0
Monday 12 Apr 2021 17:30

استقبال ماہ رمضان المبارک

استقبال ماہ رمضان المبارک
تحریر: ڈاکٹر شیخ کاشف علی رضوانی
kamalkashif66@gmail.com

ماہ رمضان المبارک خداوند عالم کا مہینہ ہے، یہ مہینہ افضل اور شریف ترین مہینہ ہے۔ اس مبارک مہینہ میں رحمت ِبہشت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ حضرت امام علیؑ رضا ؑ سے منقول ہے کہ حضرت محمدﷺ نے ماہ شعبان کی آخری تاریخ میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ وہ خطبہ قارئین کی نظر کرتا ہوں۔ فرمایا: "اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کا مہینہ برکت و رحمت اور مغفرت لے کر تمہارے پاس آیا ہے۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے کہ خدا کے نزدیک سب مہینوں سے افضل ہے، اس کے دن تمام دنوں سے افضل، اس کی راتیں تمام راتوں سے افضل، اس مہینے میں تمہارا سانس لینا تسبیح کا ثواب رکھتا ہے، تمہارا سونا عبادت سے کم نہیں ہے۔ تمہارے اعمال اس مہینے میں مقبول ہیں اور تمہاری دعائیں مستجاب ہیں۔ پس تم صدق دل سے خداوند عالم سے دعا کرو کہ وہ اس مبارک مہینے میں نیک کام کرنے، غریبوں کی مدد کرنے، روزہ رکھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ اے لوگو! جو تم میں سے کسی مومن کا اس مہینہ میں روزہ کھلوائے گا، اس کو خدائے بزرگ و برتر ایک غلام آزاد کرانے کا ثواب عطاء فرمائے گا اور اس کے گذشتہ  گناہ بخش دیئے جائیں گے۔"

یہ سن کر کچھ لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ ہم سب روزہ افطار کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں، آنحضرت نے فرمایا کہ آتش جہنم سے پرہیز کرو اور روزہ داروں کا روزہ افطار کراؤ، اگرچہ آدھے خرمے سے ہو، یا ایک گھونٹ پانی ہی کیوں نہ ہو، پھر فرمایا جو شخص اس مہینے میں مجھ پر اور میری آل پر کثرت سے درود بھیجے گا، خداوند کریم اس کے اعمال کا ترازو قیامت کے دن بھاری فرمائے گا اور جو شخص اس مہینے میں قرآن پاک کی آیات کی تلاوت کرے گا تو اس کو اس قدر ثواب عطاء ہوگا، جتنا اور مہینوں میں ایک قرآن ختم کا ہوتا ہے۔ اےلوگو! اس مہینے میں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں، لہذا خدا سے عرض کرو کہ خدا تمہارے ان دروازوں کو بند نہ کرے اور اس مہینے میں شیطان (رزیل) مقید ہوتا ہے۔ پس تم دعا کرو کہ تم پر شیطان مسلط نہ ہو۔

روزے کے آداب:
شیخ صدوق (رہ)[1] نے معتبر سند کیساتھ امام علی رضا علیه السلام سے اور حضرت نے اپنے آباء طاہرین علیھم السلام کے واسطے سے امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک روز رسول اللہ(ص) نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تمہاری طرف رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آرہا ہے۔ جس میں گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ مہینہ خدا کے ہاں سارے مہینوں سے افضل و بہتر ہے۔ جس کے دن دوسرے مہینوں کے دنوں سے بہتر، جس کی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے بہتر اور جس کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں سے بہتر ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے، جس میں حق تعالیٰ نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا ہے اور اس مہینے میں خدا نے تمہیں بزرگی والے لوگوں میں قرار دیا ہے کہ اس میں تمهارا سانس لینا تسبیح اور تمہارا سونا عبادت کا درجہ پاتا ہے۔ اس میں تمہارے اعمال قبول کیے جاتے اور دعائیں منظور کی جاتی ہیں۔

پس تم اچھی نیت اور بری باتوں سے دلوں کے پاک کرنے کے ساتھ اس ماہ میں خدائے تعالیٰ سے سوال کرو کہ وہ تم کو اس ماہ کے روزے رکھنے اور اس میں تلاوتِ قرآن کرنے کی توفیق عطا کرے، کیونکہ جو شخص اس بڑائی والے مہینے میں خدا کی طرف سے بخشش سے محروم رہ گیا، وہ بدبخت اور بدانجام ہوگا۔ اس مہینے کی بھوک پیاس میں قیامت والی بھوک پیاس کا تصور کرو، اپنے فقیروں اور مسکینوں کو صدقہ دو، بوڑھوں کی تعظیم کرو، چھوٹوں پر رحم کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ نرمی و مہربانی کرو، اپنی زبانوں کو ان باتوں سے بچاؤ جو نہ کہنی چاہئیں، جن چیزوں کا دیکھنا حلال نہیں، ان سے اپنی نگاہوں کو بچائے رکھو، جن چیزوں کا سننا تمہارے لیے روا نہیں، ان سے اپنے کانوں کو بند رکھو، دوسرے لوگوں کے یتیم بچوں پر رحم کرو، تاکہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم بچوں پر رحم کریں۔ اپنے گناہوں سے توبہ کرو، خدا کی طرف رخ کرو، نمازوں کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھاؤ کہ یہ بہترین اوقات ہیں جن میں حق تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے اور جو بندے اس وقت اس سے مناجات کرتے ہیں، وہ ان کو جواب دیتا ہے اور جو بندے اسے پکارتے ہیں، ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے۔

اے لوگو! اس میں شک نہیں کہ تمہاری جانیں گروی پڑی ہیں۔ تم خدا سے مغفرت طلب کرکے ان کو چھڑانے کی کوشش کرو۔ تمہاری کمریں گناہوں کے بوجھ سے دبی ہوئی ہیں، تم زیادہ سجدے کرکے ان کا بوجھ ہلکا کرو، کیونکہ خدا نے اپنی عزت و عظمت کی قسم کھا رکھی ہے کہ اس مہینے میں نمازیں پڑھنے اور سجدے کرنے والوں کو عذاب نہ دے اور قیامت میں ان کو جہنم کی آگ کا خوف نہ دلائے۔ اے لوگو! جو شخص اس ماہ میں کسی مؤمن کا روزہ افطار کرائے تو اسے گناہوں کی بخشش اور ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ آنحضرت (ص) کے اصحاب میں سے بعض نے عرض کی یارسول اللہ (ص)! ہم سب تو اس عمل کی توفیق نہیں رکھتے، تب آپ (ص) نے فرمایا کہ تم افطار میں آدھی کھجور یا ایک گھونٹ شربت دے کر بھی خود کو آتشِ جہنم سے بچا سکتے ہو، کیونکہ حق تعالیٰ اس کو بھی پورا اجر دے گا، جو اس سے کچھ زیادہ دینے کی توفیق نہ رکھتا ہو۔ اے لوگو! جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق درست کرے تو حق تعالیٰ قیامت میں اس کو پل صراط پر سے با آسانی گزاردے گا۔ جب کہ لوگوں کے پاؤں پھسل رہے ہوں گے.

ماہ رمضان رحمت کا مہینہ:
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم: و هو شهر اوله رحمة و اوسطه مغفرة و اخرہ عتق من النار.[2] "رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: رمضان وہ مہینہ ہے، جس کا آغاز رحمت، درمیانے ایام مغفرت اور انتہاء دوزخ کی آگ سے آزادی ہے۔"
قرآن مجید  اور ماه مبارک رمضان:
قال الرضا علیه السلام : من قرا فى شهر رمضان اية من كتاب الله كان كمن ختم القران فى غيره من الشهور[3]. "امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص رمضان کے مہینے میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے، گویا اس نے دوسرے مہینوں میں پورے قرآن کی تلاوت کی ہے۔"
روزه کی اہميت:
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :الصوم فى الحَرِّ جہاد[4].
"رسول خدا صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمایا: گرمی میں روزه رکهنا جہاد ہے۔"
مؤمنوں کی بہار:
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه و آله و سلم: الشتاء ربيع المؤمن يطول فيه ليلہه فيستعين به على قيامه و يقصر فيه نهارہ فيستعين به على صيامه.[5] "رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: سردیوں کا موسم مؤمن کی بہار ہے، جس کی طویل راتوں سے وہ عبادت کے لئے استفادہ کرتا ہے اور اس کے چهوٹے دنوں میں روزے رکھتا ہے۔"

روزه جسم  کی  زكواة:
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم: لكل شيئى زكاة و زكاة الابدان الصيام[6]. "رسول خدا صلى الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز کے لئے زکواة ہے اور بدن کی زکواة روزه ہے۔"
روزه آتش دوزخ کی ڈهال:
قال رسول الله صلى الله علیه و آله وسلم :الصوم جنة من النار[7]. "رسول خدا صلى الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: روزه جہنم کی آگ کے مقابلے میں ڈهال کی حیثیت رکھتا ہے۔" «يعنى روزه رکھنے کی وجہ سے انسان آتش جہنم سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
روزے کا  اجر:
قال رسول اللہ صلى اللہ علیه وآله وسلم: قال اللہ تعالى الصوم لى و انا اجزى به[8] "رسول خدا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: روزہ میرے لئے ہے (اور میرا ہے) اور اس کی جزا میں ہی دیتا ہوں۔"
روزه خدا کے ساتھ تجارت:
* إِنَّ اللَّهَ اشْترََى‏ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَ أَمْوَالهَُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ  يُقَتِلُونَ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَ يُقْتَلُونَ  وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فىِ التَّوْرَئةِ وَ الْانجِيلِ وَ الْقُرْءَانِ  وَ مَنْ أَوْفىَ‏ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ  فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِى بَايَعْتُم بِهِ  وَ ذَالِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[9] "بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خرید لیا ہے کہ یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہو جاتے ہیں، یہ وعدہ برحق توریت، انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنی عہد کا پورا کرنے والا کون ہوگا تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خوشیاں مناؤ، جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔"

انسانى جانوں کى قىیمت:
مذکوره بالا آىت مىں تمام انسانوں کىلئے راستہ معىن اور راه روشن ہے، جس مىں الله کے ساتھ تجارت کرنے کا فارمولا بىان کىا گىا ہے اور مؤمنىن کو بطور خاص دعوت دى ہے کہ آکر خدا کے ساتھ مفىد معاملہ کرىں اور جان و مال کے بدلے قرب الہىٰ حاصل کرکے بهشت برىں کے حقدار بن جائیں اور یہ وصال انسان مؤمن کىلئے بہت بڑى کامىابى ہے۔ معاملہ اس طرح سے ہے کہ خدا خرىدار ہے۔ انسان بىچنے والا اور معاملہ کى چىز انسان کى جان و مال ہے۔ اس معاملہ کى سند بھى آسمانى کتاب ىعنى قرآن مجىد، تورات اور انجىل مىں درج ہے۔ اہل فکر انسان وه ہے، جو اپنے پاکىزه اىمان کے ساتھ اس معاملہ کو انجام دے، تو یہ کتنا سودمند معاملہ ہے کہ انسان کے پاس کم قىمت اور بے ارزش چىز اسکى جان و مال ہے اور اس کے مقابلہ مىں خدا کے پاس بہت ہى باارزش اور قىمتى سامان بہشت کى شکل مىں ہے، جو فوز عظىم ہے اور فناء فى الله ہے۔ پس عقل سلىم یہ حکم کرتى ہے کہ اے انسان اس مفىد معاملہ کو انجام دو، جو کہ تمهارے فائده مىں ہے۔ بے شک الله تعالىٰ تمهارى بھلائى چاہتا ہے، درحالىکہ تہمارى ىه جان و مال بھى خدا کى دى ہوئى ہے۔ پس ہمىں چاہیئے کہ اپنى قدر و قىمت کو پہچان لیں اور اپنى جانوں کو مفت اور بے ارزش چىزوں کے بدلے نہ گنوا دىں۔ تفسىر مجمع البیان مىں اسى آىت کے ذىل مىں نقل ہوا ہے کہ امام صادق علىہ السلام فرماتے ہىں: "تمہارى جانوں کى قىمت بہشت ہى ہے، لهٰذا اس کو بهشت سے کم قىمت پر فروخت نہ کرو۔"

تجارت کے اصول:
اب یہ سؤال ذہن مىں آتا ہے کہ کیا ہر انسان یہ معاملہ کرسکتا ہے؟ اور اپنى جان و مال دے کر بہشت حاصل کرسکتا ہے؟ جواب بہت ساده اور آسان ہے! جى نہىں، بلکہ انسان مؤمن ہو اور وه بھى معاملہ کے اصولوں کى پاسدارى کرے اور ان کے اندر کچھ شرط و شروط پائى جائیں۔ مذکوره آىت کے ذىل مىں بىان ہے کہ اىک دن امام سجّاد علىہ السلام حج کے اعمال مىں مشغول تھے کہ عبّاد مصرى آپ کے پاس حاضر ہوا اور امام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا، اے امام آپ یہ فرمایئے کہ حج افضل ہے یا جہاد! تو امام علىہ السلام نے جواب مىں فرماىا کہ جہاد افضل ہے تو عباد نے اسى آىت کى تلاوت کى کہ"إِنَّ اللَّهَ اشْترََىمِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَ أَمْوَالهَُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ  يُقَتِلُونَ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَ يُقْتَلُونَ۔۔۔۔۔"[10] اور اسى ضمن مىں عرض کى یا امام آپ ہر سال حج تو کرتے ہیں، لىکن جہاد کىوں نہیں کرتے۔؟ تو امام عالى مقام نے جواب مىں فرمایا، اے عبّاد تم نے اس آىت کو پڑھا ہے، لىکن اس کے بعد والى آیت پر بھى ذرا غور کرو کہ جس مىں جهاد اور معاملہ کے نو اصول وضع کىے گئے ہیں، جو اس طرح سے ہیں:

التَّئبُونَ الْعَبِدُونَ الحَْمِدُونَ السَّئحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الاَْمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ الحَْفِظُونَ لحُِدُودِ اللَّهِ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ[11] "یہ لوگ توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد پروردگار کرنے والے، راه خدا میں سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکیوں کا حکم دینے والے، برائیوں سے روکنے والے اور حدود الٰہیہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اے پیغمبر آپ انہیں جنّت کی بشارت دیدیں۔" اگر مىرے ساتھ چند ایسے ساتھى ہوں، جن میں یہ صفات ہوں تو مىں  ضرور جہاد کروں گا۔ یہ سن کر عباد نے خاموشى سے اپنا راستہ لىا۔ اب اگر کوئى یہ چاہتا ہو کہ امام علىہ السلام کے سپاہىوں مىں شامل ہو جائے اور اس کا حج مقبول ہو، اس کا خمس و صدقہ الہىٰ شکل اختىار کرے اور اس کا مرنا اور مارا جانا شہادت کى موت مىں شمار ہو، تو اسے چاہیئے کہ ان نو شرطوں کو اپنا لے اور یہ شرائط حاصل کرنے کیلئے بہترىن موقع رمضان المبارک کا مہىن ہے۔ پس ہوشىار اور بىدار شخص وه  انسان ہے، جو اس مہینہ مىں کوشش کرتا ہے، تاکہ ان شرائط کو اپنا لے اور خدا کے ساتھ تجارت کرے، ورنہ تمام کے تمام انسان خسارے مىں ہیں، سوائے اُن کے جو مؤمن حقىقى ہیں اور اعمال صالح انجام دىتے ہیں۔ حق بات کرتے ہیں، حق کى تلقین کرتے ہیں اور حق پر مرتے ہیں۔

ماہ رمضان کے مخصوص ایام:
تمام آسمانی صحیفے اسی ماہ میں نازل ہوئے ہیں۔ یکم رمضان کو صحیفہ ابراہیم کا نزول، دو رمضان المبارک کو نزول تورات، بارہ رمضان کو نزول انجیل، اٹھارہ رمضان کو نزول زبور اور تئیس رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید کا نزول ہوا۔ ہر بالغ، عاقل اور صحت مند آدمی پر اللہ تعالیٰ نے روزہ فرض کیا ہے۔ روزہ صرف کھانے پینے سے رک جانے کو نہیں کہتے بلکہ اس ماہ میں آنکھ، کان، زبان، ناک کا خیال اور جسم کے دیگر اجزاء کا بھی روزہ ہوتا ہے۔ پاکیزگی، پرہیزگاری اور تقویٰ تزکیہ نفس کی مشق اسی ماہ میں ہوتی ہے۔ امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ جو شخص بلا عذر ایک دن ماہ رمضان کا روزہ ترک کرے تو روح ایمان اس شخص سے نکل جاتی ہے، ماہ رمضان کے روزہ کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ جو شخص ماہ رمضان میں تین دن روزہ نہ رکھے اور حاکم شرع کے سامنے تین مرتبہ جرم ترک صوم میں گرفتار ہوچکا ہو تو تیسری مرتبہ وہ شخص واجب القتل ہو جاتا ہے۔

خداوند کریم ہر مومن کو روزہ رکھنے اور قرآن پاک کے تلاوت کرنے کی توفیق دے، کیونکہ ہر موسم کی ایک بہار ہوتی ہے اور قرآن پاک کی بہار کا موسم ماہ رمضان المبارک ہے۔ اس شخص سے بڑھ کر بدنصیب اور بدعاقبت کون ہوگا، جو ماہ مبارک میں بھی بخشش و آمرزش خدا سے محروم رہے۔ اس مبارک مہینہ کی پندرہویں تاریخ کو سبط رسول (ص) امام حسن مجتبیؑ کی ولادت باسعادت ہے، لہذا زیارت جامع اس تاریخ کو پڑھنی چاہیئے اور اکیسویں تاریخ کو سید الاوصیاء، حجت خدا، امام الاولیاء، حضرت علی ابن ابی طالب کی شہادت ہے۔ اسی ماہ میں ایک ایسی رات بھی ہے کہ جو شب قدر ہے، جس میں نزول قرآن ہوا اور جس میں عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادتوں سے بہتر ہے۔ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ماہ رمضان کے ہر آخری دنوں میں افطار کے وقت خداوند عالم ہزار ہزار آدمیوں کو آتش جہنم سے آزاد کرتا ہے اور شب جمعہ اور روز جمعہ تو ہر گھنٹہ میں ہزار ہزار آدمیوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے، جو مستحق عذاب ہوتے ہیں۔  آخری ماہ شب و روز تو اس قدر آزاد کرتا ہے کہ جتنے پورے مہینہ میں آزاد کرتا ہے۔

لہذا ہم پر لازم ہے کہ خواب غفلت سے جاگیں، دینی بدشوقی اور مذہب سے بے توجہی اور بے پرواہی کو دور کریں اور احترام رمضان کے لیے پوری طرح آمادہ ہو جائیں  اور سمجھ لیں کہ موت برحق ہے، اس خواب خرگوشی سے بیدار ہو جائیں اور سفر آخرت کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔ روزے رکھیں، تاکہ نفس کی اصلاح ہو جائے، احترام ماہ رمضان کریں، تاکہ غضب الہیٰ سے بچیں اور توبہ و استغفار کریں، تاکہ دل کی سیاہی نورانیت سے بدل جائے۔ ماہ مبارک رمضان کے فضائل کی کوئی حد نہیں ہے۔ مگر بلحاظ اختصار اتنے ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ شوقین اور دیندار حضرات دیگر کتب کا مطالعہ کریں اور علماء کی صحبت سے فیضیاب ہوں تو مزید معلومات میں اضافہ ہوگا اور دین و دنیا دونوں میں کامیابی حاصل ہوگی۔ خداوند عالم ہم سب کو محمد و آل محمدﷺ کی سیرت پر چلتے ہوئے روزہ رکھنے اور عبادات الہیٰ کو بجالانے کی توفیق عطاء اور عاقبت بخیر فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] امالی: ص 55، وعیون اخبار الرضا: ج1، ص293 و روضة الواعظین و بصیرة المتعظین: ج2، ص346
[2] بحار الانوار، ج 93، ص 342
[3] بحار الانوار ج 93، ص 346
[4] بحار الانوار، ج 96، ص 257
[5] وسائل الشیعة، ج 7 ص 302، ح 3
[6] الكافى، ج 4، ص 62، ح 3
[7] الكافى، ج 4، ص 162
[8] وسائل الشیعة ج 7، ص 294، ح 15 و 16; 27 و 30
[9] (توبه111)
[10] (توبه111)
[11] (توبه112)
خبر کا کوڈ : 926777
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش