0
Saturday 10 Apr 2021 00:32

مذاکرات جاری رکھنے کی وجہ

مذاکرات جاری رکھنے کی وجہ
اداریہ
جمعہ کے دن ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے ارکان ویانا میں ایک بار پھر جمع ہوئے اور اس اجلاس میں گذشتہ منگل کو قائم کیے جانے والے ورکنگ گروپ کی سفارشات کا جائزہ لیا گیا۔ منگل کو ہونے والے ویانا اجلاس میں معاہدے کی بحالی کے لیے پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی معاملات کے حوالے سے دو الگ الگ ورکنگ گروپ قائم کیے گئے تھے۔ جمعہ کے دن ہونے والے اجلاس میں یورپی یونین نے ماہرین کی سطح پر تین روز سے جاری ورکنگ گروپ کے مذاکرات کے اب تک کے نتائج اور سفارشات کے بارے میں ایک رپورٹ مشترکہ کمیشن کے ارکان کو پیش کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ اور ایرانی وفد کے سربراہ سید عباس عراقچی نے اجلاس کے دوران یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ تہران دو طرفہ تعاون اور مذاکرات پر یقین رکھتا ہے، لیکن مذاکرات جاری رہنے کا مکمل دار و مدار فریق مقابل میں سیاسی عزم کے مشاہدے اور ہم آہنگی پر منحصر ہے، بصورت دیگر ہمیں مذاکرات جاری رکھنے کی کوئی خاص وجہ دکھائی نہیں دیتی۔

ایٹمی مذاکرات کار عباس عراقچی نے ایک بار پھر یہ بات زور دے کر کہی کہ سابق امریکی صدر کے دور میں عائد کی جانے والی تمام پابندیوں کا خاتمہ ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لئے ضروری ہے اور ایران صرف پابندیوں کے عملی اور مکمل طور پر ختم ہو جانے کی صورت میں ہی ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدآمد شروع کرے گا۔ مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں آئندہ بدھ کو ویانا میں اسی سطح کے ایک اور اجلاس پر بھی اتفاق ہوا اور اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ مشترکہ کمیشن کے رکن ملکوں کے ماہرین بدستور ویانا میں موجود رہیں گے اور ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لئے قائم کیے جانے والے ورکنگ گروپ بھی اپنا کام جاری رکھیں گے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ ایران کے صرف یورپ سے مذاکرات ہو رہے ہیں اور دوسری جانب یورپ امریکہ سے مذاکرات کر رہا ہے۔

ایران، یورپی یونین، روس اور چین کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران کی مذاکراتی ٹیم ایٹمی معاہدے کے موجودہ رکن ملکوں، یورپی ٹرائیکا، یعنی برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین، روس اور چین کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ یورپی ممالک امریکہ کے ساتھ کون سے چینل سے بات کر رہے ہیں، اس کا ایران سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایران کا موقف واضح ہے کہ جب تک امریکہ تمام پابندیاں ہٹا نہیں لیتا اور ایٹمی معاہدے میں واپس نہیں آجاتا، اس وقت تک تہران اپنی ایٹمی سرگرمیوں میں ذرہ برابر کمی نہیں کرے گا۔ ایران نے یورینیم افزودہ بنانے کا عمل بھی جاری رکھا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک پابندیوں کے خاتمے کے متعلق کوئی اتفاق رائے نہیں ہو جاتا۔ تہران پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ وہ مرحلہ وار نہیں، بلکہ تمام پابندیوں کا بیک وقت خاتمہ چاہتا ہے۔ ایران نہ تو ایٹمی معاہدے سے باہر نکلا ہے اور نہ ہی اس نے اس معاہدے کی خلاف وزری کی ہے۔

ایران ایٹمی معاہدے کی مکمل پاسداری کرتا رہا ہے جبکہ امریکہ نے نہ صرف یہ کہ ایٹمی معاہدے کو توڑا ہے بلکہ ایرانی عوام کے خلاف مخاصمانہ پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں۔ جہاں تک پابندیوں کے خاتمے کا یقین حاصل ہونے کی بات ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران تیل کی فروخت کے معاہدے اور تیل فروخت کرسکے، اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بینکاری چینلوں کے ذریعے اندرون ملک منتقل ہو اور ایران جہاں چاہے اپنے اثاثوں کو خرچ کرے۔ یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ ایران کو امریکہ پر ذرہ برابر اعتماد نہیں ہے، کیونکہ واشنگٹن اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے پابندیوں کے حربے کو نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے بہت سے ملکوں کے خلاف مسلسل استعمال کرتا آیا ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 926277
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش