0
Friday 9 Apr 2021 19:30

سول فوجی تقسیم کو ختم کرو ملک بچاؤ

سول فوجی تقسیم کو ختم کرو ملک بچاؤ
تحریر: سید اسد عباس

جب میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کا امتحان دینے کے لیے کوہاٹ گیا تو ایک سوچ بار بار ذہن میں آتی تھی، جسے میں نے اپنے دیگر ساتھیوں کے گوش گزار بھی کیا کہ اگر پاکستان کی کریم (یعنی اعلیٰ ترین دماغ) پاک افواج میں بھرتی ہوتی ہے تو باقی ملک میں کیا رہ جائے گا کہ وہ ترقی کرے۔ یہ بھی سوچ آئی کہ اگر پاکستان کا انتظام و انصرام افواج پاکستان کے ہونہار افسران کے ہاتھوں میں دے دیا جائے تو یقیناً پاکستان میں سب معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ جن احباب نے ملٹری اکیڈمی کا امتحان دیا ہے، وہ لوگ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ایف اے یا ایف ایس سی پاس کرنے والے ہزاروں باکمال جوان اس امتحان میں شریک ہوتے ہیں۔ کم نمبر حاصل کرنے والے یا جسمانی طور پر لاغر لوگ ہی اس امتحان سے دور رہتے ہیں یا وہ طبقہ یہ امتحان نہیں دیتا، جن کے والد کا کوئی اچھا کاروبار ہو یا گھر میں عیش و عشرت ہو۔ ان میں سے کئی بچے بھی اس امتحان میں شرکت کرتے ہیں۔

آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ اتنے برسوں بعد مجھے یہ سوچ کیوں آگئی، پاکستان میں رہنے والا تقریباً ہر شخص جانتا ہے کہ اس ملک میں کوئی ادارہ واقعی فعالیت دکھا رہا ہے یا کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے تو وہ فقط پاک فوج ہے۔ جس شعبے میں بھی پاک فوج کے افسران موجود ہیں، وہ شعبہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ پاکستان کے بہت سے سول اداروں کے سربراہ سابق فوجی افسران ہیں۔ ان افسران کو یہاں تعینات کرنے کی وجہ ان کا ڈسپلن اور پیشہ وارانہ مہارت ہوتی ہے، جو کسی سویلین کے بس کی بات نہیں۔ میرے والد ایک سابق فوجی تھے، جن کو بیماری کے دوران میں سی ایم ایچ میں ہی لے جاتا تھا۔ سی ایم ایچ میں سٹاف کا ڈسپلن، مستعدی، اخلاق، وہاں موجود سہولیات، ڈاکٹروں کی توجہ پاکستان کے سول ہسپتالوں کے لیے ایک خواب ہی ہے۔

والد محترم کو پہلے پہل ہم نے ایک سرکاری ہسپتال میں داخل کروایا تو والد محترم نے بار بار تقاضا کیا کہ مجھے سی ایم ایچ لے جاؤ۔ آخرکار ہم انھیں سی ایم ایچ لے گئے اور والد صاحب کے ہمراہ ہم نے بھی سکون کا سانس لیا۔ سی ایم ایچ میں بھی یہی خیال آیا کہ کاش ہمارے تمام سرکاری ہسپتالوں کا انتظام بھی افواج پاکستان کی آرمی کور کے ہاتھ میں ہوتا تو کتنے ہی غریبوں کو عزت کے ساتھ علاج کا موقع میسر آتا اور پرائیویٹ ہسپتالوں کا کوئی منہ بھی نہ کرتا۔ اب تو سی ایم ایچ میں بھی پرائیویٹ مریض دیکھے جاتے ہیں، تاہم غریب عوام اس سہولت سے محروم ہیں۔ غرباء کو عام ہسپتالوں میں ہی دھکے کھانے پڑتے ہیں اور جس کا جتنا اختیار ہے، وہ اتنی ہی سہولتیں حاصل کر پاتا ہے۔

وکی پیڈیا پر آج دیکھا کہ پاک آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت تقریباً پچاس ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں بینک، پیٹرول پمپ، فاونڈیشنز، صنعتی پلانٹس، سکول، یونیورسٹیاں، ڈیریز، سیمنٹ پلانٹ، ہاوسنگ سوسائٹیاں، اصطبل، ڈاگ سنٹر، ہسپتال شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ادارہ اپنی مثال آپ ہے۔ یقیناً دنیا کی تمام افواج کے پاس ایسے ہی وسائل ہوں گے۔ مضبوط دفاع کے لیے یقیناً مضبوط دفاعی ادارے کی ضرورت ہے، جو معاشی، پیداواری، علمی، ٹیکنالوجی کے میدان میں خود کفیل ہو۔ یہ خبر دیکھ کر ایک مرتبہ پھر وہی پرانی سوچ واپس آگئی کہ کیوں نہ پاکستان کا تمام انتظام پاک فوج کے حوالہ کر دیا جائے۔ ویسے بھی زلزلہ آئے یا کوئی اور قدرتی آفت افواج پاکستان کے جوان ہی قوم کی آخری امید ہوتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کس کتے نے کاٹا ہے کہ ہم ستر سے زائد برسوں سے کرپٹ سیاستدانوں، ان کے جمہوری الاپوں اور کرپٹ سول انتظامیہ کے تحت زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔

ہر پانچ برس بعد انتخابات، ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہیں اور مراعات، ان کے تحت کام کرنے والے سٹاف کی تنخواہیں، سول اداروں میں بیٹھے اراکین کی سستی، کاہلی اور کرپشن نیز اس کے سبب ضائع ہونے والے ملکی وسائل، کرپشن کے ذریعے قومی دولت کے ضیاع کا اگر حساب کیا جائے تو یہ اربوں کھربوں ڈالر سے زیادہ ہوگا۔ ہمیں مشکل کیا ہے کہ ہم اپنے نظام کو ٹھیک کرنے کی سعی نہیں کرتے۔ اگر ملک کا نظام چیف آف آرمی سٹاف کے پاس ہو تو مجھے یقین ہے کہ کچھ ہی برسوں میں پاکستان کی حالت بدل جائے گی۔ ہمیں مشکل ہے تو عالمی برادری میں موجود طاقتور ممالک کی جانب سے، جو فوجی حکومتوں کے ادوار میں امداد روک دیتے ہیں۔ وہ یہ تو برداشت کرتے ہیں کہ فوج بالواسطہ طور پر ملکی معاملات میں مداخلت کرے، لیکن یہ برداشت نہیں کرتے کہ فوج یا اس کا سربراہ براہ راست طور پر ملک کا انتظام و انصرام چلائے۔ ہمیں بحیثیت قوم سوچنا ہوگا کہ ہم کب تک مغرب کی خوشنودی کے لیے اپنی نسلوں کا مستقبل تاریک کرتے رہیں گے۔

روشنی اور خوشحالی ہمارے مابین موجود ہے، ہم نے خود ہی اس کی جانب سے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ شاید کوئی کہے کہ ملک میں آئین سول آبادی نے دیا تو ان سے کہوں گا کہ آپ نے فوج کو کب موقع دیا ہے کہ وہ آپ کے لئے قانون سازی کرے، اگر آپ انھیں یہ موقع فراہم کرتے تو یقیناً ہماری فوج یہ کام بھی کر گزرتی۔ جو کہتے ہیں کہ دفاع فوج کا کام ہے، ان سے کہنا چاہوں گا کہ ملک اور اس کے عوام کی خوشحالی بھی دفاع وطن کا حصہ ہے۔ جہاں فوج بارڈر پر ملک کا دفاع کرتی ہے، وہاں اس کا سیاسی ونگ ملک کے امور کو بھی چلا سکتا ہے۔ ہم جتنا جلدی اس امر پر مجتمع ہو جائیں اتنا ہی جلد ہماری خوشحالی اور ترقی کا آغاز ہوگا، ورنہ یہی کرپٹ سیاستدان اور ان کا قومی خزانے پر پڑنے والا بوجھ ہمارا مقدر رہے گا۔ بل فوج کے احترام کا نہیں بلکہ فوج کے اقتدار اور اس سے متعلق رائے شماری کا آنا چاہیئے، ویسے بھی اسلامی اور برصغیر کی تاریخ بھی فوجی حکمرانوں سے بھری پڑی ہے۔ سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، ظہیر الدین بابر، محمد بن قاسم، علاالدین خلجی، ارتغرل، ہارون، مامون، یہ سب سول حکمران نہیں بلکہ فوجی ہی تھے۔
خبر کا کوڈ : 926226
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش