اپنی دادی زہراء ؑ کی طرح آج تک مجہول القبر ہیں۔
�� *خداوند متعال اس شہید بہن بھائی کو، حسینؑ اور زینبؑ کے ساتھ محشور فرما۔
خبر کا کوڈ : 926116
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش