QR CodeQR Code

ایک عزادار کا دردِ دل

10 Apr 2021 20:45

اسلام ٹائمز: یہ ذہن میں رکھیں کہ آج اگر ایک 3 سالہ بیٹی اپنے باپ کی جدائی پر گریہ کناں ہے تو کیوں؟ اگر ایک ماں اپنے جواں سال بیٹے کا چہرہ دیکھنے کو ترس گئی ہے تو آخر کس جُرم میں؟ اگر ایک بہن زندگی کی ہر اونچ نیچ میں اپنے بھائی کی کمی محسوس کرتے ہوئے اشک بہاتی ہے تو کس خطاء کے عوض؟ اور پھر یہ بھی یہ دیکھئے کہ آج ان سید زادیوں کی مدد و نصرت کیلیئے ہم کیا کر رہے ہیں؟ اگر ہم کچھ کر بھی رہے ہیں تو کیا وہ انہیں مطلوب ہے؟ یا آج بھی ہمارے پاس گرمی، سردی، مصروفیت اور مخالفت کا عذر ہی ہے۔؟


تحریر: ابو میثم

مشہور دانشور علی شریعتی کی کتاب علیؑ اور تنہائی پڑھ رہا تھا، جس میں انہوں نے امام علیؑ علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ کے ان تئیس سال اور تین ماہ کے بارے میں گفتگو کی ہے، جو آپؑ نے گوشہ نشینی کے عالم میں گزارے۔ بدر و احد کا فاتح، خیبر شکن و شیرِ خدا علیؑ! وہ علیؑ کہ جس کی تلوار کی گرج آسمانوں پر سنائی دیتی تھی، رسولؐ اللہ کے بعد فاطمہؑ کے گھر میں چند جوانانِ بنی ہاشم کیساتھ موجود ہے جبکہ لوگوں کی کثیر تعداد دروازہء خلافت پر جمع ہے۔ جس طرح علیؑ اپنے چاہنے والوں کے ہوتے ہوئے تنہاء تھے، اسی طرح اولادِ علیؑ بھی اپنے دم بھرنے والوں کی ارد گرد موجودگی کے باوجود تنہاء تھی۔ ایسے عذر خواہانہ رویئے جو علیؑ کو کبھی جنگوں میں سردی اور گرمی کے نام پر تنہاء کر دیتے، یا اپنے امامؑ سے زیادہ جاننے کا زعم کہ جو "لا حکم الا للہ" کا نعرہ لگانے پر آمادہ کرتا۔۔ ان سب کے درمیان گھرے ہوئے امام جن سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ان کے فیصلے "عوامی منشاء کے مطابق کئے جائیں، ورنہ انہیں "مؤمنین کو رسوا کرنے والا" کہہ کر پکارا جاتا۔

سوچنے کی بات ہے کہ اگر امامؑ کو مطلوب اطاعت مدینے ہی میں میسر ہو تو امام کیونکر اپنے آباؤ اجداد کا وطن چھوڑ کر جانبِ کوفہ روانہ ہوں۔ چاہت کا دم بھرنے والے کہتے ہیں کہ مولا آپ کا حسب و نسب اعلیٰ، آپ کا موقف برحق، آپ کا اقدام احسن مگر ہماری طرف سے معذرت کہ ہم کوفہ نہیں جا سکتے۔ اگرچہ ایسے غیر مطلوب تعاون کی یقین دہانی ضرور کرواتے ہیں، جس کی امام کو کوئی ضرورت نہ ہو، مثلاَ مولا ہم ساتھ نہیں چل سکتے مگر یہ گھوڑا رکھ لیں یا یہ درہم و دینار ہیں، شاید سفر میں آپ کے کام آجائیں یا یہ میری تلوار آپ کے ہمراہ رہے۔ آگے بڑھ جانے والے امام کے فیصلے پر اعتراض اٹھا کر اپنی جاں بخشی کا سامان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ امام آپ ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہیں، جن کے دل تو آپ کیساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں آپ کے دشمنوں کے ساتھ ہیں، امامِ برحق کو یہ مشورہ دیتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں!!

امام کا حق تو یہ ہے کہ اس سے نہ ایک قدم آگے بڑھا جائے، نہ اتنا پیچھے چلا جائے کہ اس کے قدموں کے نشان ڈھونڈھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہو۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے، ہر موڑ پر، ہر موقع پر۔۔۔ شکل و صورت، فرائض و منصب بدل جاتے ہیں مگر رویئے وہی رہتے ہیں۔ جب امام اور ان کی ہمشیرہ کے روضہء مبارک پر دشمنوں کی یلغار تھی تو ہم نے اپنی اپنی ذاتی مصروفیات کا عذر بنایا، اگرچہ یہاں سے بیٹھ کر دشمنوں کی نابودی کی دعائیں کرتے ہیں، جو کہ غیر مطلوب حمایت ہی کی ایک شکل تھی۔ آگے بڑھ جانے والے یہ کہہ کر ایک جانب ہوگئے کہ یہ تو فلاں فلاں ممالک کی جنگ ہے، بعض سے اور کچھ نہ بن پایا تو امام کی مدد و نصرت کو نکلنے والوں اور انہیں اس بات پر آمادہ کرنے والے علماء ہی کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے، تاکہ اس طرح وہ روضوں پر برسنے والے راکٹ، میزائل اور گولیوں کی برسات سے بھی محفوظ رہیں اور اس سوال سے بھی بچ جائیں کہ تم تو ان کے اتنے نام لیوا تھے، آج ان کی حفاظت کو کیونکر نہیں جا رہے۔

جو ہوگیا سو ہوگیا!! اب آپ کو رضوی، کاظمی، زیدی، نقوی وغیرہ غرض کہ انہی آئمہ کی اولاد، ان کی بیٹیاں سڑکوں پر اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے ان کی گمشدگی کی دہائی دیتی نظر آرہی ہیں۔ صدیوں کے فاصلوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھیں کہ آج اگر ایک 3 سالہ بیٹی اپنے باپ کی جدائی پر گریہ کناں ہے تو کیوں؟ اگر ایک ماں اپنے جواں سال بیٹے کا چہرہ دیکھنے کو ترس گئی ہے تو آخر کس جُرم میں؟ اگر ایک بہن زندگی کی ہر اونچ نیچ میں اپنے بھائی کی کمی محسوس کرتے ہوئے اشک بہاتی ہے تو کس خطاء کے عوض؟ اور پھر یہ بھی یہ دیکھئے کہ آج ان سید زادیوں کی مدد و نصرت کیلیئے ہم کیا کر رہے ہیں؟ اگر ہم کچھ کر بھی رہے ہیں تو کیا وہ انہیں مطلوب ہے؟ یا آج بھی ہمارے پاس گرمی، سردی، مصروفیت اور مخالفت کا عذر ہی ہے؟ حق و باطل کے درمیان ایک لکیر ہے، اہلِ حق لکیر کے اُس پار ظلم و ظالم کیخلاف ہم آواز ہیں، جبکہ اِس پار خاموش لوگوں کا ایک گروہ ہے! مقدس کتب میں ظلم پر خاموش رہنے والوں کو بھی شاملِ جرم تصور کیا جاتا ہے، اب فیصلہ ہم سب نے کرنا ہے کہ ہم اپنے آپ کو تاریخ میں کہاں دیکھنا چاہتے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 926456

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/926456/ایک-عزادار-کا-درد-دل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org