QR CodeQR Code

ایک ولی فقیہ کیوں!؟

11 Apr 2021 02:34

اسلام ٹائمز: ریاست اور شہری کے تعلق کے حوالے سے ولایت فقیہ کے پیروکار اثناء عشری شیعوں کا نکتہ نظر بھی سمجھیں۔ اس موضوع سے نابلد افراد کو یہاں یہ حقیقت بھی یاد رہے کہ اسوقت مسلمان، یہودی، مسیحی، تینوں میں مختلف فرقے اور ان فرقوں میں بھی ذیلی فرقے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر حنفی مسلک میں دیوبندی اور بریلوی دونوں شدید اختلافات کے باوجود خود کو ابو حنیفہ کی فقہی تشریحات کا پیروکار گردانتے ہیں۔ اگر ہم سنی فرقے کے عنوان سے دیکھیں تو یہ حنفی محض ایک شناخت ہے، ورنہ شافعی، مالکی اور حنبلی بھی ہیں۔ اہل حدیث، سلفی، وہابی اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح کرسچن کو دیکھ لیںو رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ زیادہ مشہور ہیںو لیکن اس کے علاوہ بھی متعدد فرقے موجود ہیں۔


تحریر: محمد سلمان مہدی

ولایت فقیہ سے متعلق میری رائے کے عنوان سے جو تحریر لکھی، اس کے بعد چند نوجوان دوستوں کی جانب سے سوالات سامنے آئے۔ اسی تناظر میں ایک اور تحریر پیش خدمت ہے۔ ہم جس دور سے متعلق یہ نکات عرض کر رہے ہیں وہ حضرت ولی عصر امام زمان (عج) کی عرف عام میں پوشیدہ رہنے کا دور ہے، جسے شیعی اصطلاح میں عصر غیبت کہتے ہیں۔ (اس سے مراد وہ اصطلاح غیبت نہیں جس کا مفہوم کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا ہوتا ہے)۔ ایک اثناء عشری شیعہ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ بارہویں معصوم امام یعنی امام مہدی (عج) کا عوام الناس سے اوجھل رہنے کا یہ طویل دور دو مرحلوں پر ہے۔ پہلا دور شیعی اصطلاح میں غیبت صغریٰ کا دور کہلاتا ہے۔ غیبت صغریٰ کے تسلسل میں دوسرا مرحلہ غیبت کبریٰ میں تبدیل ہوگیا۔ اثناء عشری شیعہ مسلمان عقیدہ یہ ہے کہ اولاد رسولﷺ اولاد بی بی بتول ؑ کی نسل پاک میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند انکے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ یہ نکات بھی اصل موضوع کو سمجھنے کے لیے مقدماتی نکات کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں۔

سوال یہ ہوا ہے کہ ولایت فقیہ یا ولایت فقہاء!؟ حالانکہ اس موضوع پر کم سے کم ایک تحریر اسلام ٹائمز ہی کے اس فورم پر کسی اور محترم نے پیش کی تھی۔ میں ان نکات کو نہیں دہراؤں گا۔ فقط پچھلی تحریر کے اس نکتے کو مزید صراحت کے ساتھ دہراتا ہوں کہ اصول دین عقلی دلائل کے تحت ہے۔ اصول دین میں کسی کی بھی تقلید جائز نہیں ہے۔ لیکن بہت سے احباب اس بنیادی نکتے کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں بنی نوع انسان کی سرنوشت کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے کیا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفۃ اللہ فی الارض کا اعلیٰ ترین انسان کامل کا الٰہی عہدہ بھی عطا کیا ہے۔ اس مادی کائنات میں اللہ کی عبادت کے لیے اللہ کا سب سے پہلا گھر حضرت آدم علیہ السلام نے ہی تعمیر کیا تھا۔ خلافت (نیابت) کے اس پہلے الہیٰ اعلان کے وقت ابلیس نے نافرمانی کی اور شیطان بن گیا۔ اس سرزمین پرپ ہلے خلیفۃ اللہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے بیٹے ہابیل کی نیابت کا اعلان کیا تو ان کے دوسرے بیٹے قابیل نے اس فیصلے کی نافرمانی کی اور ہابیل کو قتل کر دیا۔ یوں نیابت اور جانشینی ہر دور میں ایک طرف خلیفۃ اللہ فی الارض کے لیے اہمیت کی حامل رہی تو دوسری طرف نائب اور جانشین کو نہ ماننے کی ابلیسی اور قابیلی روش بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہی۔

اللہ تعالیٰ نے زمین پر جب حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا خلیفہ مقرر کیا تو وہ تنہاء اس عہدے پر فائز تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی سرنوشت کے آغاز سے قبل تو عزازیل ابلیس بھی عبادت گذار ہوا کرتا تھا تو سوال تو یہ بنتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی رہنے دیا جاتا اور عزازیل ابلیس کو بھی کوئی عہدہ دے دیا جاتا!؟ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل سے متعلق فیصلے پر حضرت آدم علیہ السلام کی نافرمانی کر دی تھی تو قابیل کو بھی کوئی عہدہ دے دیا جاتا!؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت ہارون ؑکے علاوہ بھی نمایندہ مقرر کر دینا چاہیئے تھا!؟ سوالات تو ہر دور کے مرکزی الہیٰ نمائندہ کی جانشینی سے متعلق بھی بنتے ہیں، لیکن وہاں بہت سے لوگ سکوت اختیار کر جاتے ہیں۔ قرآن شریف میں جن انبیاء علیہم السلام سے متعلق ذکر ہے اور ان میں سے جن انبیاء علیہم السلام کے واقعات تفاسیر میں، بائبل میں اور قصص الانبیاء یا قصص القرآن کے عنوان سے علماء، مفسرین اور مورخین کے توسط ے دنیا تک پہنچے ہیں، ان پر بھی غور فرمائیں۔ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں وہ تنہاء نبی ؑ تھے یا دیگر انبیاء علیہم السلام بھی تھے۔ یقیناً دیگر انبیاء علیہم کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ لیکن اپنے دور میں حضرت ابراہیم علیہ السلام مرکزی نبی ؑ تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دور کے مرکزی نبی ؑ تھے اور انبیاء علیہم السلام میں سے بعض کے ذمے محض تبلیغ کا شعبہ بھی رہا۔

خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے امیر المومنین مولا علی ؑ سے متعلق حدیث منزلت بھی بیان فرمائی۔ یعنی حضرت موسیٰ ؑو ہارون ؑ جیسی مماثلت۔ شیعہ اسلامی عقیدے میں امیر المومنین علی ؑ ہی امام المتقین ہیں۔ حضرت علی ؑ کی امامت کے دور میں انکے وہ فرزند بھی موجود تھے، جنکی امامت کے دور کا آغاز ترتیب سے اپنے پچھلے امام کی شہادت کے بعد سے ہوا۔ یعنی ایک وقت میں ایک کی امامت (قیادت و رہبری)۔ گیارہویں امام (ع) کے دور تک ایسا ہی رہا۔ بارہویں امام ؑکی غیبت صغریٰ میں ایک باقاعدہ نظام بعنوان نیابت سامنے آیا۔ یاد رہے کہ غیبت صغریٰ میں ستر سال کے عرصے میں امام معصوم (ع) کے چار نائب رہے یعنی نواب اربعہ۔ ان میں سے پہلے نائب کا تعارف گیارہویں امام حسن عسکری ؑ نے خود کروایا تھا اور ایک کی نیابت یا بہت سوں کی نیابت سے متعلق سوال کا جواب غیبت صغریٰ کے دور میں اپنا ناقابل نظر انداز بھاری بھرکم وجود رکھتا ہے۔ ایک وقت میں ایک نائب، نہ کہ بہت سارے نائب! اگر بقیہ مثالوں کو نظر انداز کر دیںو تب بھی ہر اثناء عشری شیعہ مسلمان کے لیے نواب اربعہ کا ہونا ہی ایک محکم ترین دلیل ہے۔

عثمان بن سعید عمری پہلے نائب۔ ان کی رحلت کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان دوسرے نائب۔ ان کی رحلت کے بعد حسین بن روح تیسرے نائب۔ ان کی رحلت کے بعد علی بن محمد سمری چوتھے نائب۔ یعنی امام مہدی (عج) کے باقاعدہ ظہور برائے عوام الناس کے دور سے پہلے کا یہ دور کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، غیبت صغریٰ کے دور میں جو نظام انہوں نے دیا، وہ ایک مرکزی نائب کے توسط سے پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل قرار پایا۔ تو آج کیوں اس حوالے سے کنفیوژن ہے!؟ دوسرا سوال یہ کہ دیگر فقہاء!؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمارے اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ نواب اربعہ کے دور میں دیگر فقہاء کے ذمے کوئی کام نہیں تھا!؟ یا وہ ہر ذمے داری سے فارغ تھے!؟  پورا نظام ہر امامؑ کے دور سے واضح رہا ہے اور باوجود تمام تر مشکلات، خاص طور پر امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور سے بہت زیادہ منظم صریح اور واضح طور پر نافذ ہوا۔ غیبت صغریٰ کے دور میں بھی نافذ رہا۔ تب سے یہ مسئلہ عقلی طور پر حل شدہ ہے۔ امامت اصول دین کا حصہ ہے اور امامت ہی کے ذیل میں ان کا ایسا مرکزی نائب کہ جو غیبت کے دور میں ان کی نمائندگی کرے، یہ تو غیبت صغریٰ کے دور سے زیادہ ضروری ہے۔ اس معاملے میں علماء، فقہاء اور عرفاء سبھی سے میرے جیسا ادنیٰ مسلمان مودبانہ عرض کرے گا کہ غیبت حضرت ولیعصر (عج) میں امت کی قیادت، رہبری، راہنمائی، سرپرستی کا انتظام نہ ہونا، ایک مرکز کا نہ ہونا، خود الہیٰ نظام پر اور معصوم امام (ع) پر ایک تہمت کے مترادف ہے۔ باالفاظ دیگر امت و انسانیت کو لاوارث سمجھ لیا گیا ہے!؟

گو کہ مذکورہ بالا پیراگراف میں بات مکمل ہوچکیو لیکن پاکستان کے تناظر میں ایک پیراگراف کا اضافہ تحمل فرمائیں۔ ریاست اور شہری کے تعلق کے حوالے سے ولایت فقیہ کے پیروکار اثناع عشری شیعوں کا نکتہ نظر بھی سمجھیں۔ اس موضوع سے نابلد افراد کو یہاں یہ حقیقت بھی یاد رہے کہ اس وقت مسلمان، یہودی، مسیحی، تینوں میں مختلف فرقے اور ان فرقوں میں بھی ذیلی فرقے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر حنفی مسلک میں دیوبندی اور بریلوی دونوں شدید اختلافات کے باوجود خود کو ابو حنیفہ کی فقہی تشریحات کا پیروکار گردانتے ہیں۔ اگر ہم سنی فرقے کے عنوان سے دیکھیں تو یہ حنفی محض ایک شناخت ہے، ورنہ شافعی، مالکی اور حنبلی بھی ہیں۔ اہل حدیث، سلفی، وہابی اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح کرسچن کو دیکھ لیںو رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ زیادہ مشہور ہیںو لیکن اس کے علاوہ بھی متعدد فرقے موجود ہیں۔

ہندوؤں میں بھی ایسا ہی ہے تو کیا ریاست نے یا ریاستی اداروں اور ان کے حکام نے کبھی ان فرقوں اور ذیلی فرقوں سے متعلق بھی وہ مفروضے قائم کیے کہ ان تمام ادیان اور مسالک کے مرکزی پیشوا کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے تو ان غیر ملکی مذہبی پیشواؤں کے پیروکاروں کی پاکستان سے وفاداری مشکوک ہے!؟ کیا حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، وہابی، سلفی اہل حدیث فرقوں کے مذہبی پیشواؤں یا فقہاء کا تعلق پاکستان سے ہے!؟ وہاں کیوں سب اوکے!؟ اور ولایت فقیہ یا امام خامنہ ای کے موضوع پر کیوں یہ سوالات!؟ اگر کوئی کسی بھی مرجع تقلید کی تقلید کا قائل ہے تو بھی یہ ریاست کا مسئلہ نہیں ہے اور اس کی مثال پہلے سے موجود ہےو جو اسی پیراگراف میں پہلے بیان کی جاچکی۔ یہ پورے کا پورا موضوع عقلی منطقی دلائل کی بنیاد پر واضح اور آشکارا ہے۔

Note: (ولایت فقیہ سے متعلق ایک اور اہم زاویئے سے بھی صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر قارئین چاہیں تو اگلی تحریر اسی عنوان پر ان کی خدمت میں پیش کی جاسکتی ہے۔ ولایت فقیہ پر جتنے بھی سوالات ہیں، ان سب کے منطقی جواب موجود ہیں۔ درخواست یہ ہے کہ سوالات کرنے والے ان جوابات کو بھی تحمل کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔)


خبر کا کوڈ: 926510

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/926510/ایک-ولی-فقیہ-کیوں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org